رمضان کیسے گذاریں؟
۔
ازقلم: چاہت محمد قریشی قاسمی
اللہ تبارک وتعالی نے جن پانچ چیزوں کو اسلام کی بنیاد بنا یا ہے ۔ انہیں میں سے ایک روزہ ہےروزہ ہجرت کے ۱۸ مہینے بعد مسلمانوں پر فرض کیا گیا تھا لہذا اس کا انکا ر کفر ہے اور اس کا ترک کرنا گناہ کبیرہ ہے اس مہینہ میں اللہ تبارک تعالی خصوصی رحمتیں فرماتا ہے اور ثواب بڑھادیتا ہے لہذا حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص اس مہینہ میں اللہ کی رضاء اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانہ کے فرضوں کے برابر ثواب ملے گا ، اس مہینہ میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانہ کے ستر فرضوں کے برابر ہے،(بیھقی) اور ایک اور حدیث میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا: آدم کے بیٹے کے تمام نیک اعمال کا بدلہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک دیاجائے گا۔ (حدیث قدسی میں )اللہ تعالی فرماتا ہےسوائے روزہ کے(یعنی روزہ اس عام قانون سے الگ ہے)۔ بلاشبہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوںگا۔ انسان اپنی شہوت اور کھانے پینے کو میری رضا کے لیے چھوڑتا ہے۔ روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں۔ ایک خوشی جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اوردوسری خوشی جب اس کی اس کے پروردگار سے ملاقات ہوگی(اور یہی اصل خوشی ہے بلکہ کہا جائے کہ اس سے بڑی ٰخوشی کیا ہوگی کہ اللہ تبارک وتعالی نے روزہ دارسے ملاقات کا وعدہ فرمایا ہے) اور روزے دار کے منہ کی بو اﷲ کے ہاں مشک کی خوشبو سے زیادہ بہتر ہے ۔(بخاری ومسلم)
روزہ طاقت پیدا کرتا ہے
دین کے جتنے ارکان ہیں وہ طاقت پیدا کرتے ہیں ،یعنی ایک عبادت دوسری عبادت کے لئے معاون ثابت ہوتی ہے ا وراس کے لئے تقویت کاباعث بنتی ہے ،جس طرح سے ایک غذا دوسری غذا کے لئے معاون ثابت ہوتی ہے ،اسی طرح ایک فرض کی ادائیگی دوسرے فرائض کی ادائیگی میں معاون ثابت ہوتی ہے ا ور اس کو طاقت فراہم کرتی ہے ،یہ بات نہیں ہے کہ ہررکن الگ الگ ہے ،ہرایک کی فرضیت او را س کی اہمیت تو بہر حال اپنی جگہ ہے ،مگر ایک دوسرے سے الگ نہیں ؛ بلکہ ایک دوسرے کی مدد کے لئے ہے ،اسی طرح سے روزہ سال کے پورے گیارہ مہینے کی عبادت کے لئے طاقت پیداکرتا ہے ، روزہ کی وجہ سے دوسری عبادات کی ادائیگی میں ذوق وشوق پیداہوتا ہے اور توانائی ملتی ہے ۔
روزہ کا مقصد نفس پر قابو پانا ہے: روزہ کا مقصد یہ ہے کہ نفس پر قابوپایا جائے او رروزہ کی وجہ سے نفس پر قابوپانا آسان ہوجائے ،دین کا ذوق وشوق پیدا ہو،عبادت کی ادائیگی میں شوق ہو،اور ہرکام کے کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی مرضی کا خیال رکھاجائے ،حلال وحرام کی تمیز ہوجائے ،اور یہ سب چیزیں ا س طرح سے ہوں کہ ان کی مشق ہوجائےاور ہماری فطرت بن جائے ،جس طرح سے آپ نے رمضان میں کھانا پینا اس طرح چھوڑا کہ آپ عید کے دن کھانے پینے میں جھجک محسوس کرتے ہیں، اور آپ کوکھانا پینا خلافِ عادت معلوم ہوتا ہے ،حالانکہ نہ کھانا پینا عارضی چیز تھی ؛اسی طرح سے گناہوں سے اجتناب ،معاصی سے پرہیز،غیبت وبدگوئی ،غصہ وبغض سے پرہیز اس طرح ہوکہ آپ کی فطرت بن جائے ،جوچیزیں دائمی طور پر حرام ہیں ان کو کرنے میں تو اور بھی زیادہ آپ کو چوکنا رہنا چاہئے۔
روزے میں گناہوں سے پرہیز: روزہ سے زندگی میں تبدیلی ہونی چاہئے ۔آپ روزہ رکھیں لیکن گالی دینا ،غیبت کرنا ،بدگوئی وغصہ وبغض کرنا نہ چھوڑیں تو روزہ کا کوئی فائدہ نہیں ۔یاد رکھئے حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے برے کام نہ چوڑے تو اللہ تعالی کو اس کے روزہ کی کوئی ضرورت نہیں (بخاری) حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا: ”کتنے روزے دار ہیں جن کو ان کے روزوں سے صرف بھوک اور پیاس حاصل ہوتی ہے اور کتنے رات کو قیام کرنے والے ہیں کہ ان کو ان کے قیام سے صرف ”رت جگا“ حاصل ہوتا ہے۔“ ( مشکوٰة )معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں روزے کے مقبول ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ معصیات ومنکرات سے بھی زبان ودہن اور دوسرے منکرات کی حفاظت کرے اگر کوئی شخص روزہ رکھے اور جھوٹ بولے ، حرام کھائے گالی گلوچ کرے (چاہے انسان کودے یا جانور کو)یا اور کسی طرح کے گناہ میں شامل ہو تو اللہ تعالی اس کےروزہ کی کوئی پرواہ نہیں کرتا ہے۔
روزہ اور غصہ: آپ اس طرح سے روزہ رکھئے کہ کوئی غیرمسلم بھی دیکھے توسمجھے کہ یہ واقعی روزہ رکھتے ہیں او ریہ رمضان کے دن ہیں ،پورے احترام کو ملحوظ رکھاجائے اورتمام تقاضوں کو پورا کیا جائے یہ نہیں کہ آپ ہر وقت غصہ میں بھرے بیٹھے رہیں کہ میں روزہ سے ہوں کوئی آپ سے بات کرنا چاہےلیکن دہشت زدہ رہے کہ بھائی روزہ سے ہیں غصہ آجائے گا گھر والے الگ گھبرائیں کہ صاحب روزہ سے ہیں ۔ بھائی! یہ کیسا روزہ ہوا،روزہ تو ایسا ہونا چاہئے کہ اگر آپ کو کوئی گالی بھی دے تو کہدیں میں روزہ سے ہوں کوئی لڑائی کرنا چاہے تو کہدیں کہ میں روزہ سے ہوں یہیں تو روزہ ہے جو اللہ کو چاہئے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جب تم میں سے کوئی شخص روزہ رکھے اور اس سے کوئی الجھنے لگے تو کہہ دے کہ میں روزہ سے ہو ں(بخاری ومسلم)
سخاوت و خیر خواہی کا مہینہ:حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بھلائی اور خیر میں سب سے زیادہ سخی تھے اور مضان میں آپ کی یہ سخاوت اور زیادہ ترقی کر جاتی تھی۔ رمضان کی ہر رات میں جبرئیل امین آپ سے ملتے تھے اور رسول اللہ ﷺ ان کو قرآن مجید سناتے تھے۔ تو جب روزانہ جبرئیل آپ ﷺ سے ملتے تو آپ ﷺ کی اس کریمانہ نفع رسانی میں اور بھی زور پیدا ہوجاتا ۔(بخاری)لہذا معلوم ہوا کہ رمضان کا مہینہ یہ خیر خواہی اور سخاوت کا مہینہ ہے اور یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ یہ ہمارا مال نہیں جسے ہم خرچ کرتے ہیں ،بلکہ یہ اللہ کی امانت ہے ، ہم اگر اس کوغلط جگہ میں خرچ کرتے ہیں تو غلط کرتے ہیں ،اگر اس کو بے محل خرچ کرتے ہیں تو ناجائز کرتے ہیں ،ہمارے لئے جائز نہیں کہ ہم اس کو صرف کریں ،ہمیں اس کی فکر ہونی چاہئے کہ کتنی بیوائیں او ریتیم ہیں، کتنے محتاج ومساکین ہیں جنہیں ضرورت ہے ؟ہمیں ان تمام جگہوں پر صرف کرنا چاہئے جہاں دوسروں کی مددہوسکے او راللہ تعالیٰ راضی ہولہذا اس مہینہ میں کوشش ہونی چاہئے کہ ہم زیادہ سے زیادہ مال اللہ کے راستے میں خرچ کریں۔ ہماری یہ حالت ہوتی ہے کہ ہمارے دستر خوان پر ہر طرح کا پھل اور طرح طرح کے کھانے ہوتے ہیں بہت سے سڑ جاتے ہیں اور کتنے ہیں خراب ہوجاتے ہیں لیکن ہمارا پڑوسی بلکہ یتیم غریب رشتہ دار اور مسکین ہمسایہ بھوکہ ہوتا ہے پورا رمضان گزر جاتا ہے لیکن ہم کبھی بھی اس کا خیال نہیں کرتے ہیں حالاکہ اللہ کے نبی کا ارشاد ہے کہ وہ مؤمن کامل نہیں ہوسکتا جو پیٹ بھر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی بھکا ہو ۔نیز روزہ دار کا روزہ افطار کرانا تو اور بھی بڑا ثواب ہے کہ حدیث میں ہے کہ جس نے اس مہینہ میں کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرایاتو اس کے لئے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا، اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا اور روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی، آپ سے عرض کیا گیا کہ یارسول اللہ ﷺ ہم میں سے ہر ایک کے پاس افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا آپ نے فرمایا اللہ تعالی یہ ثواب اس شخص کو بھی دیگا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دارکا روزہ افطار کرادے۔ اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلادے تو اللہ تعالی میرے حوض (کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا کہ جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی تا آنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے۔ اس لئے ہم میں سے ہر آدمی کو چاہئے کہ اس مہینہ میں ایک دوسرے کے روزے افطار کرانے کا معمول بنائیں۔
روزہ اور قرآن کی شفاعت:اس مہینہ میں قرآن کی تلاوت کا معمول بہت کثرت سے ہونا چاہئے کیوں کہ رمضان اور قرآن کا بہت گہرا رشتہ ہے کہ رمضان کو اللہ تعالی نے قرآن میں ذکر فرما کر رمضان کی اہمیت زیادہ کردی اور قرآن کو اللہ تبارک وتعالی نے رمضان کے مہینہ میں نازل فرمایا ہے اور قیامت کے دن یہ دونوں اللہ تبارک تعالی سے سفارش کریں گے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا روزہ اور قرآن دونوں بندے کی سفارش کریں گے (یعنی اس بندے کی جو دن میں روزے رکھے گا اور رات میں اللہ کے حضور کھڑے ہوکر اس کا پاک کلام سنے گا یا پڑھے گا) روزہ عرض کرے گا کہ اے میرے پرور دگار! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پورا کرنے سے روکے رکھا تھا ، آج تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما(اور اس کے ساتھ رحمت ومغفرت کا معاملہ فرما)۔ اور قرآن کہے گا کہ میں نے اس کو رات کو سونے اور آرام کرنے سے روکے کھا تھا یا اللہ اس کے حق میں آج میری سفارش قبول فرما(اور اس کے ساتھ رحمت ومغفرت کا معاملہ فرما) چنانچہ اس کے حق میں ان دونوں کی سفارش قبول کردی جائے گی(اور اس کے لئے جنت و مغفرت کا فیصلہ فرمادیا جائے گا )
آخری عشرہ اور شب قدر:جس طرح رمضان المبارک کو دوسرے مہینوں کے مقابلہ میں فضیلت حاصل ہے اسی طرح اس کا آخری عشرہ پہلے دونوں عشروں سے بہتر ہے اور شب قدر بھی اکثرو بیشتر اسی عشرہ میں ہوتی ہے اس لئے رسو اللہ ﷺ عبادت وغیرہ کا اہتمام اس میں اور زیادہ کرتے تھے اور دوسروں کوبھی اس کی ترغیب دیتے تھے ۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت وغیرہ میں مجاہدہ کرتے اور وہ مشقت اٹھاتے تھے جو دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔ (مسلم)۔ ایک اور حدیث میں حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول ﷺ کمر کس لیتے اور شب بیداری کرتے (یعنی پوری رات عبادت اور ذکر الہی میں مشغول رہتے) اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی جگادیتے (تاکہ وہ بھی ان راتوں کی برکتوں اور سعادتوں میں حصہ لیں) (بخاری)
اور یہی آخری عشرہ ہے کہ جس میں اکثر وبیشتر شب قدر ہوتی ہے اور وہ ایسی فضیلت کی رات ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے متعلق قرآن کریم میں پوری ایک سورت ناز ل فرمائی ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی جگہ اس کی فضیلت کا تذکرہ کیا ہے وہ ایس رات ہے کہ آدمی ایک ہزار راتوں میں عبادت کرے اور صرف اس ایک رات میں عبادت کرے تو اس اکیلی شب قدر کی عبادت ایک ہزار راتوں کی عبادت سے زیادہ ہوجائے گی۔ اوریہ ایسی رات ہے کہ جس میں اللہ تبارک وتعالی تمام مخلوق کی قضاو قدر کے فیصلہ فرماتا ہے۔
رمضان کی آخری رات :ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان کی آخری رات کو ہمارے یہاں وہیں خرافات شروع ہوجاتی ہیں جو کہ رمضان سے پہلے تھیں کہ رمضان میں جن لوگوں کے چہروں پر دھاری نظر آتی تھی اس رات میں وہ دھاری کٹاتے ہیں اور نائی کی دکانوں پر بہت ازدحام نظر آتا ہے اور ڈیجے گانے بجانے ناچنے اور ہر طرح کی خرافات کرتے ہیں حالاکہ اصل با ت تو یہ ہے کہ روزہ میں آپ نے معاصی سے اجتناب کیا ہے تو اس پر قائم رہئے، او ران معاصی کا ارتکاب نہ کیجئے جن کو آپ نے روزہ کی وجہ سے چھوڑدیا تھا ،اگر روزہ کے ختم ہوتے ہی تمام معاصی میں پھر مبتلا ہوگئے ہیں تو اس سے یہی بات سمجھ میں آئے گی کہ اس نے روزہ تورکھا مگر روزہ مقبول نہیں ہوا ۔خدا را اس رات کی قدر کیجئے کیوں کہ نبی کریم ﷺ نے فرما کہ رمضان کی آخری رات میں آپ ﷺ کی امت کے لئے بخشش اور مغفرت کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ آپﷺ سے دریافت کیا گیا : یا رسول اللہ ﷺ کیا وہ شب قدر ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں شب قدر تو نہیں ہوتی لیکن بات یہ ہے کہ عمل کرنے والا جب اپنا عمل پورا کردے تو اس کو پوری اجرت مل جاتی ہے۔ (رواہ احمد)معلوم ہوا کہ رمضان کی آخری رات بھی عبادت کی رات ہے نہ کہ معاصی اور گناہوں کی رات۔
Friday, 26 December 2014
رمضان کیسے گذاریں؟
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment