Sunday, 22 February 2015

آج کے خطرات

آج کے خطرات

ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ

اخبارات نے دہشت گرد لکھا، نیوز والوں نے جلاد جیسی شکل سامنے کردی، گھر گھر میں اس کی حیوانیت کے چرچے، جگہ جگہ کانا پھوسی، دیش کا غدار، نمک حرام جس تھالی میں کھاتا ہے اسی میں چھید کرتا ہے، ہر طرح کی گالی، ہر طرح کے برے الفاظ اس کے لئے استعمال کرنا کار ثواب کا گمان، چہار جانب سے اس کے لئے طرح طرح کی سزاؤں کا مطالبہ، کوئی اسے دہشت گرد کہے، کوئی اس کو جلاد کا خطاب دے اور کوئی اسے ٹیررسٹ کہے، بس سوچنے کا موقع کہاں، کہتے جاؤ۔
بہنوئی پریشان پھرے، بھائی چھپتے چھپاتے پھریں، والدین کے لئے کوئی ٹھکانا نہیں، بہن کی آبرو عزت نہ رہی، جگہ جگہ پولس کی چھاپا ماری، سرچ آپریشن پھر گرفتاری، بعد ازاں ہڈیوں کا برودہ، مار، دھاڑ، پٹائی، چھتائی، سب کچھ رواں جب عدالت میں پیش ہو تو سیاہ نقاب کے زریعہ میڈیا مین پیش کیا جائے، پھر ریمانڈ پر لے جاکر نا کردہ جرم کا اعتراف کرایا جائے، مرتا کیا نا کرتا، مار کے آگے بھوت بھی ناچے، اور پھر طرح طرح کے ٹارچر، قسم قسم سے ستانا، نہ کوئی روک ٹوک، نا کوئی پوچھ تاچھ، پھر مقدمہ کی طویل مدت۔ اتنے نہ گھر والوں کو سکون نہ معاشرے مین کوئی عزت، جو جانتے بھی ہوں کہ ان کا لڑکا، ان کا بھائی ان کا رشتے دار بے گناہ ہے وہ بھی خوف و ڈر کی وجہ سے قطع تعلق روا رکھیں، بیاہ شادی ہر فنکشن میں شرکت ممنوع، جو مقدمہ لڑے خفیہ ایجنسی اس کی بھی جانچ کرے، بس اگر مناسب ہو تو جمعیت کا ساتھ اور ان کا سایہ سکون بخش محسوس ہو۔
بہرحال رات کے بعد صبح میں باد نسیم کے جھونکے خوش گوار ہوتے ہیں، اندھیرا چھٹ جاتا ہے، بالآخر سورج نکلتا ہے، حق غالب آتا ہے، سچ نہیں چھپتا، دس سال پندرہ سال زندگی کے قیمتی دن گذرنے کے بعد، جوانی ڈھل جانے کے بعد، حسین سپنے مٹ جانے کے بعد عدالت کا فیصلہ آتا ہے یہ بے گناہ ہے، وہ خطرناک ہلاکت خیز ہتھیار جو اس کے پاس سے برآمد ہوے تھے فرضی تھے، وہ میڈیا کا ڈھنڈورا، وہ اخبار کے سیاہ پنے سب ایک مفروضہ تھے نہ اس کا کسی ممنوعہ تنظیم سے کوئی تعلق رہا ہے، اور نہ کبھی اس نے چیونٹی کو بھی قتل کرنے کی ہمت دکھائی ہے، ہاں اتنا ضرور ہوا کہ اس کا نمبر کسی قابل مواخذہ شخص کے موبائل سے برآمد ہوا یا پھر اس کے موبائل سے ایسے مجرم کا نمبر ملا جس کی پولس کو تلاش تھی اور آج کے زمانے میں یہ کسی طرح بھی ممکن ہے، وٹس اپ کے زریعہ فیس بک کے ذریعہ یا وزیٹنگ کارڈ کے ذریعہ۔ اور ان سے یہ مجرم نہیں بنتا لیکن اس کے ناکردہ گناہوں کی سزا تو اسے مل چکی تھی، اب پچھتانا کیا، ایسا ہوا ہے، بہت جگہ ہوا ہے۔
ہم نے اپنے موبائل میں واٹس اپ فیس بک اور بہت سے ایسے ہی سافٹویر کے ذریعہ پوری جاسوسی کے دروازے کھولے، موبائل کا میدان اس کے لئے صاف کیا، اسے یہاں تک بتادیا کہ اس کے موبائل میں کتنے نمبر ہیں، کتنے نام ہیں، کونسا موبائل نمبر کس نام سے محفوظ ہے، اس کے موبائل میں کس ویڈیو آڈیو پر کونسا نام ہے،پوری ڈیٹیلس ہمارے دشمنوں کے سامنے ہے، اورہم بے فکر آرام سے لیٹے ہوئے ہیں۔
آستین میں سانپ پالا اور اس سے ہوشیار بھی نہ رہے بس اس پر بھروسہ کرتے رہے۔ پھر یہ ہونا ہی تھا۔
اس لئے ہوشیار رہئے اور موبائل میں ایسا کوئی مواد نہ رکھئے جو آپ کو قابل گرفت بنادے۔ اگر آپ کے موبائل میں کسی پڑوس کے شریف آدمی کا نمبر بھی سیو ہے تو پھر بھی آپ اپنے آپ کو محفوظ تصور نہ کیجئے۔

No comments:

Post a Comment