Saturday, 3 January 2015

رات میں پنّی چُگنے اور دن میں تعلیم حاصل کرنے والا طالب علم۔

رات میں پنّی چُگنے اور دن میں تعلیم حاصل کرنے والا طالب علم۔
۔
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ
۔
۔

اس نئے انکشاف نے مجھے ہلاکر رکھدیا تھا، مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا، اسی لئے چیں بجبیں اور کسی قدر بے یقینی کے ساتھ میں نے کہا: لیکن وہ تو اپنے دن کا اکثر حصہ مدرسہ میں گذارتا ہے، صبح نماز فجر کے متصلا بعد مدرسہ میں آتا ہے، 12 سے 2 بجے تک کا وقفہ اور پھر عصر مغرب کے درمیان تفریح کا وقت، پھر کہیں عشاء کے بعد چھٹی ہوتی ہے۔
جی جی آپ نے صحیح فرمایا لیکن یہ بات شاید آپ کے علم میں نہیں ہے کہ یہ بچہ رات تقریبا 9 بجے اور صبح 4 بجے کے بعد کوڑیوں پر سے پنی، لوہا، پلاسٹک وغیرہ تلاش کرکے لاتا ہے، اور پھر دن میں آپ کے یہاں پڑھنے کے لئے آتا ہے۔ اس شخص نے میری بات کا جواب تفصیل سے دے کر خود کو کذب سے بری اور سچا ثابت کرنے کی پوری کوشش کی ۔
خیر وہ بندۂ خدا میرے لئے فکروں کا سمندر چھوڑ کر جاچکا تھا، اور میں سوچ میں گم، ماضی کے دریچے کھولنے کی کوشش کرنے لگا، اور کتاب ماضی کے اوراق الٹتے ہوئے ذہن کی اسکرین پر چند مہینے پہلے کے اس لمحہ کا منظر گردش کرنے لگا : جب مدرسہ کے ایک استاد میرے پاس آفس میں ایک بچے کو لیکر آئے، اور شکایت کی کہ یہ بچہ پڑھتا وڑھتا نہیں ہے، اس کے یاد نہیں ہوتا،  بہت کند ذہن ہے۔
میں نے اس بچے پر ایک نظر ڈالی، تقریبا 14،15 سال کا یہ بچہ مجھے شکل سے کچھ کمزور سا معلوم ہوا تھا اور بدن پر غیر قیمتی لباس اس کی مالی حیثیت کا پتہ بھی دے رہا تھا، خیر یہ کوئی قابل توجہ بات بھی نہیں تھی کیوں کہ مدرسہ میں اکثر بچے غریب، نادار، یتیم اور مسکین آتے ہیں، لیکن اتنے بھی نہیں کہ رات میں کوڑیوں سے پنی چگیں اور دن میں مدرسہ آکر تعلیم حاصل کریں۔
میں نے حسب عادت بچے کو سختی اور نرمی کے ملے جلے انداز میں  چند باتیں سمجھانے کے طور پر کہیں، پھر اس کو درسگاہ میں بیٹھنے کے لئے کہا اور استاد صاحب کو اپنے پاس روک لیا ، یہ تو میں بھی جانتا تھا کہ جب کوئی 14،15 سال کی عمر میں تعلیم شروع کرتا ہے تو اس کو پڑھانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے، لیکن پھر بھی ہمیں اپنی سی کوشش ضرور کرنی چاہئے ، اسی لئے میں نے استاد محترم کے سامنے ادب اور نرم انداز سے اپنی بات پیش کرتے ہوئے عرض کیا:
قاری صاحب! آپ کی بات سو ٹکے صحیح ہے، لیکن ہمیں پھر بھی کوشش کرنی ہے، اگر یہ مدرسہ میں نہیں آئے گا تو بےکار ہوجائے گا اور اس کے ایمان  کا بھی خطرہ پیدا ہوجائے گا، لیکن مدرسہ میں آکر یہ دو نہیں ایک ہی حرف  پڑھے اور کچھوے کی چال چلے، یا کچھ بھی نہ پڑھے محض پڑھنے والوں کے ساتھ بیٹھ کر وقت گذارے پھر بھی ان شاء اللہ تعالی ضرور پورا پورا فائدہ اٹھائے گا۔
خیر بندہ کی تدبیر، استاد کی محنت اور اس بچے کی لگن رنگ لائی اور اس بچے نے الحمدلله تعالی مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ میں وقت گذارتے گذارتے اپنا قائدہ آدھے سے زیادہ مکمل کرلیا ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ بچہ اب بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے لیکن سچ میں اس انکشاف نے ( بچہ رات میں پنی چگتا ہے اور دن میں مدرسے آکر تعلیم حاصل کرتا ہے) مجھے سوچنے پر مجبور کردیا کہ اگر اس دن اس بچے کے متعلق فیصلہ لینے میں ہم سے ذرا سی غلطی ہوگئی ہوتی تو ہم کتنے بڑے گناہگار بن گئے ہوتے، نیز یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ اگر مدرسے نہ ہوتے تو یہ غریب لوگ تعلیم کہاں حاصل کرتے؟
یااللہ اس طالب علم اور اس جیسے جتنے غریب، یتیم، مسکین اور مفلس طالب علم ہیں سب کی مدد فرما، اور مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ کو اور تمام مدارس کو ترقی عطا فرما۔
۔
۔
۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

No comments:

Post a Comment