جمہوریت، ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور"
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ
جدید سیاسیات میں جمھوریت اس مخصوص نظریہ کا نام ہے جو کہ مجموعی رائے عامہ پر پروان چڑھتا ہے،
جمہوریت میں نہ کوئی بادشاہ ہوتا ہے، اور نہ کوئی اپنی مرضی سے فیصلہ لینا کا حق دار ، جمہوریت میں عوام اور عدلیہ پوری طرح آزاد ہوتے ہیں، جمہوریت پر کسی مخصوص فرقہ اور مذہب کا کوئی رنگ نہیں چڑھایا جاسکتا ، جمہوریت میں وزیر اعظم ہو یا صدر مملکت، پردھان ہو یا چیرمین، ممبر پارلیمنٹ ہو یا ممبر اسمبلی سب عوام کے سامنے ہاتھ جوڑتے نظر آتے ہیں، جمہوریت میں اگر کسی غریب بے کس بے سہارا کے خلاف مقدمہ چلایا جاسکتا ہے، تو مالدار طاقتور مضبوط اور صاحب اقتدار کو بھی عدالت میں گھسیٹا جاسکتا ہے، جمہوریت میں اگر پولس کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ مجرم کے خلاف سخت اقدامات کرے تو جمہوریت میں عوام بھی پولس پر بھاری پڑجاتی ہے اور ان کے خلاف عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا حق رکھتی ہے۔
جمہوریت میں اقتدار رائے عامہ کی اکثریت کی وجہ سے سپرد کیا جاتا ہے، فیصلہ ممبران پارلیمنٹ کی اکثریت کی رائے کے ذریعہ کیا جاتا ہے، اصول، ضوابط اور قانون کے مطابق احکام کا نفاذ ہوتا ہے، ہرچیز کے حساب کا حق عوام کو حاصل ہوتا ہے، سرکاری املاک پر سب کا حق برابر ہوتا ہے، لڑائی جھگڑے اور ناانصافی کے چانسز کم ہوجاتے ہیں۔
یہ دکھانے کے دانت تھے، اب کھانے کے ملاحظہ فرمائیں ۔
۔
۔
جس طرح کے حالات نظر آتے ہیں، اس سے تو جمھوریت کی الگ ہی تعریف اور انداز نظر اتا ہے، یہاں تو چند لوگ، مخصوص خاندان، جھوٹے، دھوکے باز، وعدہ خلاف، صاحب اقتدار کہلائے جاتے ہیں، کوئی وزیر اعظم بادشاہ نظر آتا ہے تو کوئی ڈکٹیٹر، یہاں تو فیصلے طاقت اور پیسے کے بل بوتوں پر کئے جاتے ہیں، اس جمہوریت پر ایک مخصوص فرقے اور جماعت کا پوری طرح رنگ چڑھا ہوا نظر اتا ہے، یہ کیسی جمھوریت ہے جس میں وزیراعظم ہو یا صدرمملکت، پردھان ہو چیرمین، ممبر پارلیمنٹ ہو یا ممبر اسمبلی سب آپس میں دست گریباں، اور عوام کو دھوکا دیتے نظر آتے ہیں، یہ ایسی جمھوریت ہے جس میں غریب، نادار،کمزور کی نہیں سنی جاتی ہے ، یہاں مالدار طاقتور، مضبوط اور ظالم بن جاتا ہے، اس جمہوریت میں پولس اور عوام "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" پر عمل کرتی ہے۔ اسی جمہوریت میں سرکاری املاک پر مخصوص فرقہ قبضہ کرکے اپنے معبد تیار کرلیتا ہے۔
جمہوریت میں اقتدار رائے عامہ کی اکثریت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے، لیکن وہ اکثریت فرضی اور جھوٹی بھی بنائی جاسکتی ہے، فیصلہ ممبر پارلیمنٹ کے اکثریت رائے کے ذریعہ ہوتا ہے، لیکن ان میں ایک بڑی تعداد لالچی، بکاؤ، دھوکے باز، ناسمجھ لوگوں کی ہوتی ہے۔
یہی کہنا بہتر ہے: جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ یہاں ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی
No comments:
Post a Comment