فریب در فریب
۔
۔
۔
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہی
۔
۔
ایک دودھ والا جب دودھ خریدتا ہے، تو دھوکا اور فریب کا شکار ہوتا ہے، پھر وہ دودھیا اپنے حصہ کا فریب زیادہ کرکے، ایک چائے والے کو دودھ فروخت کردیتا ہے، پھر چائے والا اس میں اور پانی ملاکر چائے بناتا ہے جس کو ایک بنیا پیتا ہے، پھر بنئے سے بھینس پالنے والا سامان خریدتا ہے اور دھوکے کا شکار خود بھی ہوجاتا ہے، نیتا لوگوں کو دھوکا دیتے ہوئے نظر آتے ہیں تو عوام بھی پیچھے نہیں رہتے، کوڑی پر پنی چگنے والا چوری کی کوشش کرتا ہے تو اس سے مال خرید نے والا تول میں فریب سے کام لیکر اس کو دھوکا دیتا ہے، بہر حال یہ مثالیں ہیں اس فریب کی جس کو ہم آپ ہر جگہ دیکھتے ہیں ۔
فریب در فریب دیکھئے، ہر آدمی اپنے کو عقل مند دوسرے کو بے وقوف حقیقی طور پر تصور کرتا ہے، مال خرید نے والے کا خیال ہے میں نے جھوٹ، کذب، فریب، دھوکے سے زیادہ فائدہ حاصل کیا تو بیچنے والا بھی اسی زعم میں مبتلا نظر آتا ہے، فریب دینے والا اور فریب کھانے والا دونوں سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کیا کیا اور ان کے ساتھ کیا ہوا، جس کے لئے موقع اس کے لئے چوکا۔ اور جو بھی چُوکا وہی بھوکا۔
اس لئے کوئی بچ نہیں پاتا، سب لپیٹ دئے جاتے ہیں۔ اور یہی آج ہماری سب سے بڑی برائی ہے کہ دوسرے کو دھوکا دیکر خوشی کا اظہار کرتے ہیں تو دھوکا کھا کر نالاں نظر آتے ہیں۔
حالاں کہ کہاوت مشہور ہے: جو دوسروں کے لئے کنواں کھودتا ہے وہ خود اسی کنوے میں گرتا ہے۔
ہم نے بھی اگر کسی کو دھوکا نہ دیا ہوتا تو آج بالکل بھی دھوکا نہ کھایا ہوتا۔
ابھی بھی اگر ہم میں سے ہر ایک خود اپنی اصلاح کی کوشش کرے، دوسرے سے جھوٹ نہ کہے اور فریب دھوکہ نہ دے تو یقینا خود بھی اس سے محفوظ رہے گا، ان شاء اللہ تعالی۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی
No comments:
Post a Comment