بگلہ بھگت
۔
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ
۔
وہ مہینوں سے پانی میں کھڑا تپسیا اور گنڑوت میں مشغول تھا۔ بار بار اپنے پاپوں کے پراشچت میں اسنان کرتا، ہر وقت توبہ توبہ کی مالا جپتا، آئندہ گناہ نہ کرنے کی قسمیں کھاتا، حتی کہ پانی میں رہنے والی مچھلیوں کو اس کے بھگت ہونے پر پختہ یقین ہوگیا اور اس محدود سے پانی مین رہنے والے سب جانور اس کی توبہ پر ایمان لے آئے، جس کا جیتا جاگتا ثبوت پانی کی مچھلیوں کا اس کے ارد گرد، آگے پیچھے، قریب سے قریب تر، قدموں کے نیچے، بلکہ چونچ کے بالکل قریب بے دھڑک گھومنا پھرنا تھا، لیکن مجال کیا تھی کہ اس بگلے بھگت کی تپسیا ذرا بھی بھنگ ہوتی، یا کبھی کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھتا۔
آخر گرمی کا موسم اپنے پورے شباب کے ساتھ آ وارد ہوا، بارش کی کمی کے سبب تالاب میں پانی کم پڑنے لگے، جس کی وجہ سے مچھلیوں کو جگہ کی تنگی کا احساس ستانے لگا اور آئندہ بھی بارش نہ ہونے کا خطرہ سرپر منڈلانے لگا۔
آخرکار مچھلیوں کے لیڈر نے اس چھوٹے سے تالاب کے کشادہ کونے میں ایک کانفرنس کا انعقاد کرکے اپنی قوم کو اس پریشانی اور مشکل سے بچانے کے لئے ایک تدبیر اوراُپائے تلاش کرہی لیا اور مچھلیوں کا ایک وفد بگلے بھگت کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست پیش کی:
"عالی جناب! ہم مدت دراز سے آپ کو عبادت وریاضت میں مشغول پاتے ہیں، آپ کی شرافت کا ڈنکا پورے تالاب میں ببانگ دھل بج رہا ہے، عالی وقار! مخلوق خدا کی خدمت بھی کار ثواب اور باعث رضاء الہی ہے، لہذا ہماری آپ سے درخواست ہے کہ اس مشکل گھڑی میں ہمیں ذات اقدس سے استفادہ کا موقع عنایت فرمائیں، اور ہماری مدد فرمائیں ۔
بگلہ بھگت نے کھنکھار کر گلہ صاف کیا۔ آنکھیں جھکا کر گردن نیچے کی۔پھر دھیمی اواز سے گویا ہوا:
مجھے یہ گوارا تو نہیں ہے کہ ریاضت و عبادت سے پلک جھبکنے کے برابر بھی غافل رہوں لیکن آپ سب کی مجبوری دیکھ کر مجھے بھی مجبور ہونا پڑتا ہے۔ شاید تمہاری خدمت سے میرا رب راضی ہوجائے،آپ کی خدمت میرے لئے سعادت کی بات ہوگی، حکم دیجئے،گناہ گار ہمہ وقت حاضر
بس پھر کیا تھا، گویا مچھلیوں کی عید ہوگئی، ہر طرف سے "پہلے میں، پہلے میں" کی صدائے بلند ہونے لگی، قرعہ اندازی کے بعد میاں بگلے بھگت چند مچھلیوں کو منہ مین دبا کر دوسرے بڑے تالاب میں چھوڑنے کے نام سے نکلے اور پھر ؎
بگڑتی ہے جب ظالم کی نیت
نہیں کام آتی دلیل اور حجت
آپ ان مچھلیوں کو چٹ کرنے کے بعد منہ اچھی طرح صاف کرتے۔ چولا پہنتے، پھر تالاب میں آکھڑے ہوتے اور بن جاتے بگہ بھگت
یہ تو کہانی تھی بگلے بھگت کی۔ اب ذرا آپ ہمارے ملک کے وزیراعظم کی طرف آجائیے، ان کو بگلے بھگت کی کسوٹی پر پرکھئے! یقینا آپ کو ہوبہو وہی نظر آئیں گے۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی
No comments:
Post a Comment