2014 سے 2015 تک
۔
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ سہارنپور یوپی انڈیا
۔
شاید میں اس مضمون کو آئندہ سال تک لکھتا رہوں۔
معروضات پیش کرتا ہوں: نہ تو مجھے سال 2014 کا محاسبہ کرنا ہے، نہ آپ لوگوں کو محاسبہ کرنے کی دعوت دینی ہے، اور نہ میں 2015 کے شروع ہونے کی آپ کو مبارک دینا پسند کرتا ہوں۔
ہاں، آج بہت افسوس بلکہ صد افسوس کا مقام ہے کہ مسلمانوں کے کلچر اور مسلمانوں کے شعار صلیبیوں کے زیر تسلط ایسے آئے کہ مسلمان اپنے دشمنوں کے شعار پر خوشی کا اظہار کرتے نہیں تھکتے۔ ہمیں احساس بھی نہیں ہے کہ ہم نے اپنا سب کچھ ضائع کرکے دشمنوں کی رسی کو مضبوطی سے تھاما ہے اور ان صلیبیوں کے پیچھے ایسے دم ہلاتے ہوئے دوڑ لگائی ہے جیسے کتا ہڈی دیکھ کر اپنے مالک کے پیچھے پیچھے بھاگتا ہے۔ ان کفار و مشرکین کے خود ساختہ تہواروں کو مسلمانوں نے اس طرح اپنایا کہ خود یہ اللہ کے دشمن کفار و مشرکین بھی مسلمانوں سے پیچھے رہ گئے۔ نیا سال، برتھ ڈے، فرینڈ شپ ڈے، مدر ڈے، کرسمس، وغیرہ وغیرہ سب ہم خوشی خوشی مناتے ہیں، ایک دوسرے کو گفٹ اور مبارک باد اس طرح دیتے ہیں جیسے ان دنوں سے زیادہ خوشی کا دن کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا۔
۔
علامہ اقبال نے صحیح فرمایا تھا:
۔
وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔
۔
۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی
Wednesday, 31 December 2014
2014 سے 2015 تک ۔
"شدت پسند مولوی"
"شدت پسند مولوی"
۔
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ سہارنپور یوپی انڈیا۔
۔
۔
اگر میاں: بیوی کو محبت، غصہ یا نشہ میں طلاق دے دے اور مولوی سے مسئلہ پوچھا جائے تو یہ شدت پسند مولوی دونوں میاں بیوی میں تفریق اور جدائی کا حکم لگادیتا ہے، یہ شدت پسند مولوی کہتا ہے کہ کسی غیر محرم عورت کو مت دیکھو، اس شدت پسند مولوی کو اسی پر صبر نہ آیا بلکہ اپنی تقریر میں لوگوں کو یہاں تک کہہ ڈالا کہ اپنی حسین، مہ جبین، ماہتاب، حور عین عورتوں کو پردوں میں رکھا کرو، اوریہاں تو شدت کی انتہا کردی۔ کہتا ہے: عورت کی آواز بھی پردہ میں شامل ہے، اس شدت پسند مولوی نے گرل فرینڈ بوائے فرینڈ پر بھی فتوی ٹھوک ڈالا۔
اس شدت پسند مولوی نے کیا کیا نہ کیا؟ زنا کاری پر قرآن کی آیت سنا ڈالی بس پھر کام بنتے بنتے رہ گیا، اس شدت پسند مولوی نے فلموں سے روکا، چوری چکاری سے باز رکھا، حرام کاری نہ کرنے دی، غیبت، چغل خوری، نا اتفاقی، وغیرہ سب کو برا بتایا، اور اسی پر انتہا نہ کی بلکہ اس شدت پسند مولوی نے ہمیں کاروبار میں حرام و حلال بتا ڈالا، ہائے شدت پسند مولوی!!! کبھی کہتا ہے ڈارھی رکھو، کبھی کہتا ہے لباس ایسا نہیں ایسا ہونا چاہئے، کبھی کہتا ہے، نماز پڑھو، کبھی کہتا ہے قرآن پڑھو، کبھی حدیث کی تعلیم دیتا ہے، کبھی فقہ کا درس دیتا ہے ، کبھی سنت پر عمل کرنے کی درخواست کرتا ہے۔
بھلا اس کو شدت پسند کیوں نہ کہوں؟ آپ ہی دیکھو! یہ شدت پسند مولوی خود تو ہر وقت دینی امور میں مگن رہتا ہے، اتنی بڑی ڈاڑھی رکھ لی، اونچا پاجامہ پہن لیا ، نیچا کرتا زیب تن کر لیا، سر پر ٹوپی رکھ لی ، پھر نہ کبھی فلم دیکھنے کسی سنیما گھر میں جاتا ہے، نہ کوئی گرل فرینڈ رکھتا ہے، حرام کھاتا ہے نہ کسی کو دھوکا دیتا ہے، لڑائی جھگڑا کرتا ہے نہ فتنہ و فساد پھیلاتا ہے، تھوڑی سی تنخواہ پر صبر و شکر سے گذارا کرتا ہے، نیچی نگاہ رکھتا ہے، اور ہمیں بھی اپنے جیسا بن جانے کا حکم دیتا ہے۔
توبہ توبہ!!!!
۔
۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی
Tuesday, 30 December 2014
"کتابی کیڑا"
"کتابی کیڑا"
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ
کتابی کیڑا" یہ لفظ ان لوگوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو زیادہ پڑھاکو قسم کے ہوتے ہیں ، اسی طرح انکو "کتابی دیمک"بھی کہا جاتا ہے۔
کسی زمانہ میں مدرسہ مسجد، گھر کے علاوہ ان لوگوں کو بس میں، ٹرین میں، بس اڈے ، ریلوے اسٹیشن، کسی پارک، یا باغ میں بڑی کثرت کے ساتھ دیکھا جاتا تھا، کسی کی میت میں جائیں یا کسی کی شادی میں آئیں یا دیگر کسی بھی قسم کا کوئی سفر ہو ان کے ساتھ کتاب ضرور پائی جاتی تھی۔
گھر میں بیوی کا شکوہ، باہر دوستوں کا رونا یہ ہی ہوتا تھا کہ آپ کتابوں کے علاوہ کسی کو وقت نہیں دیتے، اور کبھی کسی کی جھنجلاہٹ سے بھر پور آواز سنی جاتی "تمہیں تو صرف کتابوں سے عشق اور محبت ہے۔
صحیح بات تو یہی تھی کہ ان حضرات کو تو صرف نئی کتابوں کے حصول اور پرانی کتابوں کی حفاظت ہمہ وقت دامن گیر رہتی تھی ۔
کبھی کتابوں میں پانی پہنچ جانے کا خطرہ تو کہیں کتابوں پر گرد چڑھ جانے کا ڈر اور سب سے بڑا معرض خطر کتابوں کو دیمک کا چاٹ جانا تھا۔
لیکن آج کے دور میں ذہن انسانی نے جدید اختراعات کے زریعہ کتابوں کے لئے پیدا ہونے والے ہر طرح کے امکانی خطرہ کو بھی مفقود کردیا ہے حتی کہ گردوغبار جیسی عام شئی کا بھی کتابوں تک پہنچ پانا محال بنادیا گیا ہے۔
پھر مزید برآں کتابوں کے محفوظات کا دور کہئے یا کتابوں کی تنزلی کا زمانہ۔
یعنی پھر یہ کتابیں انہیں خوبصورت الماریوں کی زینت بن گئی اور کتابی دیمک کی جگہ کمپیوٹر کے وائرس نے لے لی، اور کتابی کیڑے کا مقام کمپیوٹر کے کیڑے کے حصہ میں آیا۔
اور طرہ امتیاز موبائل کا ایجاد ہونا اور کڑوا کریلہ نیم چڑھا اسمارٹ فون کا زمانہ، بس پھر زمانہ کی بجائے انسانی فطرت ہی پوری طرح بدلنے لگی اور اب کتابی کیڑے سے بھی اوپر اٹھ کر موبائلی کیڑے کا ڈنکا چہار دانگ عالم میں بجنے لگا اور ہر چہار جانب موبائلی کیڑے دنیا میں نظر آنے لگے۔ اور موبائل کے نشہ میں فیس بک اور واٹس اپ کا الکحل ایسا سر چڑھ کر بولا کہ اب کسی کو بیوی کیا اپنے ماں باپ بھی یاد نہیں آتے دوست کیا اولاد کی بھی پرواہ نہیں رہتی۔
اور اب وہ زمانہ ہے جب دینی علوم کی بنا پر نہیں بلکہ موبائل اور کمپیوٹر کی معلومات پر لوگوں کو علامہ کہا جانے لگاہے۔
آپ خود محاسبہ کیجئے اپنی کتابوں اور موبائل کا، سب کچھ سمجھ میں اجائے گا۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پ
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
۔
از قلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ
۔
"علماء کرام انبیاء کے وارث ہیں"
یہ بات شک و شبہ سے بالاتر اور روز روشن کی طرح عیاں، بالکل صاف اور اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے، علماء کا مخالفین طبقہ ایک روز علماء کرام کے بلند مقام و اعلی مرتبہ کا تہ دل سے معترف ضرور ہوجاتا ہے۔ فرمان خدا اور اقوال رسول میں فضائل علماء کا ذکر کجا کجا نہیں بلکہ جا بجا آیا ہے۔
لیکن دور حاضر میں علماء کرام نے اپنے آپ کو جس طرح محدود کیا ہے یہ امر قابل افسوس بلکہ صد افسوس ہے۔
آپ ہی دیکھئے سیاست سے دور، صحافت میں پچھڑا ہوا، فنون حرب میں ناکارہ، ہمارے یہاں اردو زبان میں سمٹا ہوا مساجد و مدارس کی چہار دیواری میں قید بالکل محدود انداز میں انبیا کی وراثت کو سمیٹے ہوئے ایک طرف پڑا ہے۔
کبھی امراء، وزرا، شاہوں، ڈکٹیٹروں، کفار، اور ظالمین سے نہ گھبرانے والے اس طبقہ کے لئے مساجد و مدارس کی چہار دیواری کا یہ قفص بہت محدود، تنگ اور چھوٹا ہے۔
۔
علماء کرام کے لئے ہر شعبہ میں پیش قدمی کرنا بہت ضروری ہے، گھر میں جوتے سینے سے لیکر میدان کار زار میں خون بہانے تک، مسئلہ بیان سے لیکر تجارت کرنے تک، مسجد کے محراب سے فرمان خدا بیان کرنے سے لیکر سیاست کے میدان سے صدا بلند کرنے تک
معاش کی تنگی، ظلم و زیادتی، لعن طعن، گالی گلوچ، سب و ستم اور برا بھلا علماء کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وراثت میں ملا ہے، نہ ہمارے نبی ان برائیوں کی وجہ سے محدود ہوئے اور نہ علماء کو اس کی کبھی پرواہ ہوئی اور نہ اب ہونی چائے۔
۔
مال و دولت، عیش پرستی، عارضی چین و سکون، حسین و جمیل محلات، سونے چاندی کی مصنوعات، لولو مرجان کے جواہرات، ریشم و سوت کے قیمتی ملبوسات کا نہ کبھی علماء کو شوق رہا اور نہ اب ہونا چاہئے۔
۔
بس علامہ اقبال نے بالکل صحیح کہا ہے۔
نہیں ہے تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
۔
۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی
Sunday, 28 December 2014
"ذات ایک روپ انیک "
"ذات ایک روپ انیک "
۔
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ سہارنپور یوپی انڈیا۔
۔
۔
ہاں، صحیح، بالکل صحیح ہے، ذات ایک روپ انیک، کبھی دھوبن کا روپ اختیار کرتی ہے، کبھی باورچی کا پورا کام کرتی ہے، کبھی صفائی کرم چاری نظر آتی ہے، کبھی بچوں کی آیا بن جاتی ہے، کبھی چپراسی دکھائی دیتی ہے، کبھی خدمت گزار بیوی ہے، کبھی جانثار ماں ہے، کبھی صدقے ہوجانے والی بہن ہے، کبھی خدمت گذار بیٹی ہے، یہ باپردہ، باسلیقہ، باادب، جانثار، فداکار، فرماں بردار، اطاعت گذار، حسن گفتار، اچھا کردار، گھر گھرستی نبھانے والی نیک صالح گھریلو عورت ہوتی ہے۔
اگر آپ کے یہاں بھی ہے تو آپ دیکھیں گے کہ وہ سب سے قبل صبح کے ہمراہ ہی نمودار ہو جاتی ہے اور رات میں؛ سب کے آغوش نیند میں پہنچ جانے کے بعد کسی وقت بستر پر لیٹتی ہے،پورے دن کولہو کے بیل کی طرح اپنے کام میں مشغول نظر اتی ہے، چھوٹے سے لیکر بڑے تک سب کام اپنے ہاتھ سے نپٹاتی ہے،
جب یہ بیٹی ہوتی ہے تو والدین کی خدمت کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے، اس کی نیند اپنے بس میں ہوتی ہے، ہر طرح کی مشغولیت اس کی غلام اس طرح ہوتی ہے کہ والدین کی زبان سے نکلنے والی آواز اس کی نیند کو بھگا اور ہرطرح کی مشغولیت کو چھڑا دیتی ہے،
جب یہ بہن کہلاتی ہے تو اپنی ہر خوشی بھائی کے لئے تیاگ دیتی ہے قربانی اور جانثاری اس کی پہچان بن جاتی ہے، اور بیوی بن جانے کے بعد شوہر کی خدمت اس کا شعار ہوجاتا ہے، ہاں، یہ بھی سچ ہے کہ یہاں کبھی کبھی غصہ، اورمصنوعی ناراضگی بھی نظر آتی ہے، لیکن یہ بھی پیار کا ایک اظہار ہے، اور جب یہ حسن و وفا کی پیکر ماں بن جاتی ہے، تو دلوں میں ٹھاٹھیں مارتا ہوا محبت کا سمندر ظاہر ہوتا ہے، پھر رات کی نیند، دن کا سکون، بچے پر قربان ہوجاتا ہے۔ لخت جگر کو سجانا سنوارنا اس کا شوق بن جاتا ہے۔ نور نظر کی حفاظت کرنا اس کی عادت بن جاتی ہے، اور حقیقت میں اپنے خون کو دودھ بناکر پلانے والی یہ ماں اپنا سب کچھ اولاد پر قربان کردیتی ہے۔
یہ اس کی ایک کل کائنات ہے جس میں بس قربانی، جانثاری، فداکاری، فرماں برداری، اور خدمت گذاری ہے، یہ صنف نازک ہمیشہ دوسروں کی رضاجوئی کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی ہے، دن رات ایک کردیتی ہے، لیکن پھر اس کو جو مقام ہر روپ میں ملتا ہے وہ بھی سبحان اللہ تعالی بہت بلند ہے۔
اتنا بلند کہ جب بیٹی ہوتی ہے تو رحمت کہلاتی ہے۔ جب بہن ہوتی ہے تو دخول جنت کا ذریعہ بن جاتی ہے، جب بیوی بنتی ہے تو مرد کی کل کائنات ہوجاتی ہے، اور ماں کا مقام پاتے ہی تو جنت اس کے قدموں میں اور اس کی رضا رب کی رضا ہوجاتی ہے
لیکن آج کے دور میں کچھ عورتیں ، عورت کے پاکیزہ تقدس کو پامال بھی کررہی ہیں جن کا تذکرہ ان شاء اللہ تعالی بہت جلد کیا جائے گا
۔
۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی
Friday, 26 December 2014
رمضان کیسے گذاریں؟
رمضان کیسے گذاریں؟
۔
ازقلم: چاہت محمد قریشی قاسمی
اللہ تبارک وتعالی نے جن پانچ چیزوں کو اسلام کی بنیاد بنا یا ہے ۔ انہیں میں سے ایک روزہ ہےروزہ ہجرت کے ۱۸ مہینے بعد مسلمانوں پر فرض کیا گیا تھا لہذا اس کا انکا ر کفر ہے اور اس کا ترک کرنا گناہ کبیرہ ہے اس مہینہ میں اللہ تبارک تعالی خصوصی رحمتیں فرماتا ہے اور ثواب بڑھادیتا ہے لہذا حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص اس مہینہ میں اللہ کی رضاء اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانہ کے فرضوں کے برابر ثواب ملے گا ، اس مہینہ میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانہ کے ستر فرضوں کے برابر ہے،(بیھقی) اور ایک اور حدیث میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا: آدم کے بیٹے کے تمام نیک اعمال کا بدلہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک دیاجائے گا۔ (حدیث قدسی میں )اللہ تعالی فرماتا ہےسوائے روزہ کے(یعنی روزہ اس عام قانون سے الگ ہے)۔ بلاشبہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوںگا۔ انسان اپنی شہوت اور کھانے پینے کو میری رضا کے لیے چھوڑتا ہے۔ روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں۔ ایک خوشی جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اوردوسری خوشی جب اس کی اس کے پروردگار سے ملاقات ہوگی(اور یہی اصل خوشی ہے بلکہ کہا جائے کہ اس سے بڑی ٰخوشی کیا ہوگی کہ اللہ تبارک وتعالی نے روزہ دارسے ملاقات کا وعدہ فرمایا ہے) اور روزے دار کے منہ کی بو اﷲ کے ہاں مشک کی خوشبو سے زیادہ بہتر ہے ۔(بخاری ومسلم)
روزہ طاقت پیدا کرتا ہے
دین کے جتنے ارکان ہیں وہ طاقت پیدا کرتے ہیں ،یعنی ایک عبادت دوسری عبادت کے لئے معاون ثابت ہوتی ہے ا وراس کے لئے تقویت کاباعث بنتی ہے ،جس طرح سے ایک غذا دوسری غذا کے لئے معاون ثابت ہوتی ہے ،اسی طرح ایک فرض کی ادائیگی دوسرے فرائض کی ادائیگی میں معاون ثابت ہوتی ہے ا ور اس کو طاقت فراہم کرتی ہے ،یہ بات نہیں ہے کہ ہررکن الگ الگ ہے ،ہرایک کی فرضیت او را س کی اہمیت تو بہر حال اپنی جگہ ہے ،مگر ایک دوسرے سے الگ نہیں ؛ بلکہ ایک دوسرے کی مدد کے لئے ہے ،اسی طرح سے روزہ سال کے پورے گیارہ مہینے کی عبادت کے لئے طاقت پیداکرتا ہے ، روزہ کی وجہ سے دوسری عبادات کی ادائیگی میں ذوق وشوق پیداہوتا ہے اور توانائی ملتی ہے ۔
روزہ کا مقصد نفس پر قابو پانا ہے: روزہ کا مقصد یہ ہے کہ نفس پر قابوپایا جائے او رروزہ کی وجہ سے نفس پر قابوپانا آسان ہوجائے ،دین کا ذوق وشوق پیدا ہو،عبادت کی ادائیگی میں شوق ہو،اور ہرکام کے کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی مرضی کا خیال رکھاجائے ،حلال وحرام کی تمیز ہوجائے ،اور یہ سب چیزیں ا س طرح سے ہوں کہ ان کی مشق ہوجائےاور ہماری فطرت بن جائے ،جس طرح سے آپ نے رمضان میں کھانا پینا اس طرح چھوڑا کہ آپ عید کے دن کھانے پینے میں جھجک محسوس کرتے ہیں، اور آپ کوکھانا پینا خلافِ عادت معلوم ہوتا ہے ،حالانکہ نہ کھانا پینا عارضی چیز تھی ؛اسی طرح سے گناہوں سے اجتناب ،معاصی سے پرہیز،غیبت وبدگوئی ،غصہ وبغض سے پرہیز اس طرح ہوکہ آپ کی فطرت بن جائے ،جوچیزیں دائمی طور پر حرام ہیں ان کو کرنے میں تو اور بھی زیادہ آپ کو چوکنا رہنا چاہئے۔
روزے میں گناہوں سے پرہیز: روزہ سے زندگی میں تبدیلی ہونی چاہئے ۔آپ روزہ رکھیں لیکن گالی دینا ،غیبت کرنا ،بدگوئی وغصہ وبغض کرنا نہ چھوڑیں تو روزہ کا کوئی فائدہ نہیں ۔یاد رکھئے حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے برے کام نہ چوڑے تو اللہ تعالی کو اس کے روزہ کی کوئی ضرورت نہیں (بخاری) حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا: ”کتنے روزے دار ہیں جن کو ان کے روزوں سے صرف بھوک اور پیاس حاصل ہوتی ہے اور کتنے رات کو قیام کرنے والے ہیں کہ ان کو ان کے قیام سے صرف ”رت جگا“ حاصل ہوتا ہے۔“ ( مشکوٰة )معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں روزے کے مقبول ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ معصیات ومنکرات سے بھی زبان ودہن اور دوسرے منکرات کی حفاظت کرے اگر کوئی شخص روزہ رکھے اور جھوٹ بولے ، حرام کھائے گالی گلوچ کرے (چاہے انسان کودے یا جانور کو)یا اور کسی طرح کے گناہ میں شامل ہو تو اللہ تعالی اس کےروزہ کی کوئی پرواہ نہیں کرتا ہے۔
روزہ اور غصہ: آپ اس طرح سے روزہ رکھئے کہ کوئی غیرمسلم بھی دیکھے توسمجھے کہ یہ واقعی روزہ رکھتے ہیں او ریہ رمضان کے دن ہیں ،پورے احترام کو ملحوظ رکھاجائے اورتمام تقاضوں کو پورا کیا جائے یہ نہیں کہ آپ ہر وقت غصہ میں بھرے بیٹھے رہیں کہ میں روزہ سے ہوں کوئی آپ سے بات کرنا چاہےلیکن دہشت زدہ رہے کہ بھائی روزہ سے ہیں غصہ آجائے گا گھر والے الگ گھبرائیں کہ صاحب روزہ سے ہیں ۔ بھائی! یہ کیسا روزہ ہوا،روزہ تو ایسا ہونا چاہئے کہ اگر آپ کو کوئی گالی بھی دے تو کہدیں میں روزہ سے ہوں کوئی لڑائی کرنا چاہے تو کہدیں کہ میں روزہ سے ہوں یہیں تو روزہ ہے جو اللہ کو چاہئے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جب تم میں سے کوئی شخص روزہ رکھے اور اس سے کوئی الجھنے لگے تو کہہ دے کہ میں روزہ سے ہو ں(بخاری ومسلم)
سخاوت و خیر خواہی کا مہینہ:حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بھلائی اور خیر میں سب سے زیادہ سخی تھے اور مضان میں آپ کی یہ سخاوت اور زیادہ ترقی کر جاتی تھی۔ رمضان کی ہر رات میں جبرئیل امین آپ سے ملتے تھے اور رسول اللہ ﷺ ان کو قرآن مجید سناتے تھے۔ تو جب روزانہ جبرئیل آپ ﷺ سے ملتے تو آپ ﷺ کی اس کریمانہ نفع رسانی میں اور بھی زور پیدا ہوجاتا ۔(بخاری)لہذا معلوم ہوا کہ رمضان کا مہینہ یہ خیر خواہی اور سخاوت کا مہینہ ہے اور یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ یہ ہمارا مال نہیں جسے ہم خرچ کرتے ہیں ،بلکہ یہ اللہ کی امانت ہے ، ہم اگر اس کوغلط جگہ میں خرچ کرتے ہیں تو غلط کرتے ہیں ،اگر اس کو بے محل خرچ کرتے ہیں تو ناجائز کرتے ہیں ،ہمارے لئے جائز نہیں کہ ہم اس کو صرف کریں ،ہمیں اس کی فکر ہونی چاہئے کہ کتنی بیوائیں او ریتیم ہیں، کتنے محتاج ومساکین ہیں جنہیں ضرورت ہے ؟ہمیں ان تمام جگہوں پر صرف کرنا چاہئے جہاں دوسروں کی مددہوسکے او راللہ تعالیٰ راضی ہولہذا اس مہینہ میں کوشش ہونی چاہئے کہ ہم زیادہ سے زیادہ مال اللہ کے راستے میں خرچ کریں۔ ہماری یہ حالت ہوتی ہے کہ ہمارے دستر خوان پر ہر طرح کا پھل اور طرح طرح کے کھانے ہوتے ہیں بہت سے سڑ جاتے ہیں اور کتنے ہیں خراب ہوجاتے ہیں لیکن ہمارا پڑوسی بلکہ یتیم غریب رشتہ دار اور مسکین ہمسایہ بھوکہ ہوتا ہے پورا رمضان گزر جاتا ہے لیکن ہم کبھی بھی اس کا خیال نہیں کرتے ہیں حالاکہ اللہ کے نبی کا ارشاد ہے کہ وہ مؤمن کامل نہیں ہوسکتا جو پیٹ بھر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی بھکا ہو ۔نیز روزہ دار کا روزہ افطار کرانا تو اور بھی بڑا ثواب ہے کہ حدیث میں ہے کہ جس نے اس مہینہ میں کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرایاتو اس کے لئے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا، اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا اور روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی، آپ سے عرض کیا گیا کہ یارسول اللہ ﷺ ہم میں سے ہر ایک کے پاس افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا آپ نے فرمایا اللہ تعالی یہ ثواب اس شخص کو بھی دیگا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دارکا روزہ افطار کرادے۔ اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلادے تو اللہ تعالی میرے حوض (کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا کہ جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی تا آنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے۔ اس لئے ہم میں سے ہر آدمی کو چاہئے کہ اس مہینہ میں ایک دوسرے کے روزے افطار کرانے کا معمول بنائیں۔
روزہ اور قرآن کی شفاعت:اس مہینہ میں قرآن کی تلاوت کا معمول بہت کثرت سے ہونا چاہئے کیوں کہ رمضان اور قرآن کا بہت گہرا رشتہ ہے کہ رمضان کو اللہ تعالی نے قرآن میں ذکر فرما کر رمضان کی اہمیت زیادہ کردی اور قرآن کو اللہ تبارک وتعالی نے رمضان کے مہینہ میں نازل فرمایا ہے اور قیامت کے دن یہ دونوں اللہ تبارک تعالی سے سفارش کریں گے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا روزہ اور قرآن دونوں بندے کی سفارش کریں گے (یعنی اس بندے کی جو دن میں روزے رکھے گا اور رات میں اللہ کے حضور کھڑے ہوکر اس کا پاک کلام سنے گا یا پڑھے گا) روزہ عرض کرے گا کہ اے میرے پرور دگار! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پورا کرنے سے روکے رکھا تھا ، آج تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما(اور اس کے ساتھ رحمت ومغفرت کا معاملہ فرما)۔ اور قرآن کہے گا کہ میں نے اس کو رات کو سونے اور آرام کرنے سے روکے کھا تھا یا اللہ اس کے حق میں آج میری سفارش قبول فرما(اور اس کے ساتھ رحمت ومغفرت کا معاملہ فرما) چنانچہ اس کے حق میں ان دونوں کی سفارش قبول کردی جائے گی(اور اس کے لئے جنت و مغفرت کا فیصلہ فرمادیا جائے گا )
آخری عشرہ اور شب قدر:جس طرح رمضان المبارک کو دوسرے مہینوں کے مقابلہ میں فضیلت حاصل ہے اسی طرح اس کا آخری عشرہ پہلے دونوں عشروں سے بہتر ہے اور شب قدر بھی اکثرو بیشتر اسی عشرہ میں ہوتی ہے اس لئے رسو اللہ ﷺ عبادت وغیرہ کا اہتمام اس میں اور زیادہ کرتے تھے اور دوسروں کوبھی اس کی ترغیب دیتے تھے ۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت وغیرہ میں مجاہدہ کرتے اور وہ مشقت اٹھاتے تھے جو دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔ (مسلم)۔ ایک اور حدیث میں حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول ﷺ کمر کس لیتے اور شب بیداری کرتے (یعنی پوری رات عبادت اور ذکر الہی میں مشغول رہتے) اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی جگادیتے (تاکہ وہ بھی ان راتوں کی برکتوں اور سعادتوں میں حصہ لیں) (بخاری)
اور یہی آخری عشرہ ہے کہ جس میں اکثر وبیشتر شب قدر ہوتی ہے اور وہ ایسی فضیلت کی رات ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے متعلق قرآن کریم میں پوری ایک سورت ناز ل فرمائی ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی جگہ اس کی فضیلت کا تذکرہ کیا ہے وہ ایس رات ہے کہ آدمی ایک ہزار راتوں میں عبادت کرے اور صرف اس ایک رات میں عبادت کرے تو اس اکیلی شب قدر کی عبادت ایک ہزار راتوں کی عبادت سے زیادہ ہوجائے گی۔ اوریہ ایسی رات ہے کہ جس میں اللہ تبارک وتعالی تمام مخلوق کی قضاو قدر کے فیصلہ فرماتا ہے۔
رمضان کی آخری رات :ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان کی آخری رات کو ہمارے یہاں وہیں خرافات شروع ہوجاتی ہیں جو کہ رمضان سے پہلے تھیں کہ رمضان میں جن لوگوں کے چہروں پر دھاری نظر آتی تھی اس رات میں وہ دھاری کٹاتے ہیں اور نائی کی دکانوں پر بہت ازدحام نظر آتا ہے اور ڈیجے گانے بجانے ناچنے اور ہر طرح کی خرافات کرتے ہیں حالاکہ اصل با ت تو یہ ہے کہ روزہ میں آپ نے معاصی سے اجتناب کیا ہے تو اس پر قائم رہئے، او ران معاصی کا ارتکاب نہ کیجئے جن کو آپ نے روزہ کی وجہ سے چھوڑدیا تھا ،اگر روزہ کے ختم ہوتے ہی تمام معاصی میں پھر مبتلا ہوگئے ہیں تو اس سے یہی بات سمجھ میں آئے گی کہ اس نے روزہ تورکھا مگر روزہ مقبول نہیں ہوا ۔خدا را اس رات کی قدر کیجئے کیوں کہ نبی کریم ﷺ نے فرما کہ رمضان کی آخری رات میں آپ ﷺ کی امت کے لئے بخشش اور مغفرت کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ آپﷺ سے دریافت کیا گیا : یا رسول اللہ ﷺ کیا وہ شب قدر ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں شب قدر تو نہیں ہوتی لیکن بات یہ ہے کہ عمل کرنے والا جب اپنا عمل پورا کردے تو اس کو پوری اجرت مل جاتی ہے۔ (رواہ احمد)معلوم ہوا کہ رمضان کی آخری رات بھی عبادت کی رات ہے نہ کہ معاصی اور گناہوں کی رات۔