Thursday, 25 December 2014

میرے خیالات بچوں کے حصول علم کے متعلق۔


میرے خیالات بچوں کے حصول علم کے متعلق۔
۔
۔
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ
۔
ایک شوق دوسرا خوف، کسی بھی بچہ کے لئے علم کا حصول انہیں دو وجہ سے ممکن ہے۔
لیکن ایک بات زیادہ غور و فکر کی حامل ہے کہ ہم لوگ بچوں میں خوف کچھ زیادہ ہی پیدا کردیتے ہیں، ذرا سی بات پر زدوکوب، لعن طعن، اور طرح طرح سے ٹارچر کرنا اتنا زیادہ ہوجاتا ہے کہ بس الامان والحفیظ۔
بے چارا بچہ ایک مرتبہ کسی وجہ سے غیر حاضری کرے، یا حفظ اسباق میں کوتاہی برتے یا پھر اپنی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے کسی غلطی کا مرتکب ہوجائے تو پھر استاذ اس معصوم کو ایسا ریمانڈ پر لیتا ہے کہ گونتاناموبے کے عقوبت خانے شرما جائیں۔ اس کا رزلٹ اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ سے اگر ایک غیر حاضری ہوجاتی ہے تو وہ پٹائی کے ڈر کی وجہ سے دوسری بھی غیر حاضری کر گذرتا ہے، اسی طرح اگر حاضری میں تاخیر ہوجاتی ہے تو وہ غیر حاضری کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے، اور اگر سبق پوری طرح یاد کرکے بھی آئے تو بھی استاذ کے سامنے  بچے کے دماغ سے سبق ایسا محو ہوتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔بہت سے بچوں کو اسی وجہ سے تعلیم سے سنیاس لیتے ہوئے دکھا جاسکتا ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ بچے کے دل سے استاذ کا خوف بالکل نابود ہوجائے، یا پھر زجر و توبیخ کے مراحل سے بچے کو کبھی بھی نہ گذارا جائے، بلکہ میری معروضات کا مقصود یہ ہے کہ اس کو صرف آٹے میں نمک کی شرح سے رکھا جائے اور اصل چیز بچے کے دل میں حصول علم کا جذبہ، شوق اور علم کے حاصل کرنے کی تمنی پیدا کی جائے، ان بچوں کو علم کے فضائل میں احادیث اور بزرگان دین کے واقعات سنانے کا نظم بھی کیا جائے اور جس طرح بھی ممکن ہو اور جس طریقہ سے بھی آسان سمجھیں ان طلبہ کے اندر حصول علم کا جذبہ، شوق اور تمنی پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی جائے،نیز استاذ کو چاہئے کہ کبھی کبھی بچہ کے اسباق وغیرہ کے متعلق کچھ توصیفی جملے بھی کہہ دیا کریں اور شاگردوں کے ساتھ کبھی کبھی ہنس بھی لیا کریں تو  بہتر رہے۔
اگر گرمی کی بجائے نرمی کا رویہ رکھیں ، غصہ کی جگہ اپنے اندر قوت برداشت پیدا کی جائے اور حکمت کو پیش نظر رکھا جائے تو علم دین کی خدمت زیادہ بہتر ہوسکتی ہے۔
۔
نوٹ: یہ میرے اپنے خیالات ہیں۔ ضروری نہیں کہ آپ بھی ان سے متفق ہوں۔
۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

No comments:

Post a Comment