یلنٹائن ڈے( یوم عشاق یا یوم محبت)
مولانا صابر آزاد قاسمی کے قلم سے
انسانوں کے مابین آپسی تعلقات فطرت،الہی قوانین اور اخلاقی اقدار کی مضبوط بنیادوں پر قائم ہوتے ہیں جن میں انحراف وبگاڑ،بے شرمی وبے حیائی اور غیر اخلاقی روابط کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بلکہ خلاف ِفطرت اور منافی أقدار روابط باہمی تعلقات کے چشمہ صافی کو گدلا کر دیتے ہیں اور انسانی معاشرہ کو اخلاقی پستی اور انحطاط وزوال کا شکار بنا دیتے ہیں، اسی طرح ایک مسلمان کے سامنے ہر وقت اس بات کا رہنا بھی ضروری ہے کہ اس کے لئے کسی دوسرے مذہب، تہذیب اور اقدار کی تقلید اس کے عقیدہ کے بالکل برعکس ہے، غیروں کی تقلید،ان کے ساتھ مشابہت اور کسی طرح کی بھی شرکت ایک مسلمان کو دین سے خارج کر سکتی ہے۔
دور جدید کی جن بہت سی اخلاق سوز وایمان سوز خرافات سے مسلمان متأثر ہو رہے ہیں ان میں ویلنٹائن ڈے( یا یوم عشاق یا یوم محبت) اسلامی وانسانی معاشرہ کو اخلاقی اعتبار سے دیوالیہ بنانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے،ماہِ فروری کے آتے ہی آوارہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں چودہ فروری کے دن کو منانے کی بے ہودہ تیاریاں شروع کر دیتے ہیں،اور پھر اس دن اخلاقی اقدار کو جس طرح پامال کیا جاتا ہے اس سے انسانیت کی نگاہیں شرم سے جھک جاتی ہیں،ایک مسلمان کے لئے اس دن کی اصل حقیقت سے آگاہ ہونا ضروری ہے تاکہ اس کو یہ معلوم رہے کہ یہ ایک مشرکانہ ،غیر اسلامی،اسلامی عقیدہ کے منافی اور اخلاق سوز وایمان سوز عمل ہے جس سے اجتناب نہایت ضروری ہے۔
چودہ فروری کو منایا جانے والایہ دن’’ویلنٹائن ڈے‘‘قدیم بت پرست رومیوں اور دور حاضر کے عیسائیوں کی عید ہے،جس کو وہ اپنے مشرکانہ عقیدہ کے اعتبار سے’’خدائی محبت‘‘کے اظہار کے طور پر مناتے ہیں،اور اس کی اصل کے بارے میں بت پرست رومیوں اور ان کے عیسائی وارثین کے ہاں مختلف من گھڑت کہانیاں بیان کی جاتی ہیں:
ایک قصہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ تقریبا اٹھارہ سو سال پہلے روم شہر کے بانی’’رویلوس‘‘کو ایک شیرنی نے دودھ پلایا جس سے رومیوں نے یہ عقیدہ بنالیا کہ ان کے بادشاہ میں طاقت وقوت اور فکری ودماغی صلاحیت اس دودھ کی وجہ سے پیدا ہوئی ،اس لئے اس کی پوجا کرنے لگے اور اس واقعہ کی یاد میں چودہ فروری کو عید کے طور پر منانے لگے،اس دن کی خاص بات یہ ہوتی تھی کہ ایک کتا اور بکری ذبح کرتے اور دو مضبوط نوجوانوں کے جسموں پر اس کتے اور بکری کا خون دودھ ملا کر مَلتے،اس کے بعد ان نوجوانوں کی قیادت میں ایک بڑا جلوس گلیوں اور شاہراہوں سے گذرتا،ان دونوں نوجوانوں کے ہاتھ میں چمڑے کے دو ٹکڑے ہوتے جن کو وہ اپنے جسم سے مَل کر سامنے آنے والے ہر مردوعورت کے جسم پرمارتے،رومی عورتیں بڑی خندہ پیشانی سے شفایابی اور اولاد کی امید میں چمڑے کی مار قبول کرتیں، اس طرح سے یہ دن منایا جاتا تھا،اس پر مزید یہ اضافہ ہوا کہ بعد میں جب تقریبا ۲۹۶م میںروم پر’’کلاڈیس‘‘حاکم بنا تو شادی شدہ لوگ فوج میں بھرتی ہونے سے کترانے لگے،جس کی وجہ سے اس نے شادی کو غیر قانونی قرار دے کر ممنوع قرار دیا۔’’ویلنٹائن ‘‘نامی پادری نے بادشاہ کے حکم کو ظالمانہ قرار دے کر خفیہ شادی رچا لی،اور گرجا گھر میں چپکے چپکے لوگوں کی شادیاں کرنے لگا،بادشاہ کو خبر لگی جس کے نتیجہ میں اس کو سزائے موت ہوئی،پھر رومیوں نے جب عیسائیت قبول کی تو اس کی یاد میں پھانسی کی جگہ ایک گرجا گھر بھی بنادیا گیا اورچودہ فروری کو ’’وینلٹائن ڈے‘‘کے نام سے موسوم کیا گیا۔
ایک قصہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ بادشاہ’’کلاڈیس‘‘ایک بت پرست رومی بادشاہ تھا لیکن ’’ویلنٹائن‘‘نے بت پرستی چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر لی جس کی وجہ سے چودہ فروری کو اسے سزائے موت دی گئی، لیکن جب رومیوں نے خود عیسائیت قبول کر لی تو پوپ’’ویلنٹائن‘‘کی سزائے موت کے دن کو’’یوم شہید محبت‘‘کے طور پر منانے لگے،سزائے موت سے پہلے جیل میں جیلر کی بیٹی سے محبت ہونے کے نتیجہ میں پھانسی کا قصہ بھی بیان کیا جاتا ہے، اور بھی ویلنٹائن ڈے کے حوالہ سے مختلف قصے بیان کئے گئے ہیں جن کو ’’انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا‘‘میں ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے درج کیا گیا ہے۔
بنیادی سبب کچھ بھی ہولیکن اتنا متعین ہے کہ یہ دن مذہبی عقیدہ کے حوالے سے وجود میں آیا ہے اور رسومات وتحریفات کے مختلف مراحل سے گذر کر مغربی اقوام کی تہذیب کا ایک شرمناک باب قرار پایا ،جس کی بعض مشرقی اقوام بھی بڑے فخر سے تقلید کر رہی ہیں۔
بلاشبہ اس کی اصل بنیاد رومیوں کا ایک مشرکانہ عقیدہ ہے،جس میں ایک مخصوص بت کے لئے ’’خدائی محبت ‘‘کااظہار کیا جاتا تھا،لہذا جو بھی اس دن کو مناتا ہے یا منانے والوں کا کسی بھی اعتبار سے ساتھ دیتا ہے تو وہ شرک وبت پرستی کی تعظیم وتشہیر کا مرتکب ہوتا ہے جس کی اسلام میں قطعا کوئی گنجائش نہیں ہے،شرک ایک ایسا خطرناک جرم ہے جس کو اللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں کر سکتا ہے،دیکھئے سورہ زمر،آیت:۶۵،۶۶ اور سورہ نسائ، آیت:۱۱۶)
اسی طرح یہ دن متعدد قصے اور کہانیوں سے مربوط ہے جن کو انسانی عقل کسی بھی درجہ میں قبول کرنے سے قاصر ہے،چہ جائے کہ ایک مومن ومسلم کی عقل،ایک شیرنی کا دودھ پلانا اور پھر اس دودھ کی وجہ سے طاقت وقوت اور دماغی صلاحیت کا پیدا ہونا۔۔۔خرافات کے علاوہ اورکیا ہے؟!کیا ایک مسلمان جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ طاقت وقوت دینے والا اللہ ہے اس طرح کی خرافات کو تسلیم کر سکتا ہے، اسی طرح کتے اور بکری کا ذبح کر کے جسموں پر ملنا اور شفایابی اور اولاد کی امید کرنا۔۔۔کیا ایک مسلمان کے عقیدہ سے میل کھاتا ہے؟۔
جب اس ویلنٹائن ڈے نے اخلاقی بگاڑ اور فساد کی خطرناک شکل اختیار کی تو عیسائی پادریوں نے بھی اس فساد وبگاڑ کی وجہ سے کیتھولک عیسائیت کے مرکز اٹلی میں اس کو کالعدم قرار دیا،لیکن بعد میں اس کو دوبارہ منایا جانے لگا اور مغربی ممالک میں عام ہو کر مسلم ممالک میں بھی دَر آیا،لہذا جب عیسائی پادریوں تک نے اس وقت اس کے خطرناک نتائج کو دیکھتے ہوئے اس پر نکیر کی اور اس کو کالعدم قرار دیا تو مسلمان تو بدرجہ أولی اس پر نکیر کرنے اور اس سے اجتناب کرنے کے مستحق ہیں،خاص طور پر اس دن کو جس طریقہ سے منایا جاتا ہے،جہاں اخلاق واقدار کی تمام حدود کو پھلانگ کر بے شرمی وبے حیائی کو کھلے عام جواز فراہم کیا جاتا ہے،غیر اخلاقی وغیر قانونی تعلقات کو تہذیب وتمدن کی علامت سمجھا جاتا ہے،اظہار محبت کے لئے تمام حجابات وا کر دئے جاتے ہیں،باروں،ہوٹلوں،پارکوں اور مختلف مقامات پر رقص وسرور کی شیطانی محفلیں سجا کر ہر قسم کے شہوانی ارمان بے حجابانہ طور پر پورے کئے جاتے ہیں،تمام انسانی واخلاقی قدروں کو پامال کیا جاتا ہے،اور فحاشیت وعریانیت اور بے حیائی کا ایسا ننگا ناچ ہوتا ہے جس کو دیکھ کر اور سن کر سلیم الفطرت انسان الأمان والحفیظ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے،تو کیا امت مسلمہ کے ایک غیرت مند نوجوان اور عفت مآب دوشیزاؤں کے لئے یہ دن کسی بھی درجہ میں محترم ومقدس ہو سکتا ہے؟!اور کیا ایک مسلمان کا ضمیر اس طرح کے فحش اور حیاسوز’’یوم عشاق‘‘کو منانے کے لئے تیار ہو سکتا ہے؟!
اسلام محبت کا دشمن نہیں ہے بلکہ محبت ومودت کا دین ہے اور محبت کو صحیح اور فطری رخ عطا کرتا ہے،انسان کو فحاشیت ،بے حیائی اور بے شرمی سے دور رکھتا ہے،جذبہ محبت کو بے لگام کر کے ہوس رانی اور عیش پرستی سے بچاتا ہے،اخلاقی اقدار وآداب کو اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے،اسلام جائز محبت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے،اس کو پروان چڑھاتا ہے بلکہ اس کے نتیجہ میں انسان کو مقامِ بلند عطا کرتا ہے،جیسے کہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت،ماں باپ سے محبت،رفیقہ حیات سے محبت،عزیز واقارب سے محبت،وغیرہ،مرد وعورت کا رشتہ ایک پاکیزہ رشتہ ہے،جس کو گدلا کرنے سے فطرتِ انسانی بھی ابا کرتی ہے،لیکن جہاںصرف شہوانیت اور حیوانی جذبات کی تکمیل مقصود ہو، انحراف وبگاڑ،بے حیائی وبے شرمی اور شیطانی جذبات کا رفرما ہوں ،تو ایسی شہوانی اور شیطانی محبت کو اسلام ممنوع اورحرام قرار دیتا ہے،ویلنٹائن ڈے اسی طرح کی شہوانی اور شیطانی جھوٹی محبت سے مرکب ہے،جو کسی بھی باغیرت معاشرہ کے لئے موت سے بھی زیادہ خطرناک ہے،یہ زوال وپستی کی ایسی خطرناک دلدل ہے جس میں معاشرہ شیطان کی آماجگاہ بن کر بالکل کھوکھلا ہو جاتا ہے،جوانوں کی صلاحیتیں شیطانی خیالات اور شہوانی أمنگوں کی نذر ہوجاتی ہیں۔
مسلمانوں کی دو عیدیں توقیفی ہیں،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں مسلمانوں کے لئے دو ہی عیدیں متعین فرمائی ہیں،اس’’محبت کی عید‘‘کی اسلامی معاشرہ میں کوئی بنیاد نہیںہے،خاص طور پر جب کہ اس میں غیروں سے مشابہت بھی پائی جاتی ہے،آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ:’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے‘‘۔(سنن أبی داؤد)یقینا یہ دن منانے میں بت پرستوں اور یہود ونصاری سے مشابہت ہوتی ہے جو ایک مسلمان کو کسی بھی اعتبار سے زیب نہیں دیتا ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے لئے دنیاوی واخروی سخت عذاب کی وعید سنائی ہے جو ایمان والوں میں فحاشیت وبے حیائی عام کرنا چاہتے ہیں،یا بے حیائی کو عام کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں،ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’بلاشبہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی عام ہو ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور اللہ بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ہو‘‘۔(سورہ نور،آیت:۱۹)
ویلنٹائن ڈے فحاشیت وعریانیت اور بے حیائی عام کرنے کا ذریعہ ہے،یہ اسلامی عقائد واصولوں کے بالکل منافی ہے،معاشرہ کو اخلاقی اعتبار سے دیوالیہ بنانے کی منصوبہ بند سازش ہے،اس کے منانے میں یہودونصاری اور بت پرستوں کی تقلید ومشابہت ہے،یہ اسلامی وانسانی غیرت کے لئے ایک چیلنج ہے،اس سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی عزت کو پامال کرنا مقصود ہے،اس کے ذریعہ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو شیطانی رخ دے کر ان کو زوال وپستی کی دلدل میں دھکیلا جاتا ہے،یہ ماں باپ کے لئے ایک رسوا کن عمل ہے،یہ ایمان سوز بھی ہے اور اخلاق سوز بھی،بے حیائی کو عام کرنے والے یاد رکھیں کہ سب سے پہلے انہی کے گھر اس سے متأثر ہو کر تباہ وبرباد ہوتے ہیں،حیا کے کلچر کو عام کیجئے کیوںکہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:’’جب تم سے شرم وحیا رخصت ہو جائے تو پھر جو چاہو کرلو‘‘(صحیح بخاری)۔
صابر آزاد قاسمي
No comments:
Post a Comment