کھیل کود کے شرعی ضوابط
وباللہ التوفیق۔
اولاً یہ بات ذھن نشین کر لینا چاہئے کہ کھیل کے سلسلہ میں دور حاضر کے نظریہ اور اسلامی نظریہ میں بنیادی اختلاف ہے،
دور حاضر میں کھیل برائے کھیل اور کھیل بحیثیت ایک فن والا نظریہ رائج ہے، جب کہ اسلام نہ تو کھیل برائے کھیل کا قائل ہے, اور نہ ہی اس کی نئی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے دور حاضر کے نظریہ کے اعتبار سے کھیل مقصود بنتا ہے جبکہ اسلام کسی بھی ایسی صورت کی اجازت نہیں دیتا جس میں کھیل کو مقصود قرار دیا گیا ہو.
قرآن پاک میں کھیل کا تذکرہ عموماً مذمت کی انداز میں کیا گیا ہے پورے قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ لھو لعب کے الفاظ کا استعمال موقع مذمت میں ہی کیا گیا ہے۔
وما الحیاہ الدنیا الا لعب ولھو (الانعام ۳۲)
مزید دیکھئے
(المائدہ ۵۸)(عنکبوت ۶۵) (محمد ۳۶)
)الحدید ۲۰) (الزخرف ۸۳)(المعارج ۴۲)
(التوبہ ۶۵)(الانعام ۹۱)(الطور ۱۲)
(لقمن ۶)(الجمعہ ۱۱)
وغیر ذلک من الآیات
(ماخوذ از محمود الفتاوی ۳۔ ۱۲۲)
ہاں البتہ اسلام نے چند تفریحات کی اجازت ہی نہیں دی بلکہ ترغیب دی ہے جن پر اجر وثواب کا بھی وعدہ ہے
کما فی الحدیث لیس من اللھو ثلاث: تادیب الرجل فرسہ وملاعبتہ اھلہ ورمیہ بقوسہ ونبلہ (نصب الرایہ ۴۔ ۳۷۳)
تین چیزیں کھیل میں سے نہیں ہیں.آدمی کا اپنے گھوڑے کو سدھانا اور اس کا اپنے اھل کے ساتھ دل لگی کرنا اور اپنے تیر وکمان سے تیر چلانا.(از حوالہ بالا)
اسی طرح نشانہ بازی, سواری کی مشق,تیراکی کی مشق,پیدل دوڑنا,شریعت کے اصول و قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے ان سب چیزوں میں مسابقت کرنا جہاں اجر وثواب کا باعث ہے وہیں روحانی وجسمانی ورزش بھی ہے..
(از درسی و تعلیمی اھم مسائل ص ۴۶۲
بحوالہ السنن الکبری للبیہقی ۱۰۔ ۲۶)
شریعت اسلامیہ نے جہاں بہت سے تفریحی کھیلوں کی اجازت دی ہے وہیں چند ایسے کھیلوں کو جو آپسی جھگڑوں, تضییع اوقات, جوا, قمار کا ذریعہ ہے,سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے.
مثلاً چوسر,شطرنج,کبوتر بازی,مرغ بازی,بٹیر بازی, پتنگ بازی,جانوروں کو لڑانا,
ویڈیو گیم,گوٹی,لوڈو,تاش کھیلنا وغیرہ,
ان تمام کھیلوں میں سوائے نقصانات کے دینی یا دنیوی کوئی فائدہ نہیں, اسلئے یہ سب ممنوع ہیں (حوالہ بالا بحوالہ احکام القرآن للتھانوی ۳۔ ۲۰۲)
نیز اسی طرح ہر ایسا کھیل جو انسان کو اس پر واجب حقوق سے غافل کردے, خواہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد ہو یا منکرات منہیات شرعیہ پر مشتمل ہو یا اس کے نقصانات اس کے فوائد سے زیادہ ہوں ایسے کھیل ناجائز ومکروہ تحریمی ہے.
(درسی وتعلیمی اہم مسائل ص ۴۶۱)
خلاصہ کلام مع ضوابط
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ کا اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ “الناھی عن المناہی” نامی ہے جو احکام القرآن للتھانوی {۳۔ ۱۸۶ } میں ایک جز کے طور پر شامل ہے اس میں آیات قرآنیہ وحدیث و فقہ پر کلام فرما کر آخر میں جو خلاصہ و ضابطہ تحریر فرمایا ہے وہ یہ ہے،
ان اللہو علی انواع،
لھو مجرد۔ ولھو فیہ نفع فائدۃ ولکن ورد الشرع بالنھی عنہ،
ولھو فیہ فائدۃ ولم یرد فی الشرع نھی صریح عنہ ولکنہ ثبت بالتجربۃ انہ یکون ضررہ اعظم من نفعہ ملتحق بالمنھی عنہ،
ولھو فیہ فائدۃ ولم یرد الشرع بتحریمہ ولم یغلب علی نفعہ ضررہ، ولکن یشتغل فیہ بقصد التلھی،
ولھو فیہ فائدۃ مقصودۃ ولم یرد الشرع بتحریمہ ولیس فیہ مفسدۃ دینیۃ واشتغل بہ علی غرض صحیح لتحصیل الفائدۃ المطلوبۃ لا بقصد التلھی،
فھذہ خمسۃ انواع لا جائز فیھا الا الاخیر الخامس فھو ایضاً لیس من اباحۃ اللھو فی شیئ، بل اباحۃ ما کان لھواً صورۃ ثم خرج عن اللھویۃ بقصد صالح وغرض صحیح فلم یبق لھواً
{احکام القرآن للتھانوی ۳۔ ۱۹۹}
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کھیل کی چند اقسام ہیں
۱) لہو محض
۲) وہ کھیل جس میں فائدہ بھی ہے نقصان بھی، لیکن شریعت میں اس کی ممانعت آئی ہے۔
۳) وہ کھیل جس میں فائدہ تو ہے اور شریعت میں اس کی صریح ممانعت بھی نہیں آئی لیکن تجربہ سے اس کا ضرر اس کے نفع سے زیادہ ہونا ثابت ہو چکا ہو وہ بھی ممنوع کے حکم میں ہے
۴) ایسے کھیل جن میں فائدہ ہے اور شریعت میں اس کی صریح ممانعت بھی نہیں آئی اور اس کا ضرر بھی اس کے نفع سے زیادہ نہیں لیکن ان میں محض بنیت لھو مشغول ہوتا ہے۔
۵) ایسے کھیل جن میں منفعت مقصودہ ہے اور شریعت میں اس کی صریح ممانعت بھی نہیں آئی اور ان میں کوئی دینی نقصان بھی نہیں ہے اور ان میں مطلوبہ فائدہ حاصل کرنے کی غرض صحیح سے مشغول ہوتا ہے بغرض لھو نہیں۔۔
ان پنجگانہ اقسام میں سے آخری پانچویں قسم کے علاوہ کوئی جائز نہیں ہے وہ بھی لھو کے جواز کی قبیل سے نہیں ہے بلکہ ایسی چیز مباح کی جارہی ہے جو صورۃً لھو ہے لیکن نیت صالحہ اور غرض صحیح کی وجہ سے وہ لھو نہیں رہا۔
{از محمود الفتاوی ۳۔ ا۳۳ مفتی احمد صاحب خانپوری دامت برکاتھم}
No comments:
Post a Comment