ہاشم پورہ کے روزہ دار
از: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ
22 مئی 1987ء……… رمضان کا مہینہ، الوداع جمعہ، مقام ہاشم پورہ۔ لوگ صبح سے یہ شور سنتے تھے کہ آج گھروں کی تلاشی ہوسکتی ہے،افواہ ہونے کا بھی امکان تھا ، جھوٹ بھی ہوسکتا تھا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، اچانک شور اٹھا کہ پی اے سی نے ہاشم پورے کا گھیراؤ کرلیا ہے، اور پھر گھروں سے لوگوں کو زبردستی نکال کر باہر جمع کیا جانے لگا، آہ، رمضان کا آخری جمعہ سبھی روزے سے ہونگے، ویسے بھی سخت گرمی کے روزے، مئی کی گرمی، دھوپ کی شدت، گرمی کی تپش، روزہ داروں کو میدان میں جمع کرلیا گیا، پھر ان میں سے تندرست نوجوانوں کو علاحدہ کیا گیا، مائیں چلائی بھی، بہنیں بلبائی بھی ، باپ گڑگڑائے بھی ، سب اپنی بے بسی پر جھنجھلائے اور پچتائے بھی ہونگے، لیکن وہ ٹرک میں سب کو بھر کر لے گئے، سب کو روتا، بلکتا، گڑگڑاتا، واویلا کرتے ہوئے چھوڑ کر لے گئے ، نو جوانوں کو، روزے داروں کو، ہائے ذرا تصور کرو کیسے وہ لوگ عید کی تیاری میں لگے ہوئے ہونگے، کیسے کیسے کپڑے بنارہے ہونگے، کچھ کے کپڑے سلکر آگئے ہونگے ،کچھ کے سینے کیلئے گئے ہوئے ہونگے ،جبکہ کچھ تو آج الوداع جمعہ کو بھی نئے لباس میں ملبوس تھے، آج ٹوپی سب کے سروں پر تھی، اللہ اللہ، لیکن ابھی ماؤں، بہنوں، والدین یار رشتہ دار سب کو ایک موہوم سی امید تھی، شاید وہ ظالم لوگ ان کو تھانے لے گئے ہوں، شاید مار پیٹ کے چھوڑدیں، شاید چند دن جیل میں بند کریں پھر واپس آجائیں، لیکن… لیکن وہ… وہ… تو ہنڈن ندھی کے پاس لے جائے گئے تھے، سب کو لائن میں کھڑا کیا گیا اور… اور…تڑ تڑ تڑ گولی چلادی، کچھ گڑگڑائے بھی، کچھ روئے چلائے بھی، کچھ نے اپنے چھوٹے بچوں کے یتیم ہوجانے کو بتایا، کچھ نے رحم کی بھیک بھی مانگی، لیکن ان ظالموں کو ترس نہ آیا، اجی ان کا دل سخت بھی تھا اور اپنے بچ جانے یقین بھی، مرنے والے مسلمان ہی تو ہیں، انہیں سب ہی مارتے ہیں۔ کس کا کیا بگڑتا ہے، یہ تو اپنی حکومتوں میں بھی مظلوم بن کر جیتے ہیں پھر یہ تو ویسے بھی ہندوستان ہے، یہاں تو پولس اُن کی، سرکار ان کی، عدالت ان کی، حکم ان کا، ظلم ان کا، انصاف انکا، مار گراؤ سب ان کو، ہاں سب کو مار ڈالا، پھر کھینچ کھینچ کر ندی میں پھینک دیا، کسی کو ٹانگ سے کسی کو ہاتھ سے پکڑا اور ہنڈن ندی کے حوالے کردیا،،،،،،، ندی کا رنگ سرخ ہوگیا، چیل کوے آسمانوں پر نظر آنے لگے، لیکن… لیکن… ان کی لاشیں تو پانی میں ڈوب چکی تھیں ، دکھ تو ہمیں ملا، روئے، چلائے، بلبلائے والدین، بہنیں اور رشتہ دار؛ وہ تو امر ہوگئے، ہاں ہمیشہ کے لئے زندہ، ہاں، ہاں شہید، رمضان کا مہینہ، روزہ کی حالت، جمعہ کا دن، نئے، یا دھلے ہوئے صاف شفاف کپڑوں میں ملبوس سرخ دھبوں کے ساتھ اپنے اللہ سے جاملے،
ظالم جیت گیا، مظلوم ہار گیا، گناہگار آزاد، بے گناہ مارے گئے، اب کیا ہوگا؟
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی
No comments:
Post a Comment