Monday, 2 March 2015

99 کا پھیر

99 کا پھیر

ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ

‌" دیکھا!! برابر والے گھر میں غریب آدمی رہتا ہے، بے چارہ رکشہ چلاتا ہے پھر بھی کتنے اچھے اچھے کھانوں کی خوشبو آتی ہے، روز اچھے اچھے پکوان بنائے جاتے ہیں، اور ایک تم ہو جو اتنے بڑے مالدار ہو پھربھی بس آلو لاکر بھردئے ہیں گھر میں، روز آلو کھاتے رہو ‌"

کنجوس سیٹ کی بیوی نے ایک ہی سانس میں اتنے الفاظ ایسے کہے جیسے پہلے سوچ کر رٹا لگایا ہوا ہو، یہ ایک ادھیڑ عمر کی عورت تھی، گو بدن پر کپڑے مہنگے نہیں تھے لیکن پھر بھی رکھ رکھاؤ سے باسلیقہ معلوم ہوتی تھی، ویسے تو یہ اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور شادی بھی مالدار گھرانے میں ہوئی تھی، لیکن بدقسمتی سے سسرال میں اکثر لوگ کنجوس تھے، اور شوہر "ایک کریلہ دوسرا نیم چڑھا" مہا کنجوس گویا گنجوسوں کا بادشاہ تھا۔
اسی لئے یہ عورت بار بار رانڈ کے رونے کی طرح روتی رہتی تھی۔
کہتے ہیں پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل سکتا ہے لیکن عادت نہیں بدل سکتی، بالکل اسی طرح اس آدمی نے جب بیوی کو واویلہ کرتے دیکھا تو اس کا ایک توڑ سوچا، ایک تدبیر اس کے ذہن میں آئی اور اس نے 99 اشرفیاں ایک تھیلی میں باندھ کر، غریب پڑوسی کے گھر میں پھینک دیں۔
ادھر پڑوسی نے 99 اشرفیاں دیکھیں تو خوشی سے جھوم اٹھا، لیکن جب گنا تو 99، سوچا ذرا محنت سے کماتا ہوں اور ان کو پوری 100 کرلیتا ہوں، لیکن کہاں پدی اور کہاں پدی کا شوربا، بھلا اس رکشہ چالک کی آمدنی اتنی کہاں تھی کہ یہ ایک اشرفی بھی اتنی آسانی سے جمع کر سکے، لہذا اس جمع پونجی کے چکر میں اچھے اچھے کھانے اور پکوان سب بند ہوگئے۔
ایک روز سیٹ کی بیوی نے سیٹ سے پوچھ ہی لیا، کیا بات ہے غریب پڑوسی کے یہاں سے عمدہ کھانوں کی خوشبو آنی بند ہوگئی ہے، سیٹ نے پہلو بدلا، ذرا سیدھا ہوکر بیٹھا، موچھوں کو تاؤ دیا اور پھر اکڑ کے  کہا:

99 کے پھیر میں پھنس گیا، اب کھانے اور پکوان تو کجا خوشبو سے بھی گیا۔
۔
ہاں، یہ 99 کا پھیر ہے ہی ایسا کہ جب کوئی اس میں پھنس جاتا ہے، اور اس کے چکر میں پڑ جاتا ہے، تو پھر اس کو دنیا کی کسی نعمت میں بھی دل کشی معلوم نہیں ہوتی ہے، دوست و احباب، یار و مددگار، اپنے اور رشتہ دار یہ دور دور اچھے لگتے ہیں، کھانا، پکوان طعام، لذت، گھومنا، پھرنا، شاپنک، خرید و فروخت، دینا، عطا کرنا، اور ہر طرح کی خوشی محدود ہوجاتی ہیں۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

No comments:

Post a Comment