دو اور دو "پانچ"
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ
ایک گاؤں میں ایک بنئے کی دکان تھی، لیکن یہ کوئی خاص بات نہیں کیوں کہ ہندوستان کے ہر گاؤں میں ایک دو بنئے کی دکانیں ضرور پائی جاتی ہیں، خاص بات یہ ہے کہ بنیا جب بھی حساب جوڑتا تو کہتا دو اور دو پانچ ہوتے ہیں،
لوگ چونکہ اس سے ادھار سدھار سامان خریدا کرتے تھے بایں وجہ اس کے احسان مند بھی تھے اور اس سے مرعوب بھی۔
لیکن آپ یقینا آگاہی رکھتے ہونگے کہ برائی پائیدار نہیں ہوتی، پاپ کا گھڑا پھوٹتا ضرور ہے۔ ایک روز ایک پڑھا لکھا بےباک پُر جوش نوجوان گاؤں میں آیا۔ اگر عام زبان میں کہا جائے تو یہ بجا ہے کہ ہونی ہونے کو بنتی ہے لہذا اتفاق کہ وہ نوجوان بنئے کی دکان سے کچھ سامان خریدنے کے لئے گیا اور حساب کیا تو دو اور دو پانچ کا حساب سنا تو بول پڑا بھائی دو اور دو چار ہوتے ہیں، آپ ایک زیادہ جوڑ رہے ہیں۔
بنئے نے اپنے موٹے سے چشمے کے اوپر سے نوجوان کو گھور کر دیکھا اور کہا: تو کل کا لونڈا ہمیں حساب سکھائے گا؟ یہاں پورا گاؤں وہی کہتا ہے جو میں کہہ رہا ہوں، لیکن لڑکا بھی نوجوان، پڑھا لکھا پرجوش تھا۔ سب سے بڑی بات اس کو اپنے حق پر ہونے کا احساس تھا ،پس بہت بحث و مباحثہ کے بعد دس روپئے کی شرط ٹہری کے جو بھی حق پر ہوگا اس کو ہارنے والا دس روپئے دے گا، اور فیصلہ بھی 84 گاؤں کی پنچایت کرےگی۔
ہرطرح کے معاملات طے ہونے کے بعد بنیا گھر تیاری کے لئے پہنچا آخر 84 گاؤں کی پنچایت کے سامنے جیت کا جشن منانا تھا۔ بیوی نے بنئے سے احوال جاننے کے بعد کہا آپ تو ہار جاؤگے، دو اور دو تو چار ہی ہوتے ہیں، اب کمبل بھی گیا اور دمڑی بھی گئی، عزت بھی جائے گی اور دس روپئے بھی، بنئے نے بیوی کی طرف دیکھا اور چند ثانیے بعد پورے اعتماد سے گویا ہوا: ارے بھاگیوان تو کیوں گھبراوے، میں ہاروں گا تو جب جب کسی کی مانوں گا، میں تو بس یہی کہتا رہوں گا دو اور دو پانچ ہوویں، جو چاہئے جتنا زور لگالے۔
۔
ہاں، جناب ہار جیت اسی وقت ہوتی ہے جب کوئی مانتا ہے اور کوئی مانے ہی نا تو اس کی کیا ہار جیت؟
اسی لئے آپ بھی ہوشیار ہوجائیں اور جو بھی حق ماننے کے لئے تیار نہ ہو اس سے بحث ومباحثہ، دلیل و حجت، گفتار و مناظرہ ترک کرکے اپنے کام پر دھیان دیجئے، ان سب باتوں سے مزید برائی پھیلنے کا اندیشہ ہے، جسے نہیں ماننا وہ نہیں مانے گا چاہے پوری دنیا بھی زور لگالے، یا پھر آسمان گر پڑے یا زمین پھٹ پڑے، ہاں، ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے، اسی سے دعا کیجئے، وہی کوئی نہ کوئی سبیل نکالے گا۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی
No comments:
Post a Comment