Wednesday, 28 January 2015

یوم جمہوریہ کے موقع پر مدرسہ کی کانفرنس میں مہتمم مدرسہ مولانا چاہت محمد کے بیان کی جھلکیاں

Chahat muhammad qasmi: http://youtu.be/xMoPdU6I3gM

یاسینیہ میں یوم جمھوریہ کے موقع پر بینر پیش خدمت ہے

فریب در فریب

فریب در فریب
۔
۔
۔
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہی
۔
۔
ایک دودھ والا جب دودھ خریدتا ہے، تو دھوکا اور فریب کا شکار ہوتا ہے، پھر وہ دودھیا اپنے حصہ کا فریب زیادہ کرکے، ایک چائے والے کو دودھ فروخت کردیتا ہے، پھر چائے والا اس میں اور پانی ملاکر چائے بناتا ہے جس کو ایک بنیا پیتا  ہے، پھر بنئے سے بھینس پالنے والا سامان خریدتا ہے اور دھوکے کا شکار خود بھی ہوجاتا ہے، نیتا لوگوں کو دھوکا دیتے ہوئے نظر آتے ہیں تو عوام بھی پیچھے نہیں رہتے، کوڑی پر پنی چگنے والا چوری کی کوشش کرتا ہے تو اس سے مال خرید نے والا تول میں فریب سے کام لیکر اس کو دھوکا دیتا ہے، بہر حال یہ مثالیں ہیں اس فریب کی جس کو ہم آپ ہر جگہ دیکھتے ہیں ۔
فریب در فریب دیکھئے، ہر آدمی اپنے کو عقل مند دوسرے کو بے وقوف حقیقی طور پر تصور کرتا ہے، مال خرید نے والے کا خیال ہے میں نے جھوٹ، کذب، فریب، دھوکے سے زیادہ فائدہ حاصل کیا تو بیچنے والا بھی اسی زعم میں مبتلا نظر آتا ہے، فریب دینے والا اور فریب کھانے والا دونوں سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کیا کیا اور ان کے ساتھ کیا ہوا، جس کے لئے موقع اس کے لئے چوکا۔ اور جو بھی چُوکا وہی بھوکا۔
اس لئے کوئی بچ نہیں پاتا، سب لپیٹ دئے جاتے ہیں۔ اور یہی آج ہماری سب سے بڑی برائی ہے کہ دوسرے کو دھوکا دیکر خوشی کا اظہار کرتے ہیں تو دھوکا کھا کر نالاں نظر آتے ہیں۔
حالاں کہ کہاوت مشہور ہے: جو دوسروں کے لئے کنواں کھودتا ہے وہ خود اسی کنوے میں گرتا ہے۔
ہم نے بھی اگر کسی کو دھوکا نہ دیا ہوتا تو آج بالکل بھی دھوکا نہ کھایا ہوتا۔
ابھی بھی اگر ہم میں سے ہر ایک خود اپنی اصلاح کی کوشش کرے، دوسرے سے جھوٹ نہ کہے اور فریب دھوکہ نہ دے تو یقینا خود بھی اس سے محفوظ رہے گا، ان شاء اللہ تعالی۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

Wednesday, 14 January 2015

چار بچے، مختصر جواب

چار بچے

ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ

چار بچے پیدا کرو، کس نے کہا جس کی شادی بھی نہیں ہوئی، ایک مرد، ایک عورت کا مطالبہ، دونوں بے شادی شدہ، بے اولاد، آج تک ماں باپ بھی نہ بن سکے، ارے میں تو کہتا ہوں وزیر اعظم بن نا آسان ہے، لیکن چار بچوں کا باپ بننا مشکل ہے، آج کے بچے صرف زبانی وعدوں یا پھر اچھے دن کے خواب سے بہلائے نہیں جاتے ہیں، ہاں شاہ صاحب پارٹی کے سربراہ بن بیٹھے ذرا چار بچوں کے باپ بنیں تو کامیاب ہوجائیں، اور ایک آدھ نیتا کیا بلکہ وزیر اعظم سمیت  پوری کابینہ میں کوئی ایسا نیتا تو دکھاؤ جس کے چار بچے ہوں، اور نیتا ہی کیوں ذرا کوئی ان چار بچوں کی مانگ کرنے والوں کی تنظیموں کا عہدہ دار تو دکھاؤ جس کے گھر میں چار بچے کھیلتے ہوں۔
بچے دو ہی اچھے، بعدہ ، شیر کا بچہ ایک ہی اچھا، کا نعرہ دینے والے چار بچوں کو پیدا کرنے کی مانگ کرتے ہیں، عجیب و غریب افسانہ ہے، مانگ کرنے والوں کے یہاں ایک بھی بچہ نہیں ہے، ارے اب تک ترکہ میں ایک وارث کی کوشش کرنے والے چار بچوں کا خواب دیکھ رہے ہیں، کیا چار بچوں کو پیدا کرنا حلوه سمجھا ہے کیا۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

جمہوریت، ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور

جمہوریت، ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور"

ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ

جدید سیاسیات میں جمھوریت اس مخصوص نظریہ کا نام ہے جو کہ مجموعی رائے عامہ پر پروان چڑھتا ہے،
جمہوریت میں نہ کوئی بادشاہ ہوتا ہے، اور نہ کوئی اپنی مرضی سے فیصلہ لینا کا حق دار ، جمہوریت میں عوام اور عدلیہ پوری طرح آزاد ہوتے ہیں، جمہوریت پر کسی مخصوص فرقہ اور مذہب کا کوئی رنگ نہیں چڑھایا جاسکتا ، جمہوریت میں وزیر اعظم ہو یا صدر مملکت، پردھان ہو یا چیرمین، ممبر پارلیمنٹ ہو یا ممبر اسمبلی سب عوام کے سامنے ہاتھ جوڑتے  نظر آتے ہیں، جمہوریت میں اگر کسی غریب بے کس بے سہارا کے خلاف مقدمہ چلایا جاسکتا ہے، تو مالدار طاقتور مضبوط اور صاحب اقتدار کو بھی عدالت میں گھسیٹا جاسکتا ہے، جمہوریت میں اگر پولس کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ مجرم کے خلاف سخت اقدامات کرے تو جمہوریت میں عوام بھی پولس پر بھاری پڑجاتی ہے اور ان کے خلاف عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا حق رکھتی ہے۔
جمہوریت میں اقتدار رائے عامہ کی اکثریت کی وجہ سے سپرد کیا جاتا ہے،  فیصلہ ممبران پارلیمنٹ کی اکثریت کی رائے کے ذریعہ کیا جاتا ہے، اصول، ضوابط اور قانون کے مطابق احکام کا نفاذ ہوتا ہے، ہرچیز کے حساب کا حق عوام کو حاصل ہوتا ہے، سرکاری املاک پر سب کا حق برابر ہوتا ہے، لڑائی جھگڑے اور ناانصافی کے چانسز کم ہوجاتے ہیں۔
یہ دکھانے کے دانت تھے، اب کھانے کے ملاحظہ فرمائیں ۔
۔
۔
جس طرح کے حالات نظر آتے ہیں، اس سے تو جمھوریت کی الگ ہی تعریف اور انداز نظر اتا ہے، یہاں تو چند لوگ، مخصوص خاندان، جھوٹے، دھوکے باز، وعدہ خلاف، صاحب اقتدار کہلائے جاتے ہیں، کوئی وزیر اعظم  بادشاہ نظر آتا ہے تو کوئی ڈکٹیٹر، یہاں تو فیصلے طاقت اور پیسے کے بل بوتوں پر کئے جاتے ہیں، اس جمہوریت پر ایک مخصوص فرقے اور جماعت کا پوری طرح رنگ چڑھا ہوا نظر اتا ہے، یہ کیسی جمھوریت ہے جس میں وزیراعظم ہو یا صدرمملکت، پردھان ہو چیرمین، ممبر پارلیمنٹ ہو یا ممبر اسمبلی سب آپس میں دست گریباں، اور عوام کو دھوکا دیتے نظر آتے ہیں، یہ ایسی جمھوریت ہے جس میں غریب، نادار،کمزور کی نہیں سنی جاتی ہے ، یہاں مالدار طاقتور، مضبوط اور ظالم بن جاتا ہے، اس جمہوریت میں پولس اور عوام "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" پر عمل کرتی ہے۔ اسی جمہوریت میں سرکاری املاک پر مخصوص فرقہ قبضہ کرکے اپنے معبد تیار کرلیتا ہے۔
جمہوریت میں اقتدار رائے عامہ کی اکثریت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے، لیکن وہ اکثریت فرضی اور جھوٹی بھی بنائی جاسکتی ہے، فیصلہ ممبر پارلیمنٹ کے اکثریت رائے کے ذریعہ ہوتا ہے، لیکن ان میں ایک بڑی تعداد لالچی، بکاؤ، دھوکے باز، ناسمجھ لوگوں کی ہوتی ہے۔
یہی کہنا بہتر ہے: جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ یہاں ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

Wednesday, 7 January 2015

مرحوم مولانا کامل کاندھلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ

مرحوم مولانا کامل کاندھلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ
۔
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ سہارنپور یوپی انڈیا 
۔
سفید داڑھی، خوبصورت چہرا، درمیانہ قد، مہمان نواز، نرم خو، ملنسار، دور اندیش، خیر خواہ، شاندار مصلح و مرشد، صبرو استقامت کا پیکر گویا آج کے زمانہ میں نبی کی صورت اور نبی کی سیرت سے پوری طرح آراستہ و پیراستہ وہ بزرگ ہستی عظیم الشان مدرسہ بدر العلوم گڑھی دولت کے بانی، افراد ساز شخصیت کے حامل، حضرت مولانا کامل صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس دنیا مین نہیں رہے۔
موصوف آج اگر چہ ہم سے دور ہوگئے، اور ہم ان کے فراق میں نوحہ کناں، رنجیدہ و افسردہ ہیں، اور کوئی ایک علاقہ نہیں بلکہ پورا عالم آج ماتم کدہ بنا ہوا ہے، اور اس اندوہناک خبر سے ہم چاک گرباں کیوں نہ ہوں جب کہ ایک اور علم و عمل کا پیکر، اسلاف کا نمونہ ہمیں چھوڑ کر اس دار فانی سے کوچ کرگیا ہے۔
آہ، آج مجھے وہ ایام گذشتہ بار بار یاد آتے ہیں جب والد صاحب حضرت سے ملاقات کے بعد گھر تشریف لائے تو ہر وقت حضرت کی تعریف و توصیف کے کلمے ان کی زبان پر بار بار گردش کرتے تھے، کبھی ان کے بولنے کا انداز بتاتے تو کبھی ان کی ملاقات کا طریقہ سامنے رکھتے، کبھی ان کی سفید داڑھی، خوبصورت چہرا، اور نرم طبیعت کا ذکر بڑے خوبصورت اور عقیدت مندانہ انداز میں فرماتے تھے، خیر اس وقت ہمیں اتنی سمجھ نہ تھی لیکن والد صاحب کے عقیدت مندانہ انداز سے حضرت کی محبت، عقیدت، اور ملاقات کا شوق ہمارے دل مین بڑی شدت سے زور مارنے لگا تھا۔
عرض یہ کرنا ہے: ملاقات کا شرف کئی بار ہوا، لیکن وہ مخصوص ملاقات ہمارے لئے یادگار ثابت ہوئی جب حضرت کی دور اندیش نگاہوں نے ماہر نباض حکیم کی طرح ہماری روحانی بیماری کو پہچان کر بڑے نرم انداز میں فرمایا تھا: آپ نے اب تک کسی اللہ والے سے تعلق نہیں جوڑا ہے، اب کسی اللہ والے سے تعلق جوڑ لو۔ (ہوسکتا ہے الفاظ کچھ تبدیل ہوگئے ہوں لیکن مفہوم وہی ہے) بہرحال جب مرحوم و مغفور بزرگ نے اس نسخۂ کیمیا کو ہمارے لئے تجویز کیا تھا تو وہ وقت اور وہ محفل گویا آج بھی ہمارے ذہن کے باغیچہ میں بلکل تر و تازہ ہے اور گویا وہ پورا سین آج بھی ہمارے دماغ کی اسکرین پر پورا منظر پیش کر رہا ہے۔
۔
اللہ حضرت کے مرقد پر اپنی شایان شان کے مطابق ہر ساعت میں نیکیوں کی بارش فرمائے، ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
۔
۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

Tuesday, 6 January 2015

یوں تو تم سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو۔ تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟

یوں تو تم سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو۔
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟
۔
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ
۔

یہ ہیں شرور وفتن سے لبریز جناب گیدڑ صاحب، ان کی دھینگا مشتی، اور شرارت سے تنگ آکر جانوروں کی مہا پنچایت نے ان کے لئے جلاوطنی کا فیصلہ صادر کیا جس کی وجہ سے بادل نخواستہ انہیں اپنے پیارے جنگل کو خیر آباد کہنا پڑا۔
ہزاروں وسوسوں اور اندیشوں کے ساتھ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، کیوں کہ آج گیدڑ اپنا آبائی وطن چھوڑ کر انسانوں کی بستی میں دخل ہو رہا تھا، اور شاید بارہا سنا ہوا مقولہ "گیدڑ کی جب موت آتی ہے، وہ گاؤں کی طرف جاتا ہے"  پورا ہونے جارہا تھا، خیر مرتا کیا نہ کرتا، اپنے کئے پر پچتاتا بوجھل قدموں سے گاؤں کی طرف اس طرح بڑھا کہ رات کا وقت گاؤں میں داخلہ کا طے ہوا۔
لیکن یہ کیا، یہاں تو انسانوں کے وفادار اپنی قوم کے غدار، کمینے کتوں نے خلاف قیاس پورے اتفاق کے ساتھ گیدڑ کو رات کے وقت بھی ہاتھوں ہاتھ لیا اور اور پوری طاقت وقوت سے گیدڑ کی گھسپیٹ کے تمام راستے مسدود کردئے ، بے چارا لاچار گیدڑ جان بچانے کے لئے عزت پر پونچھ کو دبا کر سرپٹ ایسا بھاگا کہ آؤ دیکھا نہ تاؤ بس بگٹٹ دوڑ لگادی اور نتیجتا جا گرا شیرے کے تالاب میں،گویا آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا، اپنے آپ کو اس چپ چپے تالاب سے بمشکل نکالا تو ایک دوسری مصیبت کو اپنا منتظر پایا، بدن چپ چپا اور اس پر کڑوا کریلا نیم چڑھا پاس میں پڑے مور کے پنکھ بدن پر چپک گئے اور ایسے چپکے کہ بدن کا کوئی حصہ باقی نہ رہا اب گیدڑ سستانے کے ساتھ اپنے بدن سے پنکھ اتارنے کا ارادہ کرہی رہا تھا کہ اچانک اس کی نگاہ چاند کی روشنی میں اپنے بدن پر پڑی۔ پھر جو منظر اس نے دیکھا اس نے اس کے چودہ طبق روشن کردئے، گویا وہ گیدڑ نہیں بلکہ مور ہے، ایک دھماکہ سا کہئے ہوا یا ایک چنگاری سی کہئے بھڑکی جس نے تاریکی میں اس کی راہنمائی کی، اور ایک نئی سوچ نے اس کے دماغ میں سر ابھارا، اور بس پھر وہ ایک نئی سوچ، نئی صورت، نئی فکر اور نئے انداز کے ساتھ اپنوں کی طرف چل دیا، اور جس وقت وہ اکڑتا ہوا اور خوشی کے ساتھ صبح کے وقت جنگل میں داخل ہوا تو جنگل میں رہنے والے گیدڑ کے پرانے دوستوں اور دشمنوں نے گیدڑ کو گھیر لیا اور تعجب اور حیرانی سے اس کو چاروں طرف سے دیکھنے لگے۔ کون ہو بھائی؟ ایک طرف سے آواز آئی۔ غرور اور خوشی سے جھومتے ہوئے گیدڑ نے جواب دیا: مووووووور!!!! لیکن چونچ کہاں؟ کسی نے آواز لگائی۔۔۔۔۔۔ ہاں چونچ نہیں لیکن ہوں تو میں مور۔ گیدڑ نے جواب میں کہا۔۔۔۔۔۔ لیکن پھر کسی طرف سے آواز آئی، اور پنجے بھی نہیں ہیں؟ ٹھیک ٹھیک پنجے نہیں ہیں تو کیا ہوا لیکن ہوں تو میں مور ہی۔ پھر کسی نے سوال داغا اور پونچھ کہاں ہے بھائی؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مانا کہ پونچھ بھی نہیں ہے لیکن ہون تو مین مور ہی۔
بس یہی حال مسلمانوں کا ہے، اگر کوئی پوچھے: بھائی آپ کیسے مسلمان ہو، جو نماز نہیں پڑھتے؟ جواب ایسا ہی ملے گا: مانا کہ میں نماز نہیں پڑھتا لیکن ہوں تو میں مسلمان ہی!!! پوچھے: آپ داڑھی بھی نہیں رکھتے ہو؟ کہے جی جی میں داڑھی تو نہیں رکھتا لیکن ہوں تو میں مسلمان ہی!! پوچھے: روزہ بھی نہیں رکھتے ہو؟ کہے: اجی یہ بات بھی صحیح ہے لیکن ہوں تو میں مسلمان ہی۔

شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود؟
وضع میں تم ہو نصارٰی، تو تمدّن میں ہنود!
یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سّید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاو تو مسلمان بھی ہو؟

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

Saturday, 3 January 2015

رات میں پنّی چُگنے اور دن میں تعلیم حاصل کرنے والا طالب علم۔

رات میں پنّی چُگنے اور دن میں تعلیم حاصل کرنے والا طالب علم۔
۔
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ
۔
۔

اس نئے انکشاف نے مجھے ہلاکر رکھدیا تھا، مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا، اسی لئے چیں بجبیں اور کسی قدر بے یقینی کے ساتھ میں نے کہا: لیکن وہ تو اپنے دن کا اکثر حصہ مدرسہ میں گذارتا ہے، صبح نماز فجر کے متصلا بعد مدرسہ میں آتا ہے، 12 سے 2 بجے تک کا وقفہ اور پھر عصر مغرب کے درمیان تفریح کا وقت، پھر کہیں عشاء کے بعد چھٹی ہوتی ہے۔
جی جی آپ نے صحیح فرمایا لیکن یہ بات شاید آپ کے علم میں نہیں ہے کہ یہ بچہ رات تقریبا 9 بجے اور صبح 4 بجے کے بعد کوڑیوں پر سے پنی، لوہا، پلاسٹک وغیرہ تلاش کرکے لاتا ہے، اور پھر دن میں آپ کے یہاں پڑھنے کے لئے آتا ہے۔ اس شخص نے میری بات کا جواب تفصیل سے دے کر خود کو کذب سے بری اور سچا ثابت کرنے کی پوری کوشش کی ۔
خیر وہ بندۂ خدا میرے لئے فکروں کا سمندر چھوڑ کر جاچکا تھا، اور میں سوچ میں گم، ماضی کے دریچے کھولنے کی کوشش کرنے لگا، اور کتاب ماضی کے اوراق الٹتے ہوئے ذہن کی اسکرین پر چند مہینے پہلے کے اس لمحہ کا منظر گردش کرنے لگا : جب مدرسہ کے ایک استاد میرے پاس آفس میں ایک بچے کو لیکر آئے، اور شکایت کی کہ یہ بچہ پڑھتا وڑھتا نہیں ہے، اس کے یاد نہیں ہوتا،  بہت کند ذہن ہے۔
میں نے اس بچے پر ایک نظر ڈالی، تقریبا 14،15 سال کا یہ بچہ مجھے شکل سے کچھ کمزور سا معلوم ہوا تھا اور بدن پر غیر قیمتی لباس اس کی مالی حیثیت کا پتہ بھی دے رہا تھا، خیر یہ کوئی قابل توجہ بات بھی نہیں تھی کیوں کہ مدرسہ میں اکثر بچے غریب، نادار، یتیم اور مسکین آتے ہیں، لیکن اتنے بھی نہیں کہ رات میں کوڑیوں سے پنی چگیں اور دن میں مدرسہ آکر تعلیم حاصل کریں۔
میں نے حسب عادت بچے کو سختی اور نرمی کے ملے جلے انداز میں  چند باتیں سمجھانے کے طور پر کہیں، پھر اس کو درسگاہ میں بیٹھنے کے لئے کہا اور استاد صاحب کو اپنے پاس روک لیا ، یہ تو میں بھی جانتا تھا کہ جب کوئی 14،15 سال کی عمر میں تعلیم شروع کرتا ہے تو اس کو پڑھانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے، لیکن پھر بھی ہمیں اپنی سی کوشش ضرور کرنی چاہئے ، اسی لئے میں نے استاد محترم کے سامنے ادب اور نرم انداز سے اپنی بات پیش کرتے ہوئے عرض کیا:
قاری صاحب! آپ کی بات سو ٹکے صحیح ہے، لیکن ہمیں پھر بھی کوشش کرنی ہے، اگر یہ مدرسہ میں نہیں آئے گا تو بےکار ہوجائے گا اور اس کے ایمان  کا بھی خطرہ پیدا ہوجائے گا، لیکن مدرسہ میں آکر یہ دو نہیں ایک ہی حرف  پڑھے اور کچھوے کی چال چلے، یا کچھ بھی نہ پڑھے محض پڑھنے والوں کے ساتھ بیٹھ کر وقت گذارے پھر بھی ان شاء اللہ تعالی ضرور پورا پورا فائدہ اٹھائے گا۔
خیر بندہ کی تدبیر، استاد کی محنت اور اس بچے کی لگن رنگ لائی اور اس بچے نے الحمدلله تعالی مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ میں وقت گذارتے گذارتے اپنا قائدہ آدھے سے زیادہ مکمل کرلیا ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ بچہ اب بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے لیکن سچ میں اس انکشاف نے ( بچہ رات میں پنی چگتا ہے اور دن میں مدرسے آکر تعلیم حاصل کرتا ہے) مجھے سوچنے پر مجبور کردیا کہ اگر اس دن اس بچے کے متعلق فیصلہ لینے میں ہم سے ذرا سی غلطی ہوگئی ہوتی تو ہم کتنے بڑے گناہگار بن گئے ہوتے، نیز یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ اگر مدرسے نہ ہوتے تو یہ غریب لوگ تعلیم کہاں حاصل کرتے؟
یااللہ اس طالب علم اور اس جیسے جتنے غریب، یتیم، مسکین اور مفلس طالب علم ہیں سب کی مدد فرما، اور مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ کو اور تمام مدارس کو ترقی عطا فرما۔
۔
۔
۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

Thursday, 1 January 2015

"بے آبرو عورت"

"بے آبرو عورت"
۔
۔
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ
۔
۔
یورپ کے مفاسد میں سے ایک بڑا بلکہ بہت بڑا مفسدہ یہ نعرہ بھی ہے: "آزادئ نسواں"۔
یہ عورت اچھی، خاصی، پرسکون اور آرام کے ساتھ اندرون خانہ زندگی بسر کرتی تھی، خدمت گذار بیٹی جانثار بہن، فرمانبردار بیوی اور پیار دینے والی ماں تھی، لیکن صاف اور کھلے لفظوں میں کہا جائے تو یورپ نے عورت کو آزادئے نسواں کا نعرہ دیکر عورت کو بڑی صفائی اور خوبصورتی سے بے وقوف بنایا، اور پھر اس کے ذریعہ عورت کو چوراہے، بازار، دکان، بزنس، فیکٹری، آفس اور بیرون خانہ لاکر پوری طرح بے حجاب کرکے، اس سے استفادہ کا پورا موقع حاصل کیا۔ اور عورت کی عصمت کو ہر جگہ تار تار کیا۔ عورت کو بے شرم، بے لاج، اور بے باک اس قدر بناڈالا کہ اس کی نظروں میں شرم و حیا عزت و آبرو کی کوئی خاص اہمیت نہ رہی، مرد کے شانہ بشانہ اور ترقی کرنے کا رنگ اسقدر چڑھا کہ سب رنگ پھیکے پڑگئے، حال یہ ہے کہ عورت برہنہ، نیم مادر زاد، درمیان شب، وقت بے وقت گھر سے باہر رہے، رات دن غیر محرم سے چیٹ کرے، باپ کی خدمت، شوہر کی فرمانبرداری، اولاد کی پرورش نہ کرے تو بھی کوئی اس کی غلطی نکالنے کی ہمت نہین کر سکتا چونکہ اس کی غلطی نکالنے والا سب سے بڑا ملزم قرار دیدیا جاتا ہے۔
صنف نازک  صنف مقابل کے لئے ایک کشش رکھتی ہے جس کی وجہ سے مرد زات اس کی طرف بڑی تیزی سے مائل ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کل ہر دکان، آفس اور شاپ کے کونٹر پر نیم برہنہ مسکراتی کھلکھلاتی ہوئی دوشیزہ، عورت کی عصمت تار تار کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
اگر مان بھی لیا جائے کہ اس آزادئ نسواں نے عورت کو ماہر ٹیچر، اور کامیاب بزنس مین بنا دیا ہے۔ لیکن یہ بات بھی تو قابل غور ہے کہ اس آزادئ نسواں نے عورت کو خدمت گزار بیٹی، جانثار بہن، فرمانبردار بیوی اور پرورش کرنے والی ماں کا اہم مقام حاصل کرنے سے محروم بھی کردیا ہے۔
اور پھر آپ مانیں یا نہ مانیں، مجھے پھر بھی کہنا پڑتا ہے کہ انہی پاکیزہ رشتوں کی وجہ سے ہی تو عورت کا تقدس اور ایک خوبصورت مقام تھا۔ اب  رشتے نبھانے کی صلاحیت نہیں تو تقدس اور عظمت بھی نہیں۔
۔
پھر بھی یہ گلہ ہے کہ ہم وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں تو تو بھی تو دلدار نہیں۔۔
۔
۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی