16 اگست 1968 کو ہریانہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے اروند کیجریوال نے ہندوستان کی سیاست میں ایک نیا باب رقم کیا ہے۔ تقریبا 46 سالہ اس دور زندگی میں اروند کیجریوال نے بہت سی کامیابیاں حاصل کیں، بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے، بہت سی پریشانیاں اور مشکلوں کا سامنا کیا ہے، لیکن جس طرح اس الیکشن میں ایک بڑی کامیابی انہوں نے حاصل کی ہے ،اور دہلی کی سیاست میں ایک نیا باب رقم کیا ہے وہ ان کی سب کامیابیوں پر حاوی نظر آتی ہے، خاص طور سے ایسے دور میں جب کہ ہر طرف فرقہ پرست طاقتوں کا دور دورہ تھا ، فسطائی طاقتوں کو کامیابی در کامیابی حاصل ہوتی جارہی تھی، اور محسوس ہوتا تھا کہ ان کی کامیابیوں کا سلسلہ شاید اتنی جلدی رکنے والا نہیں ہے، خود یہ ظالم ترین صاحب اقتدار حضرات اپنی کامیابیوں پر نازاں و فرحاں نظر آتے تھے، کبر و بڑائی، تکبر و غرور میں ڈوبے ہوئے یہ لوگ اپنی زبانوں سے مغلظات اور برے اعمال کا سفر جاری رکھے ہوئے تھے، ان کی زبان کی شائستگی، انداز کی حسن ادائیگی، کردار کی پاکیزگی اور اخلاق کا حسن پوری طرح نیست و نابود ہوچکا تھا، طاقت کے نشے میں ان لوگوں نے یہ باور کرلیا تھا کہ اب ہماری یہ کامیابیاں کسی طرح بھی رکنے والی نہیں ہیں ، لیکن برائی کو زوال ضرور ہوتا ہے، پاپ کا گھڑا پھوٹتا ضرور ہے، متکبرین ذلیل و خوار ہوتے ضرور ہیں، اللہ تعالی ہاتھی کو چیونٹی کے ذریعہ ہلاک کرتا ہے۔ سیاست کے نو آزمودہ اس جوان نے اچھے اچھے سیاست دانوں کو دھول چٹائی ہے،دگجوں کو انکی اوقات یاد دلادی ہے، اتناہی نہیں بلکہ جن حضرات کا یہ گمان تھا کہ ان کو کوئی ہرا نہیں سکتا ہے وہ لوگ اب شرمندہ نظر آتے ہیں، ہاں ہمیں اتنا افسوس ضرور ہے کہ مسلمانوں کے کچھ ایسے بڑے نیتا بھی ہار سے دوچار ہوئے جنہوں نے کبھی اپنی زندگی میں شکست کا منہ نہیں دیکھا تھا، لیکن وہیں اس بات کی خوشی بھی ہے کہ 4 مسلمان عام آدمی پارٹی سے کامیاب ہوئے، میں خود دہلی میں اس وقت موجود تھا جب الیکشن کا رزلٹ آرہا تھا، میں نے محسوس کیا کہ لوگوں کو عام آدمی پارٹی کی کامیابیوں سے اتنی خوشی نہیں ملی جتنی خوشی انہیں فرقہ پرست طاقتوں کی ہار سے حاصل ہوئی ہے۔
کانگریس اگرچہ دہلی میں ایک سٹ بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی، اور لوگ کہتے ہیں کہ کانگریس کا دہلی سے صفایا ہوگیا ہے، لیکن بی جے پی کی اتنی بڑی ہار بھی کانگریس کی کامیابی ہے، اور اندرونی طور پر کانگریس کا منشا بھی یہی محسوس ہوتا ہے، آپ ہی فیصلہ کیجئے اور ایک نظر پرچار، اشتہارات اور جلسے جلوس پر ڈالئے، دہلی میں سونیا گاندھی نے صرف 1 ریلی اور راھل گاندھی نے 4 ریلی کی،دیگر بڑے نیتا بھی زیادہ محنت کرتے نظر نہیں آئے،اشتہارات اور جھنڈے بھی زیادہ تر عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کے ہی نظر آئے، ان باتوں سے سیاست پر گہری نظر رکھنے والے یہی بات کہتے نظر آئے کہ کانگریس جانتی تھی کہ ہم بی جے پی کی لہر کو نہیں روک سکتے، اس کےلئے ایک طوفان کی ضرورت ہے لہذا انہوں نے سمجھ داری سے دوسری طرف سے اٹھنے والے طوفان کو کمزور نہ کرکے بی جے پی کے فاتح رتھ کا سد باب کردیا۔ اب یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ بی جے پی کے لئے بہار اور بعد ازاں یوپی بھی دشوار گذار اور معرض خطر میں ثابت ہوسکتے ہیں، اور آنے والے الیکشن میں بی جے پی کی فتح پر بریک بھی لگ سکتے ہیں۔
یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ مسلمان آج تک سب پارٹیوں کے لئے صرف ووٹ بینک اور صاحب اقتدار حضرات کے لئے صرف ضرورت میں خدام سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے ہیں، کسی بھی خطے کی کوئی بھی پارٹی ہو چاہے وہ الیکشن کے دنوں میں مسلمانوں سے کتنے بھی وعدے کرے، اور خواہ کتنی ہی ہمدردی کا دم بھرے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد مسلمان چائے کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دئے جاتے ہیں، ایسے میں ہم اروند کیجریوال سے کوئی خاصی امید نہیں کرسکتے ، البتہ اتنا ضرور کہیں گے کہ مسلمانون نے جس طرح کیجریوال پر بھروسہ کرکے اپنوں کو چھوڑ کر ان کا ساتھ دیا ہے اور ان کو اقتدار میں لانے کے لئے جو کوششیں کی ہیں وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہیں۔اروندکیجروال صاحب کوئی ناسمجھ، ان پڑھ جاھل انسان بھی نہیں ہے، اگر انہیں اور بھی کامیابیاں چاہئے تو یقینا انہیں مسلمانوں کے مسائل کی طرف توجہ دینی ہوگی، اور ان کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔
Monday, 16 February 2015
دہلی عام آدمی پارٹی اور مسلمان
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment