Friday, 27 February 2015

دو اور دو "پانچ"

دو اور دو "پانچ"

ازقلم‌: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ

ایک گاؤں میں ایک بنئے کی دکان تھی، لیکن یہ کوئی خاص بات نہیں کیوں کہ ہندوستان کے ہر گاؤں میں ایک دو بنئے کی دکانیں ضرور پائی جاتی ہیں، خاص بات یہ ہے کہ بنیا جب بھی حساب جوڑتا تو کہتا دو اور دو پانچ ہوتے ہیں،
لوگ چونکہ اس سے ادھار سدھار سامان خریدا کرتے تھے بایں وجہ اس کے احسان مند بھی تھے اور اس سے مرعوب بھی۔
لیکن آپ یقینا آگاہی رکھتے ہونگے کہ برائی پائیدار نہیں ہوتی، پاپ کا گھڑا پھوٹتا ضرور ہے۔ ایک روز ایک پڑھا لکھا بےباک پُر جوش نوجوان گاؤں میں آیا۔ اگر عام زبان میں کہا جائے تو یہ بجا ہے کہ ہونی ہونے کو بنتی ہے لہذا اتفاق کہ وہ نوجوان بنئے کی دکان سے کچھ سامان خریدنے کے لئے گیا اور حساب کیا تو دو اور دو پانچ کا حساب سنا تو بول پڑا بھائی دو اور دو چار ہوتے ہیں، آپ ایک زیادہ جوڑ رہے ہیں۔
بنئے نے اپنے موٹے سے چشمے کے اوپر سے نوجوان کو گھور کر دیکھا اور کہا: تو کل کا لونڈا ہمیں حساب سکھائے گا؟ یہاں پورا گاؤں وہی کہتا ہے جو میں کہہ رہا ہوں، لیکن لڑکا بھی نوجوان، پڑھا لکھا پرجوش تھا۔ سب سے بڑی بات اس کو اپنے حق پر ہونے کا احساس تھا ،پس بہت بحث و مباحثہ کے بعد دس روپئے کی شرط ٹہری کے جو بھی حق پر ہوگا اس کو ہارنے والا دس روپئے دے گا، اور فیصلہ بھی 84 گاؤں کی پنچایت کرےگی۔
ہرطرح کے معاملات طے ہونے کے بعد بنیا گھر تیاری کے لئے پہنچا آخر 84 گاؤں کی پنچایت کے سامنے جیت کا جشن منانا تھا۔ بیوی نے بنئے سے احوال جاننے کے بعد کہا آپ تو ہار جاؤگے، دو اور دو تو چار ہی ہوتے ہیں، اب کمبل بھی گیا اور دمڑی بھی گئی، عزت بھی جائے گی اور دس روپئے بھی، بنئے نے بیوی کی طرف دیکھا اور چند ثانیے بعد پورے اعتماد سے گویا ہوا: ارے بھاگیوان تو کیوں گھبراوے، میں ہاروں گا تو جب جب کسی کی مانوں گا، میں تو بس یہی کہتا رہوں گا دو اور دو پانچ ہوویں، جو چاہئے جتنا زور لگالے۔
۔
ہاں، جناب ہار جیت اسی وقت ہوتی ہے جب کوئی مانتا ہے  اور کوئی مانے ہی نا تو اس کی کیا ہار جیت؟
اسی لئے آپ بھی ہوشیار ہوجائیں اور جو بھی حق ماننے کے لئے تیار نہ ہو اس سے بحث ومباحثہ، دلیل و حجت، گفتار و مناظرہ ترک کرکے اپنے کام پر دھیان دیجئے، ان سب باتوں سے مزید برائی پھیلنے کا اندیشہ ہے، جسے نہیں ماننا وہ نہیں مانے گا چاہے پوری دنیا بھی زور لگالے، یا پھر آسمان گر پڑے یا زمین پھٹ پڑے، ہاں، ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے، اسی سے دعا کیجئے، وہی کوئی نہ کوئی سبیل نکالے گا۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

Wednesday, 25 February 2015

دشمنان اردو کون؟

دشمنان اردو کون؟

ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ

اردو بنام دیگر لشکری زبان ایک مظلوم ترین اور معتوب ترین زبان ہے، اس میں الفاظ کا تناسب خوبصورت، تلفظ کی ادایگی دلپذیر اور انداز تخاطب نہایت ہی مؤدب ہے، نثر میں میں دلنشین اور نظم میں خوشنما معلوم ہوتی ہے، نطق میں پرذائقہ، سماعت میں شیریں، اور مطالعہ میں آسان ترین زبان ہے۔
زمان دوراں کے پیش نظر یہ کہنا بجا ہے کہ بر صغیر میں عربی کے بعد اسلامی زبان سے متعارف ہے، نیز پاک میں بزبان اول اور ہند میں بزبان دیگر بھی پہچانی جاتی ہے۔
گردش ایام میں سخت ترین ہواؤں کے تھپیڑوں نے نرم و نازک اردو کے رخساروں کو جھلسانے کی پوری پوری سعی کی ہے، عوام نے اردو کی اہمیت کو ناسمجھ کر چھوڑا ہے تو عوام کے اردو نہ سمجھنے کا راگ الاپنے والے خواص بھی اردو سے رو گردانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
افسوس کے تلاطم میں غوطہ زنی کا احساس اس وقت دو بالا ہوجاتا ہے کہ جب اپنی تعلیمی عمارت کی بنیاد رکھنے والے حضرات بھی اردو سے کھچے کھچے نظر آتے ہیں۔
فیس بک اور واٹس اپ نے ایک ایسی زبان کو اردو پر حاوی کردیا جو نہ آپ کہیں کتابوں میں پڑھتے ہیں اور نہ کہیں اپنے قلم سے لکھتے ہیں ، بایں وجہ ماہرین اردو بھی اکثر غلطی کرتے ہوئے نظر سے گذرتے ہیں، جہاں ہندوستان میں لوگ اردو زبان سے اس لئے کھچے کھچے رہتے ہیں کہ یہ دوسری زبان ہے وہیں پاکستان میں اردو سے دوری سمجھ سے بالا تر ہے، اگر محدود طریقے اور وقت سے اردو حاصل کرنے والے ہندوستانی اردو میں غلطی سے دوچار ہیں تو وہیں پاکستان میں ہونٹ ہلانے اور آنکھیں کھولنے کے وقت سے لیکر اردو پر محنت کرنے والے حضرات کی اردو میں فحش غلطی دل کو ریز ریزہ کردیتی ہے۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ خواص اردو کی اہمیت جانتے ہوئے عوام کی سمجھی کا لبادہ اوڑھ کر خود بھی اردو سے دور ہوتے جارہے ہیں۔
اردو مشاعروں، محفلوں اور تنظیموں کی صدارت کرنے والے حضرات کی اولاد کو بھی ہم نے اردو سے نا آشنا پایا ہے، اردو پر محنت "برائے شہرت" کا نعرہ لگانے والے حضرات کی اولاد آج انگلش میڈیم اسکول میں اردو سے بہت دور حصول علوم میں مگن ہے۔ بہر حال ان حضرات سے تو یہی کہا جاسکتاہے ؎

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ لٹا کیوں
مجھے راہزنوں سے گلا نہیں تیری راہبری کا سوال ہے
۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

Sunday, 22 February 2015

آج کے خطرات

آج کے خطرات

ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ

اخبارات نے دہشت گرد لکھا، نیوز والوں نے جلاد جیسی شکل سامنے کردی، گھر گھر میں اس کی حیوانیت کے چرچے، جگہ جگہ کانا پھوسی، دیش کا غدار، نمک حرام جس تھالی میں کھاتا ہے اسی میں چھید کرتا ہے، ہر طرح کی گالی، ہر طرح کے برے الفاظ اس کے لئے استعمال کرنا کار ثواب کا گمان، چہار جانب سے اس کے لئے طرح طرح کی سزاؤں کا مطالبہ، کوئی اسے دہشت گرد کہے، کوئی اس کو جلاد کا خطاب دے اور کوئی اسے ٹیررسٹ کہے، بس سوچنے کا موقع کہاں، کہتے جاؤ۔
بہنوئی پریشان پھرے، بھائی چھپتے چھپاتے پھریں، والدین کے لئے کوئی ٹھکانا نہیں، بہن کی آبرو عزت نہ رہی، جگہ جگہ پولس کی چھاپا ماری، سرچ آپریشن پھر گرفتاری، بعد ازاں ہڈیوں کا برودہ، مار، دھاڑ، پٹائی، چھتائی، سب کچھ رواں جب عدالت میں پیش ہو تو سیاہ نقاب کے زریعہ میڈیا مین پیش کیا جائے، پھر ریمانڈ پر لے جاکر نا کردہ جرم کا اعتراف کرایا جائے، مرتا کیا نا کرتا، مار کے آگے بھوت بھی ناچے، اور پھر طرح طرح کے ٹارچر، قسم قسم سے ستانا، نہ کوئی روک ٹوک، نا کوئی پوچھ تاچھ، پھر مقدمہ کی طویل مدت۔ اتنے نہ گھر والوں کو سکون نہ معاشرے مین کوئی عزت، جو جانتے بھی ہوں کہ ان کا لڑکا، ان کا بھائی ان کا رشتے دار بے گناہ ہے وہ بھی خوف و ڈر کی وجہ سے قطع تعلق روا رکھیں، بیاہ شادی ہر فنکشن میں شرکت ممنوع، جو مقدمہ لڑے خفیہ ایجنسی اس کی بھی جانچ کرے، بس اگر مناسب ہو تو جمعیت کا ساتھ اور ان کا سایہ سکون بخش محسوس ہو۔
بہرحال رات کے بعد صبح میں باد نسیم کے جھونکے خوش گوار ہوتے ہیں، اندھیرا چھٹ جاتا ہے، بالآخر سورج نکلتا ہے، حق غالب آتا ہے، سچ نہیں چھپتا، دس سال پندرہ سال زندگی کے قیمتی دن گذرنے کے بعد، جوانی ڈھل جانے کے بعد، حسین سپنے مٹ جانے کے بعد عدالت کا فیصلہ آتا ہے یہ بے گناہ ہے، وہ خطرناک ہلاکت خیز ہتھیار جو اس کے پاس سے برآمد ہوے تھے فرضی تھے، وہ میڈیا کا ڈھنڈورا، وہ اخبار کے سیاہ پنے سب ایک مفروضہ تھے نہ اس کا کسی ممنوعہ تنظیم سے کوئی تعلق رہا ہے، اور نہ کبھی اس نے چیونٹی کو بھی قتل کرنے کی ہمت دکھائی ہے، ہاں اتنا ضرور ہوا کہ اس کا نمبر کسی قابل مواخذہ شخص کے موبائل سے برآمد ہوا یا پھر اس کے موبائل سے ایسے مجرم کا نمبر ملا جس کی پولس کو تلاش تھی اور آج کے زمانے میں یہ کسی طرح بھی ممکن ہے، وٹس اپ کے زریعہ فیس بک کے ذریعہ یا وزیٹنگ کارڈ کے ذریعہ۔ اور ان سے یہ مجرم نہیں بنتا لیکن اس کے ناکردہ گناہوں کی سزا تو اسے مل چکی تھی، اب پچھتانا کیا، ایسا ہوا ہے، بہت جگہ ہوا ہے۔
ہم نے اپنے موبائل میں واٹس اپ فیس بک اور بہت سے ایسے ہی سافٹویر کے ذریعہ پوری جاسوسی کے دروازے کھولے، موبائل کا میدان اس کے لئے صاف کیا، اسے یہاں تک بتادیا کہ اس کے موبائل میں کتنے نمبر ہیں، کتنے نام ہیں، کونسا موبائل نمبر کس نام سے محفوظ ہے، اس کے موبائل میں کس ویڈیو آڈیو پر کونسا نام ہے،پوری ڈیٹیلس ہمارے دشمنوں کے سامنے ہے، اورہم بے فکر آرام سے لیٹے ہوئے ہیں۔
آستین میں سانپ پالا اور اس سے ہوشیار بھی نہ رہے بس اس پر بھروسہ کرتے رہے۔ پھر یہ ہونا ہی تھا۔
اس لئے ہوشیار رہئے اور موبائل میں ایسا کوئی مواد نہ رکھئے جو آپ کو قابل گرفت بنادے۔ اگر آپ کے موبائل میں کسی پڑوس کے شریف آدمی کا نمبر بھی سیو ہے تو پھر بھی آپ اپنے آپ کو محفوظ تصور نہ کیجئے۔

Tuesday, 17 February 2015

چالبازی اور عقلمندی کا ایک معیار

چالبازی اور عقلمندی کا ایک معیار
۔
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ
۔
۔
۔
ویسے تو  اس کا درمیانہ قد تھا لیکن موٹاپے نے اس کے درمیانہ قد کے احساس کو پستہ قد میں محسوس کرنے پر مجبور کردیا تھا، یقیناﹰ یہ چلتا ہوا ایسے ہی لگتا ہوگا جیسے کوئی لڑھکتی ہوئی گیند ہے، ایک کریلہ  دوسرا نیم چڑھا پھولے ہوئے پیٹ نے اس کی بدنمائی دوبالا کردی تھی، سیاہی مائل اس نوجوان کو دیکھ کر ناظرین پر اگر چہ سستی طاری ہوجاتی ہوگی، لیکن خود یہ بولنے میں بڑا چاق و چوبند اور مستعد نظر آرہا تھا، جیسے کوئی گنوار عورت  پڑوسن کے سامنے اپنی ساس کی بدسلوکی کا تذکرہ کرتی ہے بالکل اسی طرح یہ موٹا، چھوٹا، اور کلوٹا آدمی بہت دیر سے کسی دوسرے کو موقع دئے بغیر سلسلہ گفتگو جاری رکھے ہوئے تھا، اور خلاف قیاس مسلسل کلام سے اس پر سانس کا دورا بھی نہیں پڑتا تھا، شاید بولنے میں یہ مشاق تھا اور یہی وجہ رہی ہو کہ اس کے گال بھی لٹکے ہوئے نہیں تھے، کہ منہ کے کھلنے بند ہونے کی ورزش نے ان کو محدود کردیا ہوگا۔
جب ہم اس کو بولتا چھوڑ کر مسکراتے ہوئے اٹھ کر چلے تو کچھ وقفہ کے بعد ایک ساتھی میری برابر میں آئے اور کہنے لگے یہ بہت چالباز اور عقلمند آدمی ہے۔
۔
میں نے ایک اچٹتی ہوئی نگاہ سے اپنے ہمراہی کو دیکھا، یہ خوشنما نو عمر لڑکا میرا قریبی رشتہ دار تھا، اسی لئے میں سنجیدگی سے گویا ہوا:
بھائی جس کی چالبازی کا سامنے والا اندازہ لگالے وہ چالباز کہاں، اور جو سامنے والے کو بالکل بے وقوف، ٹھپ، اور کند ذہن سمجھے اور خود کو مفکر، عقلمند، اور ماہر تصور کرے اس سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہوسکتا ہے۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

Monday, 16 February 2015

دہلی عام آدمی پارٹی اور مسلمان

16 اگست 1968 کو ہریانہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے اروند کیجریوال نے ہندوستان کی سیاست میں ایک نیا باب رقم کیا ہے۔ تقریبا 46 سالہ اس دور زندگی میں اروند کیجریوال نے بہت سی کامیابیاں حاصل کیں، بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے، بہت سی پریشانیاں اور مشکلوں کا سامنا کیا ہے، لیکن جس طرح اس الیکشن میں ایک بڑی کامیابی انہوں نے حاصل کی ہے ،اور دہلی کی سیاست میں ایک نیا باب رقم کیا ہے وہ ان کی سب کامیابیوں پر حاوی نظر آتی ہے، خاص طور سے ایسے دور میں جب کہ ہر طرف فرقہ پرست طاقتوں کا دور دورہ تھا ، فسطائی طاقتوں کو کامیابی در کامیابی حاصل ہوتی جارہی تھی، اور محسوس ہوتا تھا کہ ان کی کامیابیوں کا سلسلہ شاید اتنی جلدی رکنے والا نہیں ہے، خود یہ ظالم ترین صاحب اقتدار حضرات اپنی کامیابیوں پر نازاں و فرحاں نظر آتے تھے، کبر و بڑائی، تکبر و غرور میں ڈوبے ہوئے یہ لوگ اپنی زبانوں سے مغلظات اور برے اعمال کا سفر جاری رکھے ہوئے تھے، ان کی زبان کی شائستگی، انداز کی حسن ادائیگی، کردار کی پاکیزگی اور اخلاق کا حسن پوری طرح نیست و نابود ہوچکا تھا، طاقت کے نشے میں ان لوگوں نے یہ باور کرلیا تھا کہ اب ہماری یہ کامیابیاں کسی طرح بھی رکنے والی نہیں ہیں ، لیکن برائی کو زوال ضرور ہوتا ہے، پاپ کا گھڑا پھوٹتا ضرور ہے، متکبرین ذلیل و خوار ہوتے ضرور ہیں، اللہ تعالی ہاتھی کو چیونٹی کے ذریعہ ہلاک کرتا ہے۔ سیاست کے نو آزمودہ اس جوان نے اچھے اچھے سیاست دانوں کو دھول چٹائی ہے،دگجوں کو انکی اوقات یاد دلادی ہے، اتناہی نہیں بلکہ جن حضرات کا یہ گمان تھا کہ ان کو کوئی ہرا نہیں سکتا ہے وہ لوگ اب شرمندہ نظر آتے ہیں، ہاں ہمیں اتنا افسوس ضرور ہے کہ مسلمانوں کے کچھ ایسے بڑے نیتا بھی ہار سے دوچار ہوئے جنہوں نے کبھی اپنی زندگی میں شکست کا منہ نہیں دیکھا تھا، لیکن وہیں اس بات کی خوشی بھی ہے کہ 4 مسلمان عام آدمی پارٹی سے کامیاب ہوئے، میں خود دہلی میں اس وقت موجود تھا جب الیکشن کا رزلٹ آرہا تھا، میں نے محسوس کیا کہ لوگوں کو عام آدمی پارٹی کی کامیابیوں سے اتنی خوشی نہیں ملی جتنی خوشی انہیں فرقہ پرست طاقتوں کی ہار سے حاصل ہوئی ہے۔
کانگریس اگرچہ دہلی میں ایک سٹ بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی، اور لوگ کہتے ہیں کہ کانگریس کا دہلی سے صفایا ہوگیا ہے، لیکن بی جے پی کی اتنی بڑی ہار بھی کانگریس کی کامیابی ہے، اور اندرونی طور پر کانگریس کا منشا بھی یہی محسوس ہوتا ہے، آپ ہی فیصلہ کیجئے اور ایک نظر پرچار، اشتہارات اور جلسے جلوس پر ڈالئے، دہلی میں سونیا گاندھی نے صرف 1 ریلی اور راھل گاندھی نے 4 ریلی کی،دیگر بڑے نیتا بھی زیادہ محنت کرتے نظر نہیں آئے،اشتہارات اور جھنڈے بھی زیادہ تر عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کے ہی نظر آئے، ان باتوں سے سیاست پر گہری نظر رکھنے والے یہی بات کہتے نظر آئے کہ کانگریس جانتی تھی کہ ہم بی جے پی کی لہر کو نہیں روک سکتے، اس کےلئے ایک طوفان کی ضرورت ہے لہذا انہوں نے سمجھ داری سے دوسری طرف سے اٹھنے والے طوفان کو کمزور نہ کرکے بی جے پی کے فاتح رتھ کا سد باب کردیا۔ اب یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ بی جے پی کے لئے بہار اور بعد ازاں یوپی بھی دشوار گذار اور معرض خطر میں ثابت ہوسکتے ہیں، اور آنے والے الیکشن میں بی جے پی کی فتح پر بریک بھی لگ سکتے ہیں۔
یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ مسلمان آج تک سب پارٹیوں کے لئے صرف ووٹ بینک اور صاحب اقتدار حضرات کے لئے صرف ضرورت میں خدام سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے ہیں، کسی بھی خطے کی کوئی بھی پارٹی ہو چاہے وہ الیکشن کے دنوں میں مسلمانوں سے کتنے بھی وعدے کرے، اور خواہ کتنی ہی ہمدردی کا دم بھرے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد مسلمان چائے کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دئے جاتے ہیں، ایسے میں ہم اروند کیجریوال سے کوئی خاصی امید نہیں کرسکتے ، البتہ اتنا ضرور کہیں گے کہ مسلمانون نے جس طرح کیجریوال پر بھروسہ کرکے اپنوں کو چھوڑ کر ان کا ساتھ دیا ہے اور ان کو اقتدار میں لانے کے لئے جو کوششیں کی ہیں وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہیں۔اروندکیجروال صاحب کوئی ناسمجھ، ان پڑھ جاھل انسان بھی نہیں ہے، اگر انہیں اور بھی کامیابیاں چاہئے تو یقینا انہیں مسلمانوں کے مسائل کی طرف توجہ دینی ہوگی، اور ان کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔

Sunday, 15 February 2015

کھیل کود کے شرعی ضوابط

کھیل کود کے شرعی ضوابط
وباللہ التوفیق۔
اولاً یہ بات ذھن نشین کر لینا چاہئے کہ کھیل کے سلسلہ میں دور حاضر کے نظریہ اور اسلامی نظریہ میں بنیادی اختلاف ہے،
دور حاضر میں کھیل برائے کھیل اور کھیل بحیثیت ایک فن والا نظریہ رائج ہے، جب کہ اسلام نہ تو کھیل برائے کھیل کا قائل ہے, اور نہ ہی اس کی نئی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے دور حاضر کے نظریہ کے اعتبار سے کھیل مقصود بنتا ہے جبکہ اسلام کسی بھی ایسی صورت کی اجازت نہیں دیتا جس میں کھیل کو مقصود قرار دیا گیا ہو.
قرآن پاک میں کھیل کا تذکرہ عموماً مذمت کی انداز میں کیا گیا ہے پورے قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ لھو لعب کے الفاظ کا استعمال موقع مذمت میں ہی کیا گیا ہے۔
وما الحیاہ الدنیا الا لعب ولھو (الانعام ۳۲)
مزید دیکھئے
(المائدہ ۵۸)(عنکبوت ۶۵) (محمد ۳۶)
)الحدید ۲۰) (الزخرف ۸۳)(المعارج ۴۲)
(التوبہ ۶۵)(الانعام ۹۱)(الطور ۱۲)
(لقمن ۶)(الجمعہ ۱۱)
وغیر ذلک من الآیات
(ماخوذ از محمود الفتاوی ۳۔ ۱۲۲)

ہاں البتہ اسلام نے چند تفریحات کی اجازت ہی نہیں دی بلکہ ترغیب دی ہے جن پر اجر وثواب کا بھی وعدہ ہے
کما فی الحدیث لیس من اللھو ثلاث: تادیب الرجل فرسہ وملاعبتہ اھلہ ورمیہ بقوسہ ونبلہ (نصب الرایہ ۴۔ ۳۷۳)
تین چیزیں کھیل میں سے نہیں ہیں.آدمی کا اپنے گھوڑے کو سدھانا اور اس کا اپنے اھل کے ساتھ دل لگی کرنا اور اپنے تیر وکمان سے تیر چلانا.(از حوالہ بالا)
اسی طرح نشانہ بازی, سواری کی مشق,تیراکی کی مشق,پیدل دوڑنا,شریعت کے اصول و قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے ان سب چیزوں میں مسابقت کرنا جہاں اجر وثواب کا باعث ہے وہیں روحانی وجسمانی ورزش بھی ہے..
(از درسی و تعلیمی اھم مسائل  ص ۴۶۲
بحوالہ السنن الکبری للبیہقی ۱۰۔ ۲۶)

شریعت اسلامیہ نے جہاں بہت سے تفریحی کھیلوں کی اجازت دی ہے وہیں چند ایسے کھیلوں کو جو آپسی جھگڑوں, تضییع اوقات, جوا, قمار کا ذریعہ ہے,سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے.
مثلاً چوسر,شطرنج,کبوتر بازی,مرغ بازی,بٹیر بازی, پتنگ بازی,جانوروں کو لڑانا,
ویڈیو گیم,گوٹی,لوڈو,تاش کھیلنا وغیرہ,
ان تمام کھیلوں میں سوائے نقصانات کے دینی یا دنیوی کوئی فائدہ نہیں, اسلئے یہ سب ممنوع ہیں (حوالہ بالا بحوالہ احکام القرآن للتھانوی ۳۔ ۲۰۲)
نیز اسی طرح ہر ایسا کھیل جو انسان کو اس پر واجب حقوق سے غافل کردے, خواہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد ہو یا منکرات منہیات شرعیہ پر مشتمل ہو یا اس کے نقصانات اس کے فوائد سے زیادہ ہوں ایسے کھیل ناجائز ومکروہ تحریمی ہے.
(درسی وتعلیمی اہم مسائل ص ۴۶۱)
        
             خلاصہ کلام مع ضوابط

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ  کا اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ “الناھی عن المناہی” نامی ہے جو احکام القرآن للتھانوی {۳۔ ۱۸۶ } میں ایک جز کے طور پر شامل ہے اس میں آیات قرآنیہ وحدیث و فقہ پر کلام فرما کر آخر میں جو خلاصہ و ضابطہ تحریر فرمایا ہے وہ یہ ہے،

ان اللہو علی انواع،
لھو مجرد۔ ولھو فیہ نفع فائدۃ ولکن ورد الشرع بالنھی عنہ،
ولھو فیہ فائدۃ ولم یرد فی الشرع نھی صریح عنہ ولکنہ ثبت بالتجربۃ انہ یکون ضررہ اعظم من نفعہ ملتحق بالمنھی عنہ،
ولھو فیہ فائدۃ ولم یرد الشرع بتحریمہ ولم یغلب علی نفعہ ضررہ، ولکن یشتغل فیہ بقصد التلھی،
ولھو فیہ فائدۃ مقصودۃ ولم یرد الشرع بتحریمہ ولیس فیہ مفسدۃ دینیۃ واشتغل بہ علی غرض صحیح لتحصیل الفائدۃ المطلوبۃ لا بقصد التلھی،
فھذہ خمسۃ انواع لا جائز فیھا الا الاخیر الخامس فھو ایضاً لیس من اباحۃ اللھو فی شیئ، بل اباحۃ ما کان لھواً صورۃ ثم خرج عن اللھویۃ بقصد صالح وغرض صحیح فلم یبق لھواً
{احکام القرآن للتھانوی ۳۔ ۱۹۹}
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کھیل کی چند اقسام ہیں
۱) لہو محض
۲) وہ کھیل جس میں فائدہ بھی ہے نقصان بھی، لیکن شریعت میں اس کی ممانعت آئی ہے۔
۳) وہ کھیل جس میں فائدہ تو ہے اور شریعت میں اس کی صریح ممانعت بھی نہیں آئی لیکن تجربہ سے اس کا ضرر اس کے نفع سے زیادہ ہونا ثابت ہو چکا ہو وہ بھی ممنوع کے حکم میں ہے
۴) ایسے کھیل جن میں فائدہ ہے اور شریعت میں اس کی صریح ممانعت بھی نہیں آئی اور اس کا ضرر بھی اس کے نفع سے زیادہ نہیں لیکن ان میں محض بنیت لھو مشغول ہوتا ہے۔
۵) ایسے کھیل جن میں منفعت مقصودہ ہے اور شریعت میں اس کی صریح ممانعت بھی نہیں آئی اور ان میں کوئی دینی نقصان بھی نہیں ہے اور ان میں مطلوبہ فائدہ حاصل کرنے کی غرض صحیح سے مشغول ہوتا ہے بغرض لھو نہیں۔۔
ان پنجگانہ اقسام میں سے آخری پانچویں قسم کے علاوہ کوئی جائز نہیں ہے وہ بھی لھو کے جواز کی قبیل سے نہیں ہے بلکہ ایسی چیز مباح کی جارہی ہے جو صورۃً لھو ہے لیکن نیت صالحہ اور غرض صحیح کی وجہ سے وہ لھو نہیں رہا۔
{از محمود الفتاوی ۳۔ ا۳۳ مفتی احمد صاحب خانپوری دامت برکاتھم}

عملیات: ھمزاد، جن، چڑیل اور پری کی وضاحت

عملیات:

ھمزاد، جن، چڑیل اور پری کی وضاحت

اصل میں عملیات کی رو سے دیکھیں تو آسیب کی کئی قسمیں ہوتی ہیں جن میں سرِفہرست ہمزاد ہے۔۔۔۔ ہمزاد کی تعریف یہ ہیکہ یہ ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے جب انسان مرتا ہے، اور اس کا کفن دفن شریعت کے مطابق ہوجاتا ہے، تو ہمزاد بھی اس کے ساتھ دفن ہوجاتا ہے۔ اور اگر کوی حادثات کی موت مرے، یا جس کا کفن دفن نہ ہو، تو اس کا ہمزاد باقی رہ جاتا ہے، جو پھر لوگوں کو پریشان کرتا ہے۔ نیز کبھی کبھی آگے پیش آنے والے حالات بھی بتادیتا ہے۔۔۔۔۔۔

اسی طرح ایک قسم جن کی ہوتی ہے، جو اکثر شریر ہی ہوتے ہیں ان میں سمجھدار کم ہوتے ہیں ضدی اور اڑیل مزاج کے زیادہ ہوتے ہیں، یہ بھی  کئی مرتبہ کیا بلکہ آج کل تو عام بات ہر کسی کو پریشان کرتے ہیں۔۔۔ اور یہ ہم بھی بخوبی جانتے ہیں کہ انکا آنا جانا آسمان تک بھی ہے اس لیئے اگر یہ کچھ باتیں لوگوں کے ذہن کے خلاف بتائیں تو کوئی تعجب کی بات نہی۔۔۔۔ یہ بھی ایک قسم ہے۔۔۔۔۔۔ نیز انہی میں سے جنات بھی ہیں، گویا کہ اچھی اور بری ایک ہی قوم کے دو نام ہیں جن اور جنات۔۔ جناتوں میں اکثر بلکہ سبھی اچھے ہوتے ہیں، یہ شریعت پر عمل کرنے والے اور اہلِ تقوی بھی ہوتے ہیں، یہ کسی کو پریشان کرنے میں پہل بہت کم کرتے ہیں بلکہ کرتے ہی نہی ہیں۔ ہاں جب کوئی ان کو پریشان کردے یا ستادے تو پھر اس کی اچھی ہی خبر لیتے ہیں لیکن اس سب کے بعد بھی جب ان کو حاضر کرکے معافی تلافی کرادی جاے تو یہ خوشی خوشی مان جاتے ہیں اور معاف کردیتے ہیں‐

بعینہہ ان کی مادائیں ہوتی ہیں، جن کو ہم چڑیل اور پری وغیرہ کے نام سے جانتے ہیں۔۔۔ ان میں بھی اکثر وہی بات پائی جاتی ہے جو ان کے نروں میں پائ جاتی ہے۔ یعنی اچھے کی اچھی اور برے کی بری

اور ان سب کے علاوہ احقر کا اپنا تجربہ جو اکثر صحیح ثابت ہواہے وہ ہے اثر۔ ہم اکثر دیکھتے اور سنتے ہیں کہ فلاں عورت کو کسی اثر کی وجہ سے اولاد سے محرومی ہے، فلاں عورت یا آدمی عجیب عجیب طرح کی حرکتیں کرتا  ہے، حالاں کہ جب ان کو کسی عامل کے پاس لے جاو تو  کچھ بھی حاضر نہی ہوتا۔ اور اس مرض میں اکثر عورتوں کی ماہواری بگڑتی ہے اور کمر ہاتھ پیر حیض کے وقت بہت شدت سے درد کرتے ہیں نیز کوئی عورت حمل سے ہو تو اس کو گندے سندے خواب آنا، خون اور مرے ہوے انسان نظر آنا۔۔۔۔۔ اور بھی اسی طرح کی بہت سی باتیں ہیں جو اکثر عورتوں کے ساتھ اور کبھی کبھی مردوں کے ساتھ بھی پیش آتیں ہیں اور ہم ڈاکٹروں کا خوب بھلا کرتے ہیں یہ سمجھ کر کہ کمزوری ہے کمزوری ہے۔

حالاں کہ ساری باتیں اللہ کی طرف سے ہیں جن کو ہم اپنے اعمال کا بدل بھی کہ سکتے ہیں اور قضا وقدر سے بڑھکر تو کچھ بھی نہی ہے جو اللہ نے مقدر میں لکھا ہے وہ تو لازمی پیش آنا ہی ہے۔۔۔
تو ایک اثر ہے اپنی پہچان الگ ہی رکھتا ہے۔۔۔ اور یہ پیش آتا ہے اکثر بے احتیاطی سے جس میں عورتیں پیش پیش رہتی ہیں۔۔۔ پیشاب پاخانہ میں بے احتیاطی، چلنے پھرنے میں بے احتیاطی، وقت کا خیال کئے بغیر سج سنور کر گھر سے نکلنے کی بے احتیاطی، زیادہ خوشبو دار اشیاء لگا کر کہیں جانے میں بے احتیاطی ۔۔۔ حالاںکہ یہ سارے کام احتیاط سے بھی کیئے جا سکتے ہیں اور الحمدللہ ہمارا طبقہ اس میں کافی حد تک بہت مضبوط ہے

تو غرض بے احتیاطی برتنے میں کہیں ایسی جگہ پیر رکھا گیا جہاں پر گندگی۔۔۔۔۔۔۔ حیض و نفاس کے کپڑے پڑے ہوں، یا اور اسی قسم کی کوئی دوسری گندگی ہو، یا غلط جگہ پر غلط وقت میں غلط طریقہ سے پیشاب پاخانہ کرنے لگے، یا ایسی جگہ سے خوشبو وغیرہ لگا کر گزرے جہاں ان کا مقام ہو اور یہ رہتے ہوں، تو ایسے حالات کی وجہ سے کسی شے کے اثر میں انسان آجاتا ہے جس میں وہ سب پریشانیاں آتیں ہیں جو مذکور ہوئیں‐

اور میرے اپنے ذہن کے اعتبار سے اثر جو ہوتا ہے وہ اصل نہی بلکہ اصل کا اثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم چائے پیتے ہیں اور میٹھی پیتے ہیں  ہماری میٹھی چائے پینے کے بعد اسی برتن میں ہم نے ایک صاحب کو بغیر شکر کی چاے بنادی تو وہ چائے پیتے پیتے کہے کہ بھائ چائے میں شکر کا اثر ہے۔ حالانکہ اس میں شکر اپنی ذات کے ساتھ موجود نہی ہے پر اس کا اثر ہے۔۔۔ ایسے یہ اثر بھی ہوتا ہے جو جسم کے ساتھ نہی ہوتا، پر اس کا اثر ضرور ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم بالصواب۔۔

از قلم:
ظہیر الاسلام منیری