Sunday, 8 February 2015

ویلنٹائن ڈے ۔ قسط 2

ویلنٹائن ڈے
۔
قسط 2
۔
۔
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ

۔
۔
سرخ گلاب کو اپنی مٹھی میں پکڑ کر اس طرح مسل دیا تھا جیسے ساری خطا اسی گلاب کی ہو، یہی گلاب تمام خطاؤں کی جڑ ہو، لیکن دوسرے ہی لمحے رخسارِ خوشنما پر پڑنے والے طمانچہ نے جہاں اس کے لئے دن میں تاروں کی مثال قائم کی وہیں اس کے رخسار پر اس معتوب گلاب کی طرح پانچ دھاریوں کے آثار واضح نظر آرہے تھے۔ اچانک گال پر پڑنے والے اس طمانچہ نے کچھ دیر کے لئے اس پر سکتہ جیسی کیفیت طاری کردی تھی۔ وہیں دوسرے ہی لمحہ کسی پھوہڑ عورت کی طرح گالیوں کا طوفان اس کی زبان سے اسی طرح جاری ہوا جیسے کوئی گنوار بھو اپنی ساس کے لئے سوغات ادا کرتی ہے، اور اس سے پہلے کہ اس کا ہاتھ عاشق کے گریبان تک پہنچتا پاس میں موجود افراد بیچ بچاؤ کے لئے اسی طرح کود پڑے جیسے یہی ان کی مثالی عادت ہو۔
اس جنگ و جدل میں صلاح کے لئے کوشاں چند افراد میں سے بارعب، ادھیڑ عمر کے شخص نے اپنی ذہانت اور ذکاوت کی ایک طائرانہ نگاہ مجمع پر ڈالی اور ایک طرف سہمی ہوئی لڑکی اور غیر مہذب لوگوں کی طرح لڑنے والے دو نوعمر لڑکوں کو دیکھا تو معاملہ کی نوعیت کچھ سمجھ میں آئی، وہ صاحب آگے بڑھے اور عاشق سے معاملہ کی نوعیت کے متعلق استفسار کیا، اس نے بڑے غصہ میں بڑے بپھرے ہوئے انداز میں الفاظ کو چباتے ہوئے اپنی داستان عشق بیان کرتے ہوئے کہا کہ جناب میں اس حسن بےپرواہ ، ماہ جبیں، خوبصورت مثل پری کو پسند کرتا تھا، آج ویلنٹائن ڈے کے موقعہ کو عشق کے لئے ذریعۂ غنیمت جان کر صبح سویرے اپنی نیند کی قربانی دیکر مالی کی دکان پر پھول خریدنے کے لئے پہنچا لیکن جب گلاب کی گرانئ قیمت کا علم ہوا تو اپنے پرس میں چھپی ایک ایک پائی جمع کرنے کے بعد بھی گلاب کی قیمت تک نہ پہنچا سکا۔ پھر مالی کی خوشامند سے کام چلانے کی کوشش کی حالانکہ میں نے آج سے پہلے کسی کے ساتھ بھی خوشامندانہ رویہ روا نہیں رکھا تھا لیکن پھر بھی میں نے سوچا عشق کے لئے اتنی خواری تو برداشت کرنی ہی پڑے گی، لیکن اس وقت مجھے اس خوشامندانہ روئے سے نفرت محسوس ہوئی جب مجھے اس مالی نے کم قیمت میں گلاب دینے سے منع کردیا بس پھر مجھے ناچاہتے ہوئے بھی اپنے پرس میں موجود 786 کے ایک نوٹ کو قربان کرنا پڑا، لیکن جب بہت سی قربانی اور جہد مسلسل کے بعد عشق میں کامیابی کا وقت قریب سے قریب تر ہوا اور امید قوی تھی کہ میری معشوق میری محبت کو شرف قبولیت سے نواز دے گی تو عین اسی وقت اس انجان شخص نے آکر میری محبت کے معاون سرخ گلاب کو اس طرح مسل دیا گویا کوئی ناگوار شئے اس کے قبضہ میں آگئی ہو، بس پھر میں کیا نہ کرتا……  عاشق نے ٹھنڈی سانس لیکر کھاجانے ولی نظر سے اس نووارد خوبصورت شخص کو دیکھا اور دوچار گالیوں کے بعد کہا: اگے کی کہانی اس سے معلوم کرو جس کے رخسار پر پانچ خط نظر آرہے ہیں۔
بڑے میاں اس خوبصورت لباس، اور بنے سنورے لڑکے کی طرف متوجہ ہوئے اور استفسارانہ انداز میں اس کی طرف دیکھا………………

جاری، جاری، جاری۔
۔
۔
۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

No comments:

Post a Comment