Tuesday, 6 January 2015

یوں تو تم سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو۔ تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟

یوں تو تم سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو۔
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟
۔
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ
۔

یہ ہیں شرور وفتن سے لبریز جناب گیدڑ صاحب، ان کی دھینگا مشتی، اور شرارت سے تنگ آکر جانوروں کی مہا پنچایت نے ان کے لئے جلاوطنی کا فیصلہ صادر کیا جس کی وجہ سے بادل نخواستہ انہیں اپنے پیارے جنگل کو خیر آباد کہنا پڑا۔
ہزاروں وسوسوں اور اندیشوں کے ساتھ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، کیوں کہ آج گیدڑ اپنا آبائی وطن چھوڑ کر انسانوں کی بستی میں دخل ہو رہا تھا، اور شاید بارہا سنا ہوا مقولہ "گیدڑ کی جب موت آتی ہے، وہ گاؤں کی طرف جاتا ہے"  پورا ہونے جارہا تھا، خیر مرتا کیا نہ کرتا، اپنے کئے پر پچتاتا بوجھل قدموں سے گاؤں کی طرف اس طرح بڑھا کہ رات کا وقت گاؤں میں داخلہ کا طے ہوا۔
لیکن یہ کیا، یہاں تو انسانوں کے وفادار اپنی قوم کے غدار، کمینے کتوں نے خلاف قیاس پورے اتفاق کے ساتھ گیدڑ کو رات کے وقت بھی ہاتھوں ہاتھ لیا اور اور پوری طاقت وقوت سے گیدڑ کی گھسپیٹ کے تمام راستے مسدود کردئے ، بے چارا لاچار گیدڑ جان بچانے کے لئے عزت پر پونچھ کو دبا کر سرپٹ ایسا بھاگا کہ آؤ دیکھا نہ تاؤ بس بگٹٹ دوڑ لگادی اور نتیجتا جا گرا شیرے کے تالاب میں،گویا آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا، اپنے آپ کو اس چپ چپے تالاب سے بمشکل نکالا تو ایک دوسری مصیبت کو اپنا منتظر پایا، بدن چپ چپا اور اس پر کڑوا کریلا نیم چڑھا پاس میں پڑے مور کے پنکھ بدن پر چپک گئے اور ایسے چپکے کہ بدن کا کوئی حصہ باقی نہ رہا اب گیدڑ سستانے کے ساتھ اپنے بدن سے پنکھ اتارنے کا ارادہ کرہی رہا تھا کہ اچانک اس کی نگاہ چاند کی روشنی میں اپنے بدن پر پڑی۔ پھر جو منظر اس نے دیکھا اس نے اس کے چودہ طبق روشن کردئے، گویا وہ گیدڑ نہیں بلکہ مور ہے، ایک دھماکہ سا کہئے ہوا یا ایک چنگاری سی کہئے بھڑکی جس نے تاریکی میں اس کی راہنمائی کی، اور ایک نئی سوچ نے اس کے دماغ میں سر ابھارا، اور بس پھر وہ ایک نئی سوچ، نئی صورت، نئی فکر اور نئے انداز کے ساتھ اپنوں کی طرف چل دیا، اور جس وقت وہ اکڑتا ہوا اور خوشی کے ساتھ صبح کے وقت جنگل میں داخل ہوا تو جنگل میں رہنے والے گیدڑ کے پرانے دوستوں اور دشمنوں نے گیدڑ کو گھیر لیا اور تعجب اور حیرانی سے اس کو چاروں طرف سے دیکھنے لگے۔ کون ہو بھائی؟ ایک طرف سے آواز آئی۔ غرور اور خوشی سے جھومتے ہوئے گیدڑ نے جواب دیا: مووووووور!!!! لیکن چونچ کہاں؟ کسی نے آواز لگائی۔۔۔۔۔۔ ہاں چونچ نہیں لیکن ہوں تو میں مور۔ گیدڑ نے جواب میں کہا۔۔۔۔۔۔ لیکن پھر کسی طرف سے آواز آئی، اور پنجے بھی نہیں ہیں؟ ٹھیک ٹھیک پنجے نہیں ہیں تو کیا ہوا لیکن ہوں تو میں مور ہی۔ پھر کسی نے سوال داغا اور پونچھ کہاں ہے بھائی؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مانا کہ پونچھ بھی نہیں ہے لیکن ہون تو مین مور ہی۔
بس یہی حال مسلمانوں کا ہے، اگر کوئی پوچھے: بھائی آپ کیسے مسلمان ہو، جو نماز نہیں پڑھتے؟ جواب ایسا ہی ملے گا: مانا کہ میں نماز نہیں پڑھتا لیکن ہوں تو میں مسلمان ہی!!! پوچھے: آپ داڑھی بھی نہیں رکھتے ہو؟ کہے جی جی میں داڑھی تو نہیں رکھتا لیکن ہوں تو میں مسلمان ہی!! پوچھے: روزہ بھی نہیں رکھتے ہو؟ کہے: اجی یہ بات بھی صحیح ہے لیکن ہوں تو میں مسلمان ہی۔

شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود؟
وضع میں تم ہو نصارٰی، تو تمدّن میں ہنود!
یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سّید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاو تو مسلمان بھی ہو؟

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

No comments:

Post a Comment