Thursday, 25 December 2014

ایک درخواست یا ایک حقیقت

ایک درخواست یا ایک حقیقت۔
۔
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ۔
۔
یہ حقیت شک و شبہ سے بالا تر وطن عزیز کی تاریخ میں آب زر سے تحریر ہے کہ نہ محض آزادی بلکہ ہندوستان کے دفاع میں بھی مسلمان ہمیشہ صف اول کے مجاہد رہے ہیں ، اور یلغار دشمن کے سامنے ہمیشہ شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح سینہ سپر رہے ہیں ۔
اگرچہ آزادی کے بعد کے ان دشوار گزار سالوں میں مسلمانوں کی سنہری قربانیوں کو تاریخ کے اوراق سے مٹانے کے لئے گو ناکام مگر بھر پور کوشش کی گئی ۔ اس ایثار و قربانی کا صلہ مسلمانوں کو اکثر مسلم کش فسادات کے ذریعہ دیا گیا جن میں انکے بچوں کو یتیم اور اولاد کو بے سہارا بنادیا گیا اور انکی عورتوں کو بیوہ اور دوشیزاؤں کی عزتوں کو تار تار کردیا گیا، نیز مسلمانوں کو گھروں سے بے گھر میدان اور صحراؤں میں رہنے پر مجبور کردیا گیا۔
نیز اس وطن عزیز میں آزادی کے اس "سنہرے"دور میں مسلمانوں کو ایسے دن بھی دیکھنے پڑے جب مسلمانوں کی مساجد کو مسمار کیا گیا، مدارس کو دہشت گردی کے اڈے بتا کر ان کو بند کرنے کی ناپاک سازش رچی گئی اور بے قصور و بے گناہ نوجوانان اسلام پر سنگین الزامات لگا کر پس زنداں مقید کیا گیا۔
قارئین کرام!
وطن عزیز کی آزادی کے ان سنہرے سالوں میں مسلمانوں پر مظالم کی داستان شیطان کی آنت سے زیادہ طویل، شب تاریک سے زیادہ سیاہ اور ناسور سے زیادہ درد ناک ہے۔
لیکن آج تک کئے گئے مظالم کے پہاڑ اس تازہ ترین ظلم کے سامنے کوتاہ معلوم ہورہے ہیں ،اس زخم کے مقابلے میں درمیان میدان تنکے کی طرح نظر آرہے ہیں جو ہمیں چند دن پہلے ہندو انتہا پسند تنظیموں نے دیا ۔
کیوں؟
کیوں کہ معاملہ مسلمانوں کے ایمان کا ہے، ہاں ہاں!! وہی ایمان جس کے لئے مسلمان جیتا ہے، وہی ایمان جس کے لئے مسلمان مرتا ہے، وہی ایمان جس کے لئے مسلمان سب کچھ کرتا ہے اور شاید اس بات کو یہ دشمنان خدا بھی جانتے ہیں۔ اسی  لئے تو ان لوگوں نے اسی ایمان پر ضرب لگانے کی کوشش کی ہے، اسی ایمان کو مسلمانوں سے چھینے کی کوشش کی ہے۔ اور مسلمانوں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کیا ہے۔
میرے عزیزو!
حقیقت میں مسلمان آج پریشان، حیران، ششدر، غم میں ڈوب ہوئے، چاک گریباں رنجیدہ حالت میں چوراہے پر کھڑے ہیں۔
آپ جانتے ہیں مسلمانوں کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے سوائے رب ذوالجلال کی پناہ کے، کوئی مددگار نہیں ہے سوائے قادر مطلق کی مدد کے ، کوئی دستگیر نہیں سوائے ذوالقو ة المتین کے، اور وہ واقعی کیا شاندار حامی و ناصر ہے، چلو اسی کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اسی سے مدد مانگتے ہیں اور دوسروں تک بھی یہ بات پہنچاتے ہیں، خاص طور سے مساجد کے ائمہ جمعہ میں؛ بلکہ ہر نماز میں خود بھی مسلمانون کے لئے دعا کریں اور دوسرے نمازیوں کو بھی اس کی تلقین کریں۔
۔
۔
نیز برادران اسلام سے عجزو انکساری سے بھر پور ایک درخواست ہے کہ آپس میں اکرام کا معاملہ ضرور کریں،  اپنے آس پاس، قریہ قریہ، بستی بستی معلوم کریں کہ کتنے مسلمان بے سہارا بے علمی جہالت اور غربت کی زندگی گزار رہے ہیں، پھر انکی مدد بھی پوری ایثار و قربانی سے کریں۔
اب آپ اس کو بندہ کی طرف سے ایک درخواست کا نام دیجئے یا ایک حقیقت کا۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

No comments:

Post a Comment