ویلنٹائن ڈے
۔
۔
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ
۔
۔
ہاتھ میں سرخ گلاب، چہرے پر مسکان، بدن پر دیدہ زیب قیمتی لباس، پاوں میں شاندار جوتے، سرکے بال تو نئے اسٹائل کے ساتھ بہت خوشنما معلوم ہوتے تھے، ہر حال سے یہ نوعمر خوبصورت نوجوان؛ انسان کم شو پیس زیادہ معلوم ہوتا تھا۔
اس کے چہرے کی بشاشت اور مسکراہٹ سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کو آج بہت کچھ حاصل ہوا ہے، کوئی ایسی چیز جس کے حصول کا یہ مدتوں سے طالب تھا، کوئی ایسی شئی جس پر اس کا دل برسوں سے عاشق تھا، کوئی ایسی شئی جس کو یہ پانے کے لئے بے تاب تھا، شاید اسی لئے یہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا کسی منزل کی طرف رواں دواں تھا، لیکن اس کی چال اور اس کی نروس نیس اس بات کا پتہ بھی دے رہی تھی کہ اس کو اس کی مطلوبہ چیز اب تک حاصل نہیں ہوئی ہے، ہاں اس کے اطمنان، سکون، اور انداز سے ایسا احساس بھی ہویدا تھا جو اس کے مقصود کی آسانی کی طرف اشارہ کر رہا تھا، گویا اس کا مقصد آج حاصل ہوہی جائے گا، آج وہ مطلوب تک پہنچ ہی جائے گا، آج وصل یار، قرب معشوق فیض یاب ہوہی جائے گا۔
لیکن اچانک اس کی چمکیلی مردانہ آنکھیں ایک جانب پڑی۔ وہاں دیکھا کہ اس کے سرخ گلاب جیسا ہی ایک گلاب کسی لڑکے کے ہاتھ میں ہے اور وہ بھی اپنی تمام تر مرادانہ وجاہت اور بشاشت کے ساتھ یہ سرخ گلاب ایک لڑکی کو دے رہا ہے، بس پھر یہ ہوا کہ اس کے بڑھتے قدم رک گئے، اس کی چال پہ گویا ڈسک بریک مار دیا گیا ، اس کے پاؤں بالکل جام ہوگئے، اور اس پر سکتہ سا طاری ہوگیا، لیکن یہ کیفیت زیادہ دیر باقی نہ رہ سکی اور اس کی خوشنما پیشانی شکن آلود ہوئی، چہرہ سرخ ہوگیا،جبڑے سخت ہوگئے، مٹھیاں بھنچ گئیں …………
جاری، جاری، جاری۔
۔
۔
۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی
No comments:
Post a Comment