Tuesday, 17 February 2015

چالبازی اور عقلمندی کا ایک معیار

چالبازی اور عقلمندی کا ایک معیار
۔
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ
۔
۔
۔
ویسے تو  اس کا درمیانہ قد تھا لیکن موٹاپے نے اس کے درمیانہ قد کے احساس کو پستہ قد میں محسوس کرنے پر مجبور کردیا تھا، یقیناﹰ یہ چلتا ہوا ایسے ہی لگتا ہوگا جیسے کوئی لڑھکتی ہوئی گیند ہے، ایک کریلہ  دوسرا نیم چڑھا پھولے ہوئے پیٹ نے اس کی بدنمائی دوبالا کردی تھی، سیاہی مائل اس نوجوان کو دیکھ کر ناظرین پر اگر چہ سستی طاری ہوجاتی ہوگی، لیکن خود یہ بولنے میں بڑا چاق و چوبند اور مستعد نظر آرہا تھا، جیسے کوئی گنوار عورت  پڑوسن کے سامنے اپنی ساس کی بدسلوکی کا تذکرہ کرتی ہے بالکل اسی طرح یہ موٹا، چھوٹا، اور کلوٹا آدمی بہت دیر سے کسی دوسرے کو موقع دئے بغیر سلسلہ گفتگو جاری رکھے ہوئے تھا، اور خلاف قیاس مسلسل کلام سے اس پر سانس کا دورا بھی نہیں پڑتا تھا، شاید بولنے میں یہ مشاق تھا اور یہی وجہ رہی ہو کہ اس کے گال بھی لٹکے ہوئے نہیں تھے، کہ منہ کے کھلنے بند ہونے کی ورزش نے ان کو محدود کردیا ہوگا۔
جب ہم اس کو بولتا چھوڑ کر مسکراتے ہوئے اٹھ کر چلے تو کچھ وقفہ کے بعد ایک ساتھی میری برابر میں آئے اور کہنے لگے یہ بہت چالباز اور عقلمند آدمی ہے۔
۔
میں نے ایک اچٹتی ہوئی نگاہ سے اپنے ہمراہی کو دیکھا، یہ خوشنما نو عمر لڑکا میرا قریبی رشتہ دار تھا، اسی لئے میں سنجیدگی سے گویا ہوا:
بھائی جس کی چالبازی کا سامنے والا اندازہ لگالے وہ چالباز کہاں، اور جو سامنے والے کو بالکل بے وقوف، ٹھپ، اور کند ذہن سمجھے اور خود کو مفکر، عقلمند، اور ماہر تصور کرے اس سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہوسکتا ہے۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

No comments:

Post a Comment