بہترین باپ اور بہترین استاذ بنئے!
۔
۔
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ
۔
۔
ہمارا یہ بچہ بہت کند ذہن ہے، یہ تو کچھ پڑھ کر ہی نہین دیتا، بالکل غبی ہے، اجی بالکل ٹھپ ہے، وغیرہ وغیرہ ایسے جملے اپنے لخت جگر کے لئے بہت سے والدین کی زبانوں پر جاری ہوتے ہیں، نیز کچھ اساتذہ بھی ایسے ہی یا ان سے ملے جلے جملے اپنے شاگردوں کے لئے کثرت سے استعمال کرتے ہیں، حلانکہ یہ جملے نہیں نشتر ہیں جو ان بچوں اور طلبہ کے سینے مین بڑی بے دردی سے گھونپ دئے جاتے ہیں۔ اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان کڑوی کسیلی باتوں کے ذریعہ ان معصوم نونہالوں کو ذلت، پستی اور احساس کمتری کی گہری کھائی میں دھکیلنے والے ان کے اپنے اساتذہ اور جنم دینے والے والدین ہی ہوتے ہیں۔
بہت سی مرتبہ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ والدین کی ایسی بری باتوں اور حوصلہ شکنی کی وجہ سے بچے غلط راہ روی اختیار کرلیتے ہیں اور اساتذہ کی انہیں لعن طعن کی وجہ سے بہت سے طلبہ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
اب آپ ہی بتائے ان بچوں کی حوصلہ شکنی، احساس کمتری اور تعلیم سے بے زاری کا ذمہ دار کون ہے۔
میرا ماننا یہ ہے کہ اکثر و بیشتر بلکہ ہزار میں سے 999 بچے کند ذہن نہین ہوتے، ہاں اتنا ضرور ہے کہ بعض بچوں کے لئے اپنے ذہن کو جمانا اور کسی خاص چیز پر فوکس کرنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے اسی لئے ایسے بچے جب اپنا ذہن جمانے، فوکس کرنے اور دماغ کو وسعت دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر بڑے بڑے ذہین بچوں کو پچھاڑ دیتے ہیں، جبکہ اکثر ذہانت کا تمغہ حاصل کرنے والے بچے عیاشی اور بے راہ روی کی طرف نکل جاتے ہیں، گویا خرگوش اور کچھوے کا مقابلہ ہوا۔
اور یہ بے چارے مظلوم و معصوم بچے اپنی زندگی کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے فا ئٹ، مقابلہ، جہد مسلسل اور سخت محنت کے ایسے عادی ہوجاتے ہیں کہ پھر کامیابی انکے گھر کی مرغی ثابت ہوجاتی ہے۔
اسی لئے آپ اگر بہترین باپ اور کامیاب استاذ بننا چاہتے ہین تو اپنے بچوں اور شاگردوں کے مزاج کو سمجھئے اور ان کا حوصلہ بڑھا کر کامیابی اور منزل کو حاصل کرنے میں ان کے مددگار بن جائیے ۔
۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی
No comments:
Post a Comment