تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
۔
از قلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ
۔
"علماء کرام انبیاء کے وارث ہیں"
یہ بات شک و شبہ سے بالاتر اور روز روشن کی طرح عیاں، بالکل صاف اور اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے، علماء کا مخالفین طبقہ ایک روز علماء کرام کے بلند مقام و اعلی مرتبہ کا تہ دل سے معترف ضرور ہوجاتا ہے۔ فرمان خدا اور اقوال رسول میں فضائل علماء کا ذکر کجا کجا نہیں بلکہ جا بجا آیا ہے۔
لیکن دور حاضر میں علماء کرام نے اپنے آپ کو جس طرح محدود کیا ہے یہ امر قابل افسوس بلکہ صد افسوس ہے۔
آپ ہی دیکھئے سیاست سے دور، صحافت میں پچھڑا ہوا، فنون حرب میں ناکارہ، ہمارے یہاں اردو زبان میں سمٹا ہوا مساجد و مدارس کی چہار دیواری میں قید بالکل محدود انداز میں انبیا کی وراثت کو سمیٹے ہوئے ایک طرف پڑا ہے۔
کبھی امراء، وزرا، شاہوں، ڈکٹیٹروں، کفار، اور ظالمین سے نہ گھبرانے والے اس طبقہ کے لئے مساجد و مدارس کی چہار دیواری کا یہ قفص بہت محدود، تنگ اور چھوٹا ہے۔
۔
علماء کرام کے لئے ہر شعبہ میں پیش قدمی کرنا بہت ضروری ہے، گھر میں جوتے سینے سے لیکر میدان کار زار میں خون بہانے تک، مسئلہ بیان سے لیکر تجارت کرنے تک، مسجد کے محراب سے فرمان خدا بیان کرنے سے لیکر سیاست کے میدان سے صدا بلند کرنے تک
معاش کی تنگی، ظلم و زیادتی، لعن طعن، گالی گلوچ، سب و ستم اور برا بھلا علماء کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وراثت میں ملا ہے، نہ ہمارے نبی ان برائیوں کی وجہ سے محدود ہوئے اور نہ علماء کو اس کی کبھی پرواہ ہوئی اور نہ اب ہونی چائے۔
۔
مال و دولت، عیش پرستی، عارضی چین و سکون، حسین و جمیل محلات، سونے چاندی کی مصنوعات، لولو مرجان کے جواہرات، ریشم و سوت کے قیمتی ملبوسات کا نہ کبھی علماء کو شوق رہا اور نہ اب ہونا چاہئے۔
۔
بس علامہ اقبال نے بالکل صحیح کہا ہے۔
نہیں ہے تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
۔
۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی
No comments:
Post a Comment