کیا آپ کو یاد ہے؟
6 دسمبر 1992 کا وہ دن جب اللہ کے گھر کو اللہ کے دشمنوں نے مسمار کردیا تھا اور آج تک بھی اللہ کے بندے کہلائے جانے والے مسلمان کچھ نہ کرسکے۔
1557ء میں اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں ظہیر الدین بابر کے حکم سے ایک مسجد تعمیر کرائی گئی تھی جو بعد میں بابری مسجد کے نام سے مشہور ہوئی۔
اسلامی فن تمیر کے اس شاہکار پر تین گنبد بڑے خوبصورت انداز سے تعمیر کئے گئے تھے جن مین ایک بڑا اور دو چھوٹے گنبد تھے اور ان گنبد کے علاوہ باقی مسجد پتھر سے تعمیر کی گئی تھی۔
ٹھنڈ حاصل کرنے کے لئے چھت کو بلند رکھا گیا تھا اور ہوا اور روشنی کے لئے جالی دار پر زینت کھڑکیاں نصب کی گئی تھی۔
سب سے خاص بات یہ تھی کہ محراب میں سرگوشی کرنے والے کی آواز پوری مسجد میں سنی جا سکتی تھی۔
اس کے علاوہ مسجد میں ایک کواں بھی تھا۔
معلوم یہ ہوتا ہے کہ مسجد کو پر رونق، خوبصورت اور دیدہ زیب بنانے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی سہولت کا بھی خیال رکھا گیا تھا۔
۔
مسجد کو شہید کس نے کیا یہ بات ہم پوری طرح جانتے ہیں یہاں طوالت کی وجہ سے ذکر نہیں کیا جا سکتا ہے۔
البتہ اشارۃ یہ ہے کہ 1992 میں ہندو انتہا پسند تنظیمیں آر ایس ایس، بی جے پی۔ وی ایچ پی، شوسینا وغیرہ نے ایڈوانی کی قیادت میں ایک ریلی نکالی جس کے نتیجہ میں بابری مسجد کو ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی جمہوریت کے ساتھ ساتھ ہندو مسلم اتحاد کو بھی تہس نہس کردیا گیا تھا۔
اور بابری مسجد کی شہادت کے غم کے ساتھ مسلمانوں کی جان اور عزت کو پامال کر دیا گیا تھا۔
مزید جلے پر نمک اس طرح چھڑکتے ہیں جب معلوم ہوتا ہے کہ رام سیوک اپنی ساتھ بابری مسجد کی اینٹ یا پتھر لائے تھے اور اس کو فلاں جگہ رکھ کر آج تک پیشاب کرایا جاتا ہے
اور قانون کی دھجیاں اس طرح اڈائی گئی کہ آج تک اللہ کے یہ مجرم آزاد گھوم رہے ہیں۔
واللہ المستعان۔
زخم پر زخم اس وقت لگا جب 2010 میں ہندوستان کی ایک عدالت نے گواہ اور ثبوتوں کو پس پشت ڈال کر محض آستھا کے نام پر ایک پنچایتی نوعیت کا فیصلہ سنایا تھا۔
۔
ویسے مقدمہ اب عدالت عظمی میں ہے لیکن ہم جانتے اور سمجھتے ہین کہ مسلمانوں کو کیا ملنے والا ہے۔
و کفا باللہ وکیلا
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی
No comments:
Post a Comment