Saturday, 21 March 2015

قتل و غارت گری کے مرتکب کو جب آزاد کردیا گیا

ہاشم پورہ کے روزہ دار

از: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ

22 مئی 1987ء……… رمضان کا مہینہ، الوداع جمعہ، مقام ہاشم پورہ۔ لوگ صبح سے یہ شور سنتے تھے کہ آج گھروں کی تلاشی ہوسکتی ہے،افواہ ہونے کا بھی امکان تھا ، جھوٹ بھی ہوسکتا تھا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، اچانک شور اٹھا کہ پی اے سی نے ہاشم پورے کا گھیراؤ کرلیا ہے، اور پھر گھروں سے لوگوں کو زبردستی نکال کر باہر جمع کیا جانے لگا، آہ، رمضان کا آخری جمعہ سبھی روزے سے ہونگے، ویسے بھی سخت گرمی کے روزے، مئی کی گرمی، دھوپ کی شدت، گرمی کی تپش، روزہ داروں کو میدان میں جمع کرلیا گیا، پھر ان میں سے تندرست نوجوانوں کو علاحدہ کیا گیا، مائیں چلائی بھی، بہنیں بلبائی بھی ، باپ گڑگڑائے بھی ، سب اپنی بے بسی پر جھنجھلائے اور پچتائے بھی ہونگے، لیکن وہ ٹرک میں سب کو بھر کر لے گئے، سب کو روتا، بلکتا، گڑگڑاتا، واویلا کرتے ہوئے چھوڑ کر لے گئے ، نو جوانوں کو، روزے داروں کو، ہائے ذرا تصور کرو کیسے وہ لوگ عید کی تیاری میں لگے ہوئے ہونگے، کیسے کیسے کپڑے بنارہے ہونگے، کچھ کے کپڑے سلکر آگئے ہونگے ،کچھ کے سینے کیلئے گئے ہوئے ہونگے ،جبکہ کچھ تو آج الوداع جمعہ کو بھی نئے لباس میں ملبوس تھے، آج ٹوپی سب کے سروں پر تھی، اللہ اللہ، لیکن ابھی ماؤں، بہنوں، والدین یار رشتہ دار سب کو ایک موہوم سی امید تھی، شاید وہ ظالم لوگ ان کو تھانے لے گئے ہوں، شاید مار پیٹ کے چھوڑدیں، شاید چند دن جیل میں بند کریں پھر واپس آجائیں، لیکن… لیکن وہ… وہ… تو ہنڈن ندھی کے پاس لے جائے گئے تھے، سب کو لائن میں کھڑا کیا گیا اور… اور…تڑ تڑ تڑ گولی چلادی، کچھ گڑگڑائے بھی، کچھ روئے چلائے بھی، کچھ نے اپنے چھوٹے بچوں کے یتیم ہوجانے کو بتایا، کچھ نے رحم کی بھیک بھی مانگی، لیکن ان ظالموں کو ترس نہ آیا، اجی ان کا دل سخت بھی تھا اور اپنے بچ جانے یقین بھی، مرنے والے مسلمان ہی تو ہیں، انہیں سب ہی مارتے ہیں۔ کس کا کیا بگڑتا ہے، یہ تو اپنی حکومتوں میں بھی مظلوم بن کر جیتے ہیں پھر یہ تو ویسے بھی ہندوستان ہے، یہاں تو پولس اُن کی، سرکار ان کی، عدالت ان کی،  حکم ان کا، ظلم ان کا، انصاف انکا، مار گراؤ سب ان کو، ہاں سب کو مار ڈالا، پھر کھینچ کھینچ کر ندی میں پھینک دیا، کسی کو ٹانگ سے کسی کو ہاتھ سے پکڑا اور ہنڈن ندی کے حوالے کردیا،،،،،،،  ندی کا رنگ سرخ ہوگیا، چیل کوے آسمانوں پر نظر آنے لگے، لیکن… لیکن… ان کی لاشیں تو پانی میں ڈوب چکی تھیں ، دکھ تو ہمیں ملا، روئے، چلائے، بلبلائے والدین، بہنیں اور رشتہ دار؛ وہ تو امر ہوگئے، ہاں ہمیشہ کے لئے زندہ، ہاں، ہاں شہید، رمضان کا مہینہ، روزہ کی حالت، جمعہ کا دن، نئے، یا دھلے ہوئے صاف شفاف کپڑوں میں ملبوس سرخ دھبوں کے ساتھ اپنے اللہ سے جاملے،

ظالم جیت گیا، مظلوم ہار گیا، گناہگار آزاد، بے گناہ مارے گئے، اب کیا ہوگا؟

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

Friday, 20 March 2015

حوادث زمانہ اور ہم

حوادث زمانہ اور ہم

خامہ فرسائی: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ

انسانی زندگی حادثات کا مجموعہ ہے،اور احوال کی تبدیلی انسانی زندگی میں بکثرت وارد ہوتی ہے، اسی لئے مقولہ مشہور ہے "وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا"؛  اچھے برے حالات انسانی زندگی کے ہمیشہ ساتھ لگے رہتے ہیں؛ اج تنگی ہے کل کشادگی، آج خوشی ہے کل غم، آج محبت ہے کل نفرت، آج وسعت ہے کل تنگدستی، آج غنا ہے کل فقر، آج مشکل ہے کل آسانی، آج پریشانیاں ہیں کل خوشیاں، آج فرحت و انبساط کا سماں ہے کل غم و الم کا پہاڑ؛ یہی انسانی زندگی ہے، یہی بشری و حوادث ہیں، اس لئے نہ کبھی مشکل، تنگدستی ، غم، اور پریشانیوں میں گھبرا کر آہ و بکا اور گریہ وزاری کرنی چاہئے اور نہ فرحت و انبساط وسعت و فراخی، اور غنا میں اترانا، تکبرکرنا اور اکڑنا چاہئے۔ مشکل، تنگی، غم، اور پریشانیوں میں ہمیشہ ہمت، حوصلے، جہد مسلسل، اولوالعزمی، مضبوط قوت ارادی سے کام لیں؛ اسی طرح فرحت و انبساط، وسعت و فراخی، اور غنا میں عجز و انکساری، ہمدردی و غمخواری، محبت و الفت کا مظاہرہ کریں۔
مذکورہ حوادث زمانہ کی کیفیت کے حساب سے احباب، مصاحب، یار رشتہ دار بھی مختلف الطبع ہوجاتے ہیں، فرحت و انبساط وسعت و فراخی، اور غنا میں جہاں چاپلوس، مفاد پرست، حاسدین، اور ریاکار قسم کے لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے، تو وہیں پریشانیوں اور مشکل سے خمیدہ کمر مجبور شخص کو چند ٹھوکرے مزید مار کر اس کو پستی کی طرف دھکا دینے حضرات کی بھی کمی نہیں ہوتی؛ یہی دستور زمانہ ہے کہ گراتے کو گراؤ اور ابھرتے کو دیکھ کر بظاہر نعرہ لگاؤ، تاکہ کچھ فائدہ حاصل کیا جاسکے اور دل ہی دل میں اس کے بچ جانے پر صلواتیں سناؤ۔

اخیر میں آپ سے درخواست ہے کہ ہم اپنا محاسبہ ضرور کریں، کہ ہم کہاں ہیں؟ کیسے ہیں؟۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

ایک ہندو کے اعلی اخلاق

اعلیٰ اخلاق

خامہ فرسائی: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ

ایک زمانہ تھا جب مسلمانوں کے اخلاق بہت اعلی ہوتے تھے، لیکن اللہ ہم پر رحم کرے، اب تو حسن اخلاق بہت ہی کم ہیں۔

اب ہم سے اچھے اخلاق غیروں میں پائے جاتے ہیں۔
اب آپ ہی دیکھئے
کچھ ہندو تو بڑے با اخلاق ہوتے ہیں، جو صفت ہم میں ہونی چاہئے تھی اب ان میں پائی جاتی ہے،
کچھ دن قبل دہلی میں میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا، مجھے کہیں جانا تھا اتفاق سے میں اس علاقہ میں پہلی دفع جارہا تھا، اس لئے میں نے اپنی برابر والی سٹ پر بیٹھے شخص سے معلوم کیا تو اس نے جو راستہ بتایا بڑا پیچ و خم والا تھا، اس لئے مجھے تھوڑی دقت محسوس ہوئی، لیکن ایک لڑکے نے مجھ سے کہا آپ فکر نہ کریں میں اتر کر آپ کے لئے وہاں تک پہنچنے کا انتطام کئے دیتا ہوں، خیر مجھے تسلی ہوئی اور اس نے حسب وعدہ بس سے اتر کر میرے لئے آسانی فراہم کی، میں نے ان سے پوچھا آپ کہاں جائیں گے تو اس نے کہا مجھے تو پھر اسی نمبر کی بس پکڑنی ہے، جس سے میں اترا تھا چونکہ مجھے مزید آگے جانا ہے، مجھے بڑا تعجب ہوا، اس نے اپنا کرایا اپنا وقت اور سب سے اہم دہلی کی گہماگہمی میں بس کی سٹ چھوڑی، اس لئے میرا خیال تھا شاید یہ مسلمان ہے، جبھی تو ٹوپی ڈاڑھی والے کئے لئے اتنا تکلف…… میں نے اس کا نام معلوم کیا تو وہ ہندو تھا، میں متعجب و حیران اور بہت متاثر ہوا۔

بس آج تک اللہ سے اس کی ہدایت کے لئے دعا کرتا ہوں

اب آپ بتائے ایسے اونچے اخلاق کس کے تھے اور اب کس میں پائے جاتے ہیں؟
ہماری تو حالت یہ ہے کہ غیرمسلم کجا مسلمان کو ٹھوکر ماردیتے ہیں۔
خدارا اپنوں اور غیروں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق سے پیش آئے کہ وہ پکار اٹھیں دیکھو یہ مسلمان کے اخلاق ہیں، اور مسلمان اونچے اخلاق والا ہوتا ہے۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

Thursday, 19 March 2015

جہیز پر ایک خاص مضمون

جہیز لعنت ہے

ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ

آج کے دور میں لڑکیوں کی کمی نہیں، ایک ڈھونڈو ہزار ملتی ہیں، لیکن ہم اپنے لخت جگر، نور نظر کی شادی وہیں کریں گے جہاں سے کار ملے گی۔ کار، فرج، کولر، بیڈ، انورٹر وغیرہ تو سب دیتے ہیں، ہمیں تو مالدار رشتہ دار چاہئے جو کار دے سکیں، یہ خواہش آج کے دور میں تقریبا سب ہی رکھتے ہیں۔
روز بروز اس خواہش اور لالچ میں اضافہ در اضافہ ہوتا جاتا ہے، نیز ایک کریلہ دوسرا نیم چڑھا اس مطعون شئی کی لوگ برائی اور قباحت کو پہچاننے کے بعد بھی اس آستین کے سانپ کو دودھ پلاکر موٹا کرتے جارہے ہیں، اگر کسی سے بات کریں کہ جہیز کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے، تو وہ جہیز کی قباحت اور برائی پر لمبی چوڑی تقریر کرکے آپ کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کرے گا، لیکن جب آپ اس کی یا اس کے لڑکے کی شادی کا ذکر کرو تو پہلے بات جہیز کی ہوگی۔
جہیز بھی عجیب چیز ہے، ہر انسان اس کی برائی کرتا ہے، اسے ناسور بتاتا ہے، معاشرے کی سب سے بڑی بیماری کہتا ہے، لیکن پھر بھی دل میں اس کے حصول کا لالچ رکھتا ہے، اور یہی بری تمنا اس کے دل میں پروان چڑھتی ہے، اے کاش مجھے بھی بیوی کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ دولت حاصل ہوجائے۔ باپ کہتا ہے، ہمیں جہیز نہیں چاہئے، بیٹا کہتا ہے، میں صرف نیک، صالح خوبصورت لڑکی کی خواہش رکھتا ہوں، لیکن لڑکی والے کے یہاں پہنچ کر باپ جہیز کی نمائش کی جگہ تلاش کرتا ہے، بیٹا یاروں اور دوستوں سے کان میں جہیز کے مکمل احوال معلوم کرکے بیوی کے ساتھ گزارے کا پورا پلان ترتیب دیتا ہے، اس کے ساتھ برتاؤ کا پورا اندازہ لگا لیتا ہے۔
لوگوں کی اس طمع نے کتنے گھر اجاڑے ہیں؟ کتنے لوگوں نے اپنی بیٹی بیاہنے کے بعد اپنے گھروں کو بیچا ہے؟ کتنے کاروباری بے کار ہوئے ہیں؟ کتنے ہی لوگ ایسے بھی ہیں جو سالوں اس کی وجہ سے مقروض رہتے ہیں، کتنے ہی لوگ ایسے بھی ہیں جنکی کمر اس قابل ترک شئی نے جھکا دی ہے، کتنے ہی غریبوں کا سر اس کی وجہ سے جھکا ہوا ہے، کتنے بے چارے پریشان حال ہیں۔
علاوہ ازیں، نکاح کو مشکل زنا کو آسان کرنے کا سہرا بھی اسی جہیز کے سر جاتا ہے، گھر گھر کو فحاشی اڈا بنانے کا ذمہ دار اسی کو کہنا بہتر ہے۔
یہ جہیز کتنی ہی لڑکیوں کو مایوس کردینے کا سبب ہے، کتنی ہی کنواریوں کے چہرے پر سلوٹیں، اور بالوں میں چاندی اسی کی وجہ سے نظر آتی ہے، سر بازار آبرو اسی کی وجہ اتر جاتی ہے، یہی ہے جس کی وجہ سے بارات دروزے سے لوٹ جاتی۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ ہر شہر، ہر گاؤں، ہر گلی، ہر کوچے میں اسکی لعنت دیکھیں گے، خدارا کچھ تو شرم کیجئے اور اپنے آپ کو ایسے فروخت نہ کیجئے، اور کسی کی آبرو سے اسطرح کھلواڑ نہ کیجئے۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

Monday, 9 March 2015

ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے دلائل

ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے دلائل

:دلیل نمبر1

اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے

’’ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ‘‘

(سورۃ کوثر؛2)

ترجمہ: نمازپڑھیے! اپنے رب کے لیے اور قربانی کیجیے۔

تفسیر: رَوَی الْاِمَامُ اَبُوْبَکَرِالْاَثْرَمُ قَالَ حَدَّثَنَااَبُوالْوَلِیْدِ الطِّیَالِسِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ عَنْ عَاصِمِ الْجَحْدَرِیِّ عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ صَبْھَانَ سَمِعَ عَلِیًّا یَقُوْلُ فِیْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ{فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ} قَالَ وَضْعُ الْیُمْنٰی عَلَی الْیُسْرَیٰ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔

(سنن الاثرم بحوالہ التمہید: ج8،ص164)

ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان {فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ} کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ نماز میں دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پرناف کے نیچے رکھاجائے ۔‘‘

:دلیل نمبر2

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْبَکْرِ بْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا وَکِیْعٌ عَنْ مُوْسَی بْنِ عُمَیْرٍ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ رَأیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَضَعَ یَمِیْنَہٗ عَلٰی شِمَالِہٖ فِی الصَّلَاۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔

(مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص427،آثار السنن ؛امام نیموی ص87 )

ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاکہ نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا ۔ ‘‘

:دلیل نمبر3

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْبَکْرِ بْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَحَدَّثَنَا اَبُوْمُعَاوِیَۃَ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ اِسْحَاقَ عَنْ زَیَّادِ بْنِ زَیْدِ السَّوَائِیِّ عَنْ اَبِیْ جُحَیْفَۃَ عَنْ عَلِیٍّ قَالَ مِنْ سُنَّۃِ الصَّلٰوۃِ وَضْعُ الْاَیْدِیْ عَلَی الْاَیْدِیْ تَحْتَ السُّرَرِ۔

(مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص427الاوسط، امام منذر ج 3 ص94)

ترجمہ: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ہاتھ کوہاتھ پرناف کے نیچے رکھنا نماز کی سنت ہے ۔‘‘

:دلیل نمبر4

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْبَکْرٍ مُحَمَّدُبْنُ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ الْمُنْذِرِحَدَّثَنَا مُوْسَی بْنُ ھَارُوْنَ قَالَ ثَنَایَحْیٰ بْنُ عَبْدِالْحَمِیْدِ قَالَ ثَنَا عَبْدُالْوَاحِدِ بْنُ زَیَّادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اِسْحَاقَ عَنْ سَیَّارِ اَبِی الْحَکَمِ عَنْ اَبِیْ وَائِلٍ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ؛مِنَ السُّنَّۃِ اَنْ یَّضَعَ الرَّجُلُ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلَی الْیُسْرَیٰ تَحْتَ السُّرَّۃِ فِی الصَّلَاۃِ۔

(الاوسط،امام مندر؛ج3،ص94؛سنن دارقطنی ؛ج1 ، ص 288 )

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’نماز میں مرد کا اپنے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا، سنت ہے۔‘‘

:دلیل نمبر5

رَوَی الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ زَیْدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبِ الْھَاشْمِیِّ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ عَنْ عَلِیٍّ قَالَ ثَلَاثٌ مِّنْ اَخْلَاقِ الْاَنْبِیَائِ صَلَاۃُ اللّٰہِ وَ سَلَامُہٗ عَلَیْھِمْ تَعْجِیْلُ الْاِفْطَارِ وَ تَاخِیْرُ السُّحُوْرِ وَوَضْعُ الْکَفِّ عَلَی الْکَفِّ تَحْتَ السُّرَّۃِ

(مسند زید بن علی ؛ص204)

ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انبیاء علیہ السلام کے اخلاق میں سے تین چیزیں ہیں: 1.

روز ہ جلدی افطار کرنایعنی اول وقت میں۔ 2.

سحری دیر سے کرنا یعنی آخری و قت میں۔ 3.

نماز میں ہتھیلی کوہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھنا۔

:دلیل نمبر6

رَوَی الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْبَکْرِ الْبَیْہَقِیُّ بِسَنَدِہٖ عَنْ اَنَسٍ قَالَ مِنْ اَخْلَاقِ النُّبُوَّۃِ تَعْجِیْلُ الْاِفْطَارِ وَتَاخِیْرُ السُّحُوْرِ وَوَضْعُکَ یَمِیْنَکَ عَلٰی شِمَالِکَ فِی الصَّلَاۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔

(مختصر خلافیات بیہقی ج2ص34:محلیٰ ابن حزم ج3 ص30 )

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’انبیائے کرام علیہم السلام کے اخلاق میں سے ہے روزہ جلدی افطار کرنا یعنی اول وقت میں اوردیر سے سحری کرنا یعنی آخری وقت میں اورنماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پرناف کے نیچے رکھنا۔‘‘

:دلیل نمبر7

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْدَاوٗدَ السَّجِسْتَانِیُّ حَدَّثَنَامُسَدَّدٌ نَاعَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زَیَّادٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ اِسْحَاقَ الْکُوْفِیِّ عَنْ سَیَّارِ اَبِی الْحَکَمِ عَنْ اَبِیْ وَائِلٍ قَالَ اَبُوْہُرَیْرَۃَ اَخْذُالْکَفِّ عَلَی الْکَفِّ فِی الصَّلٰوۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔

(سنن ابی دائود ج1ص118، اعلاء السنن ج2 ص196 )

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ نماز میں ہاتھ کی ہتھیلی کوپکڑ کرناف کے نیچے رکھناسنت ہے۔‘‘

:دلیل نمبر8

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الشَّیْبَانِیُّ اَخْبَرَنَا الرَّبِیْعُ بْنُ صَبِیْحٍ عَنْ اَبِیْ مَعْشَرٍعَنْ اِبْرَاہِیْمَ النَّخْعِیِّ اَنَّہٗ کَانَ یَضَعُ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی یَدِہِ الْیُسْرَیٰ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔

ٖ(کتاب ا لآثار؛امام ابوحنیفۃ بروا یۃامام محمد ج1، ص 322 ،مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص427 )

ترجمہ: ’’حضرت امام ابرہیم نخعی رحمہ اللہ (جلیل القدر تابعی ہیں وہ) نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھتے تھے۔‘‘

:دلیل نمبر9

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْبَکْرِ بْنِ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا یَزِیْدُ بْنُ ھَارُوْنَ قَالَ اَخْبَرَنَاحَجَّاجُ بْنُ حَسَّانٍ قَالَ سَمِعْتُ اَبَامِجْلَزٍاَوْسَاَلْتُہٗ قَالَ( رَحِمَہُ اللہُ ) قُلْتُ کَیْفَ یَضَعُ؟ قَالَ یَضَعُ بَاطِنَ کَفِّ یَمِیْنِہٖ عَلٰی ظَاہِرِ کَفِّ شِمَالِہٖ وَیَجْعَلُھَا اَسْفَلَ مِنَ السُّرَّۃِ۔

(مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص427 ،الجوہر النقی؛ ج2ص31)

ترجمہ: حضرت ابومجلز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’نمازی نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے اندر والے حصہ کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے ظاہری حصہ پرناف کے نیچے رکھے ۔‘‘

:دلیل نمبر10

اَلْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ الْاَعْظَمُ اَبُوْحَنِیْفَۃَ نُعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ قَالَ مُحَمَّدٌ وَبِہٖ نَاْخُذُ وَھُوَ قَوْلُ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ {یَضَعُ الْیُمْنٰی عَلٰی یَدِہٖ الْیُسْرَیٰ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔}

(کتاب الآثار ؛امام ابو حنیفۃ بروایۃ امام محمد ج1 ص323 احکام القرآن، امام طحاوی؛ ج1ص185)

ترجمہ: حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’نمازی نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھے۔

Tuesday, 3 March 2015

خانقاہ اشرفیہ تھانہ بھون کا کچھ ذکر قسط 1

خانقاہ اشرفیہ تھانہ بھون کا کچھ ذکر
قسط 1

ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ

شمسی گھڑی؛ یہ شمسی توانائی سے چلنے والی گھڑی نہیں بلکہ ایک تکون سہ رخی پیتل کا ٹکڑا زمین پر گاڑ کر  اس کے ارد گرد نشان اس طرح لگادئے گئے تھے کہ سورج کی حرکت کی وجہ سے اس ٹکڑے کا یک مثل، دو مثل، اور،  وقت زوال وغیرہ معلوم ہوجاتے ہیں ، اسی لئے اس کو دھوپ گھڑی بھی کہاجاتا ہے، یہ گھڑی خانقاہ تھانہ بھون میں آج بھی موجود ہے۔

بہر حال اب تو نقشہ بدل گیا لیکن جب ہم وہاں زیر تعلیم تھے اس وقت کے نقشہ کا اگر ذکر کروں اور وہ بھی اسی گھڑی کے سامنے مغرب کی طرف رخ کرکے، نیز دوسری منزل پر کھڑے ہوکر تو نقشہ کچھ اس طرح تھا، بائیں طرف نظر کریں تو نئی عمارتوں کا سلسلہ تھا اس میں بھی بائیں سائڈ کمرے اور دائیں طرف ایک سیمنٹ سے تیار شدہ چہار دیواری تھی، کمروں کا اختتام نئے طرز کے زینے پر ہوتا تھا، جیسے نیچے کی طرف جانا ہے وہ نیچے اتر جائے ہم تو ابھی اوپر کا ذکر کریں گے، خیر زینے کا اختتام بائیں جانب ہوتا تھا لیکن نئی عمارت کے بعد سامنے کی طرف کچے زینے سے اتر جائیں تو اترنے کے بعد بائیں طرف ایک ٹین کا ڈرم رکھا رہتا تھا جس مین پانی گرم ہوتا تھا اور جس کی ہیئت دھوئیں کی وجہ سے بالکل سیاہ ہوچکی تھی، اور دائیں جانب وہ تاریخی کمرہ تھا جس کے بارے میں ہم نے سنا تھا کہ اس میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ تالیف و تصنیف کا کام کیا کرتے تھے، حضرت کی تصانیف اور ان کا تذکرہ یہاں ممکن نہیں ہے، بہر حال اس کمرہ میں اس وقت بھی کتب خانہ اشرفیہ کی کتابیں بھری ہوتی تھی۔ آج کے دور میں اس طویل و عریض کمرہ کو ہال کہنا چاہئے۔
جی یہ مبارک کمرہ اپنے طول و عرض کے اعتبار سے آج کا ہال کمرہ ہے، اسی میں حضرت نے وہ کار ہائے نمایاں انجام دئے ہیں جو آج اہل حق حضرات کے لئے، مشعل راہ ہے۔
چلو پھر ایک بار دھوپ گھڑی کے سامنے کھڑے ہوکر دوسری سائڈ کا ذکر کرتے ہیں۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

Monday, 2 March 2015

نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم 1

ﺳﻮﺯِ ﺩﻝ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﭼﺸﻢِ ﻧﻢ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﻮﻕِ ﻃﻠﺐ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﭼﺎﮨﯿﮯ
ﮨﻮﻣﯿﺴﺮ ﻣﺪﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﮔﻠﯿﺎﮞ ﺍﮔﺮ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﺎﻓﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻧﻈﺮ ﭼﺎﮨﯿﮯ

ﺍُﻥ ﮐﯽ ﻣﺤﻔﻞ ﮐﮯ ﺁﺩﺍﺏ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﮨﯿﮟ ﻟﺐ ﮐﺸﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٴﺕ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﻧﮩﯿﮟ
ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﺘﺠﺎ ﮐﯽ ﻟﯿﮯ ﺟﻨﺒﺶ ﻟﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺸﻢِ ﺗﺮ ﭼﺎﮨﯿﮯ

ﺭﻭﻧﻘﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﮟ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺎ
ﺍﺏ ﻧﮧ ﮐﭽﮫ ﮔﻔﺘﻨﯽ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺪﻧﯽ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺁﻗﺎ ﮐﯽ ﺑﺲ ﺍِﮎ ﻧﻈﺮ ﭼﺎﮨﯿﮯ

ﻣﯿﮟ ﮔﺪﺍﺋﮯ ﺩﺭِ ﺷﺎﻥ ﮐﻮﻧﯿﻦ ﮨﻮﮞ ﺷﯿﺶ ﻣﺤﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺗﻤﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﻮ ﻣﯿﺴﺮ ﺯﻣﯿﮟ ﭘﺮ ﮐﮧ ﺯﯾﺮِ ﺯﻣﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﻃﯿﺒﮧ ﻣﯿﮟ ﺍِﮎ ﺍﭘﻨﺎ ﮔﮭﺮ ﭼﺎﮨﯿﮯ

ﮔﻮﺷﮧ ﮔﻮﺷﮧ ﻣﺪﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﭘُﺮ ﻧﻮﺭ ﮨﮯ ﺳﺎﺭﺍ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﺟﻠﻮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﻌﻤﻮﺭ ﮨﮯ
ﺷﺮﻁ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻇﺮﻑِ ﻧﻈﺮ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﯾﺪ ﻭﺭ ﭼﺎﮨﯿﮯ

ﻣﺪﺣﺖِ ﺳﺮﻭﺭِ ﺩﻭﺟﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺻﺮﻑ ﻟﻔﻆ ﻭ ﻭِﻻ‌ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﻧﮧ ﻟﻮ
ﻓﻦِّ ﺷﻌﺮﯼ ﮨﮯ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ ﻧﻌﺖ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﻮ ﺧﻮﻥ ﻭ ﺟﮕﺮ ﭼﺎﮨﯿﮯ

ناسمجھ شوہر

ناسمجھ شوہر

ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ

بہت سے لوگوں کی عادت ہوتی ہے بیوی سے پوری دنیا کے لوگوں کی غیبت کرنا، کبھی والدین پر اپنے احسانات کا تذکرہ، کبھی والدین کے کردار کو اپنے اور برادران کے درمیان غیر منصف ٹہرا دینا، کبھی بھائیوں کی زیادتی کا پٹارہ کھولدینا، کبھی بہنوں کی جاں نثاری کو مشکوک ٹہرا دینا، نیز دوست و احباب کے معاملات سے لیکر ان کی مجالس کا آنکھوں دیکھا حال بالکل اسی طرح سنا دینا جیسے سی بی ائی کا کوئی فرد اپنے آفسر کو دن بھر کی روپرٹ دیتا ہے، فلاں نے مجھے گالی دی، فلاں نے مجھے تھپڑ رسید کیا فلاں نے مجھے یہ کہا وغیرہ وغیرہ دن بھر کی پوری کارگزاری تبلیغی احباب سے بھی کہیں زیادہ بیوی کے گوش گذار کر ڈالتے ہیں، اور جب بیوی کے سامنے ساری پول کھل جاتی ہے، اس کی اچھائی اور برائی کا روز نامچہ تار تار ہوجاتا ہے، بیوی وقعت کی ناقدری سے اشنا ہوجاتی ہے، اور بیوی کے دل سے شوہر کی عظمت دھل جاتی ہے، اور بیوی پوری طرح حاوی ہوجاتی ہے۔
پھر وہی احباب جن کی اگلی پچھلی پول بیوی کے سامنے کھولی جاتی تھی، جن والدین کا تذکرہ حقارت سے کیا جاتا تھا، جن بھائیوں مین ہزاروں عیب نطر اتے تھے اب انہیں حضرات کے سامنے بیوی کی برائی ہونے لگتی ہے، انہیں کی ہمدردی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔
بہر حال دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا اس سے پہلے کہ یہ محاورہ آپ پر صادق آئے آپ نہ تو باہر کی بات گھر بتائے اور نہ گھر کے معاملات میں دخل اندازی کیجئے، بیوی نے کیا بنایا، بچوں کو کیسے کپڑے پہنائے، گھر کسے سنوارا وغیرہ ان میں دخل اندازی آپ کا شیوہ نہیں، ہاں بیوی کی کاوشوں کی تعریف کردینے میں کوئی مذائقہ نہیں، اسی طرح باہر آپ پر کیا گذر رہی ہے اس میں بیوی کو شامل نہ کریں۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی