خانقاہ اشرفیہ تھانہ بھون کا کچھ ذکر
قسط 1
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ
شمسی گھڑی؛ یہ شمسی توانائی سے چلنے والی گھڑی نہیں بلکہ ایک تکون سہ رخی پیتل کا ٹکڑا زمین پر گاڑ کر اس کے ارد گرد نشان اس طرح لگادئے گئے تھے کہ سورج کی حرکت کی وجہ سے اس ٹکڑے کا یک مثل، دو مثل، اور، وقت زوال وغیرہ معلوم ہوجاتے ہیں ، اسی لئے اس کو دھوپ گھڑی بھی کہاجاتا ہے، یہ گھڑی خانقاہ تھانہ بھون میں آج بھی موجود ہے۔
بہر حال اب تو نقشہ بدل گیا لیکن جب ہم وہاں زیر تعلیم تھے اس وقت کے نقشہ کا اگر ذکر کروں اور وہ بھی اسی گھڑی کے سامنے مغرب کی طرف رخ کرکے، نیز دوسری منزل پر کھڑے ہوکر تو نقشہ کچھ اس طرح تھا، بائیں طرف نظر کریں تو نئی عمارتوں کا سلسلہ تھا اس میں بھی بائیں سائڈ کمرے اور دائیں طرف ایک سیمنٹ سے تیار شدہ چہار دیواری تھی، کمروں کا اختتام نئے طرز کے زینے پر ہوتا تھا، جیسے نیچے کی طرف جانا ہے وہ نیچے اتر جائے ہم تو ابھی اوپر کا ذکر کریں گے، خیر زینے کا اختتام بائیں جانب ہوتا تھا لیکن نئی عمارت کے بعد سامنے کی طرف کچے زینے سے اتر جائیں تو اترنے کے بعد بائیں طرف ایک ٹین کا ڈرم رکھا رہتا تھا جس مین پانی گرم ہوتا تھا اور جس کی ہیئت دھوئیں کی وجہ سے بالکل سیاہ ہوچکی تھی، اور دائیں جانب وہ تاریخی کمرہ تھا جس کے بارے میں ہم نے سنا تھا کہ اس میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ تالیف و تصنیف کا کام کیا کرتے تھے، حضرت کی تصانیف اور ان کا تذکرہ یہاں ممکن نہیں ہے، بہر حال اس کمرہ میں اس وقت بھی کتب خانہ اشرفیہ کی کتابیں بھری ہوتی تھی۔ آج کے دور میں اس طویل و عریض کمرہ کو ہال کہنا چاہئے۔
جی یہ مبارک کمرہ اپنے طول و عرض کے اعتبار سے آج کا ہال کمرہ ہے، اسی میں حضرت نے وہ کار ہائے نمایاں انجام دئے ہیں جو آج اہل حق حضرات کے لئے، مشعل راہ ہے۔
چلو پھر ایک بار دھوپ گھڑی کے سامنے کھڑے ہوکر دوسری سائڈ کا ذکر کرتے ہیں۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی
No comments:
Post a Comment