Tuesday, 30 December 2014

"کتابی کیڑا"

"کتابی کیڑا"
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ

کتابی کیڑا" یہ لفظ ان لوگوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو زیادہ پڑھاکو قسم کے ہوتے ہیں ، اسی طرح انکو "کتابی دیمک"بھی کہا جاتا ہے۔

کسی زمانہ میں مدرسہ مسجد، گھر کے علاوہ ان لوگوں کو بس میں، ٹرین میں، بس اڈے ، ریلوے اسٹیشن، کسی پارک، یا باغ میں بڑی کثرت کے ساتھ دیکھا جاتا تھا، کسی کی میت میں جائیں یا کسی کی شادی میں آئیں یا دیگر کسی بھی قسم کا کوئی سفر ہو ان کے ساتھ کتاب ضرور پائی جاتی تھی۔
گھر میں بیوی کا شکوہ، باہر دوستوں کا رونا یہ ہی ہوتا تھا کہ آپ کتابوں کے علاوہ کسی کو وقت نہیں دیتے، اور کبھی کسی کی جھنجلاہٹ سے بھر پور آواز سنی جاتی "تمہیں تو صرف کتابوں سے عشق اور محبت ہے۔
صحیح بات تو یہی تھی کہ ان حضرات کو تو صرف نئی کتابوں کے حصول اور پرانی کتابوں کی حفاظت ہمہ وقت دامن گیر رہتی تھی ۔
کبھی کتابوں میں پانی پہنچ جانے کا خطرہ تو کہیں کتابوں پر گرد چڑھ جانے کا ڈر اور سب سے بڑا معرض خطر کتابوں کو دیمک کا چاٹ جانا تھا۔

لیکن آج کے دور میں ذہن انسانی نے جدید اختراعات کے زریعہ کتابوں کے لئے پیدا ہونے والے ہر طرح کے امکانی خطرہ کو بھی مفقود کردیا ہے حتی کہ گردوغبار جیسی عام شئی کا بھی کتابوں تک پہنچ پانا محال بنادیا گیا ہے۔
پھر مزید برآں کتابوں کے محفوظات کا دور کہئے یا کتابوں کی تنزلی کا زمانہ۔
یعنی پھر یہ کتابیں انہیں خوبصورت الماریوں کی زینت بن گئی اور کتابی دیمک کی جگہ کمپیوٹر کے وائرس نے لے لی، اور کتابی کیڑے کا مقام کمپیوٹر کے کیڑے کے حصہ میں آیا۔
اور طرہ امتیاز موبائل کا ایجاد ہونا اور کڑوا کریلہ نیم چڑھا اسمارٹ فون کا زمانہ، بس پھر زمانہ کی بجائے انسانی فطرت ہی پوری طرح بدلنے لگی اور اب کتابی کیڑے سے بھی اوپر اٹھ کر موبائلی کیڑے کا ڈنکا چہار دانگ عالم میں بجنے لگا اور ہر چہار جانب موبائلی کیڑے دنیا میں نظر آنے لگے۔ اور موبائل کے نشہ میں فیس بک اور واٹس اپ کا الکحل ایسا سر چڑھ کر بولا کہ اب کسی کو بیوی کیا اپنے ماں باپ بھی یاد نہیں آتے دوست کیا اولاد کی بھی پرواہ نہیں رہتی۔
اور اب وہ زمانہ ہے جب دینی علوم کی بنا پر نہیں بلکہ موبائل اور کمپیوٹر کی معلومات پر لوگوں کو علامہ کہا جانے لگاہے۔
آپ خود محاسبہ کیجئے اپنی کتابوں اور موبائل کا، سب کچھ سمجھ میں اجائے گا۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

No comments:

Post a Comment