ایک بابرکت شادی
شادی میں سادگی ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
ازقلم: چاہت محمد قاسمی مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ سہارنپور
میں نے دروازہ کھولا اور افراد مجلس پر نظر ڈالے بغیر آداب محفل کا خیال کرتے ہوئے دروازے کے قریب پڑے ہوئے صوفہ پر فورا بیٹھ گیا، میرا گمان تھا کہ اگر میں اپنی شناسا شخصیت کو تلاش کروں گا تو شاید ممکن ہے، میرا تجسس دیکھ کر لوگوں کا ذہن منتشر ہو، اور بعض لوگ اس کو نا گوار بھی محسوس کریں، جو آداب محفل کے خلاف تھا، لیکن بیٹھنے کے بعد ابھی میں نے مجلس کا جائزہ نہیں لیا تھا کہ اچانک پوری محفل استقبال کے لئے کھڑی ہوچکی تھی، اور تقریبا سب ہی افراد باشرع مع اسلامی وضع قطع چہرے پر بشاشت اور خوشی کی جھلکیوں سے پر خوبصورت مسکراہٹ لئے ہوئے میری طرف متوجہ اور مصافحہ کرنے کے لئے تیار کھڑے تھے، خیر مجھے پھر دوبارہ کھڑے ہوکر سب سے باری باری مصافحہ کرنا پڑا؛ علیک سلیک اور مختصر تعارف کے بعد ہم سب دوبارہ صوفوں پر بیٹھ گئے، میں نے ایک اچٹتی ہوئی نگاہ سلیقے سے سجائے گئے کمرہ پر ڈالی اور صوفوں پر بیٹھے ہوئے افراد کا جائزہ لیا، تو معلوم ہوا کہ ماشاء اللہ تعالی سبھی افراد سادگی کے باوجود پر وقار اور با عزت علماء کرام تھے، اور بعد میں معلوم ہوا کہ سبھی علماء کرام ماشاء اللہ تعالی نوجوان ہونے کے ساتھ اپنے علوم میں ماہر، باہنر اور خدمت دین میں لگے ہوئے تھے، ان میں سے ہر ایک دوسرے کو فوقیت دینے والا اور دوسرے کی عزت کرنے والا محسوس ہوتا تھا، یہاں سبھی حضرات ایک ہی صف میں بیٹھے ہوئے بڑے نورانی نورانی لگ رہے تھے، انہیں کے درمیان ایک ایسے نوجوان عالم دین بھی براجمان تھے، جن کے لئے اج کا دن بڑا ہی اہم، یاد گار اور خوبصورت دن تھا، ایک ایسا دن جس میں لوگ سجتے ہیں، سنورتے ہیں، کہیں گالوں پر جدید انداز کی کریم تو کہیں ماتھے پر سہرا سجاتے ہیں، مہنگے جوتے، مہنگے کپڑے اور مہنگے ہار کے ساتھ خود دلہا بھی مہنگا ہوجاتا ہے، لیکن سبحان اللہ تعالی یہ دلہا تو نبی کا جانشین اور نبی کا وارث دلہا تھا، نہ مہنگے کپڑے نہ مہنگا لباس، نہ چہرے پر مہنگی کریم کے گھسے، نہ مہنگا ہار اور نہ سہرا؛ یہ تو سنت نبوی کا عاشق، سادہ مزاج، خوبصورت انداز، دلربا مسکان، اور پروقار مزاج کا حامل میرا پرانا دوست دلہا تھا، مزید جانئے کہ اس شادی میں سادگی کا کیا انداز تھا، یہ دلہا تو ہفتوں سے حیدرآباد میں مقیم تھا، شادی طے ہوئی اچانک فون پہنچا: جہاں ہو، جیسے ہو، جس حال میں ہو فورا دھلی چلے آؤ!!! دلہا رات میں دھلی پہنچا، ایک مدرسہ میں ٹہرا، آہ سبحان اللہ تعالی ایک عالم کے لئے، دین کے شیدائی کے لئے، علم کے پروانے کے لئے مدرسہ سے زیادہ کوئی جائے سکوں ہوسکتی ہے؟؟
صبح کی کرن نئی نوید لے کر آئی، اور دور سہارنپور سے ایک بارات آئی، نہیں، نہیں، اس کو بارات کہنا ان پاکیزہ نفوس کی جماعت کی توہین ہوگی، کیوں کہ بارات تو وہ ہوتی ہے، جو نئے کپڑوں میں ملبوس سنت کا جنازہ نکال کرآتی ہے، بدعت و خرافات کا ڈنکے کے چوٹ پر ارتکاب کرکے آتی ہے، جو رسوم و رواج سے سج سنور کر آتی ہے، جس میں ایک مہنگا، سجا، سنورا، شو پیس، اور ناز و نخرے کا حامل دلہا بھی ہوتا ہے۔ لیکن یہاں تو سادگی ہی سادگی تھی، اور ہلدی لگے نہ پھٹکری رنگ آئے چوکھا چوکھا، بالکل یہی حالت تھی طرفین کے اخرجات مختصر اور کام بہت اچھا، انداز بڑا پیارا، اور سب ہی ساتھیوں کا کردار بہت خوبصورت تھا،۔
شادی کے سلسلے میں اس حدیث کو ہمہ وقت پیش نظر رکھا جاے: [إن من أعظم النکاح برکةً أیسرہ موٴنة] یعنی سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم خرچ ہو۔ آہا اس بابرکت شادی میں بالکل اس حدیث پر عمل نظر آتا ہے، اور عمل ہو بھی کیوں نہ کہ آخر پدر دلہن حضرت مولانا حكيم محمد عثمان صاحب القاسمي نبی ﷺ کے شہر مدینہ میں مقیم ہیں ، لڑکی بھی اسی بابرکت شہر میں پرورش پاتی ہے، نور علی نور حافظہ عالمہ مقیم حال مدینہ منورہ، سبحان اللہ تعالی میرے دوست نے کیا قسمت پائی ہے، بڑا انکشاف اس وقت ہوا جب ایک دوست نے بتايا کہ حضرت مولانا حكيم محمد عثمان صاحب القاسمي کے سات بچے ہیں اور ساتوں حافظ ہیں۔ متانت، سنجیدگی، سادگی اور نرمی لئے ہوئے تینوں لڑکوں سے ملاقات کرکے بے اختیار زبان سے نکلتا ہے، ھذا من فضل ربی، لیکن ادھر بھی سادا انداز کا دلہا حبیبِ من؛ ڈاکٹر مولانا راشد الندوی تھا، موصوف بھی دینی و عصری علوم سے آراستہ ہیں۔
دارالعلوم دیوبند اور ندوہ سے فارغین علماء کرام موجود تھے، سبحان اللہ تعالی چہرے نورانی اور دل مسرور تھے۔ ناشتہ کے بعد بالا خانے پر محو گفتگو تھے، ہلکا پھلکا مزاح، دل لگی، اور علما کا طرہ امتیاز دقیق علمی مباحث جاری تھی، کہ اچانک حضرت مولانا حكيم محمد عثمان صاحب قاسمی چہرے پر نرم مسکراہٹ لئے ہوئے کمرہ کے دروازے پر نمودار ہوئے اور سنجیدہ اونچی آواز سے اعلان کیا کہ خان صاحب کا فون آیا تھا کہ میں نے سناہے کہ آپ دھلی میں مقیم ہیں، میں بھی دھلی آیا ہوں، اور ملاقات کا طالب ہوں، مولانا قاسمی صاحب نے بتایا کہ جب میں نے ان سے کہا کہ جی ہاں! اور لڑکی کا نکاح بھی ہے، تو صوبائی وزیر نے خوشی کا اظہار کیا اور اب وہ تشریف لا رہے ہیں۔ میں نے ایک صاحب سے سوال کیاکہ خان صاحب کون ہیں تو جواب ملا صوبائی مؤقر وزیر جناب اعظم خان صاحب تشریف لارہے ہیں، میری زبان سے فورا نکلا "ھذا من فضل ربی" ہاں یہ بھی میرے رب کا فضل ہے کہ دنیوی اعتبار سے معزز لوگوں سے بھی اللہ تبارک و تعالی اس مجلس کو زینت بخشنا چاہتا تھا۔
خیر معزز وزیر تشریف لائے اور کافی دیر تک ان نورانی چہرے والے علما کرام کو دیکھ کر تعریفی کلمات کہتے رہے، اور دلہا میاں کو بغل میں بٹھا کر عقیدت و محبت سے دیکھتے رہے۔
بعد ازاں نکاح کا اعلان ہوا، مسجد سے امام صاحب بھی تشریف لے آئے، لوازمات کے بعد حضرت مولانا حكيم محمد عثمان صاحب القاسمی نکاح کا خطبہ پڑھنے کے لئے اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور خطبہ شروع کرنا ہی چاہتے تھے کہ اچانک مجمع میں سے عقیدت و محبت سے کسی نے آواز دی کہ حضرت بیٹھ جائیے ، لیکن عطار کے پاس سے عطر، لوہار کے پاس سے دھواں، اور عالم کی صحبت سے علم حاصل ہوتا ہے، چہ جائے کہ وہ عالم قاسمی ہونے کے ساتھ ساتھ مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں مقیم ہو۔ اسکو تو یقینا سنت کا پابندہونا چاہئے لہذا نورانی چہرے، پروقار انداز اور نرم گفتار کے حامل حکیم صاحب دامت برکاتہم مقیم حال مدینہ منورہ ارشاد فرما ہوئے :
"میرے آقا ہر خطبہ کھڑے ہوکر پڑھتے تھے۔…….......... سبحان اللہ تعالی
میانہ قد، گورا رنگ، خوبصورت پر وقار چہرا، طبیعت میں متانت اور سنجیدگی، گفتار میں سلاست اور اثر انگیزی، چہرے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، اخلاق میں سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اثرات، یہ لڑکی کے والد، اس نکاح کے خطیب حضرت مولانا حكيم محمد عثمان صاحب القاسمی دامت برکاتہم تھے، حضرت کو اللہ تعالی نے عزت، دولت، شہرت، نیک اولاد، مخلص احباب اور علوم فنون سے خوب نوازا ہے، لیکن حضرت کی طبیعت کی انکساری اور اخلاص کا یہ عالم ہے، کہ اپنے، پرائے، ہر شخص سے خندہ پیشانی، نرم گفتاری، پر اثر الفاظ، اور خوبصورت مسکراہٹ سے ملاقات کرتے تھے، حضرت کے اخلاق، کردار، گفتار، اور اقوال کا اثر لے کر ہم اس شادی سے واپس ہوئے،
ہماری شادی بھی سادا ہوئی تھی، ہمارا خیال تھا، کہ ہم نے نبی کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی شادی میں سادگی کو مد نظر رکھا ہے، اور اس حدیث پر [إن من أعظم النکاح برکةً أیسرہ موٴنة] یعنی سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم خرچ ہو۔ عمل پیرا رہے ہیں، لیکن ہمیں اس شادی میں علم ہوا کہ دیکھو سادا شادی ایسی ہوتی ہے، نہ گھر اپنا نہ در اپنا، لیکن پھر بھی سنت نبوی کو زندہ کیا اور ہاں اگر ہم اپنے میزبان نوشاد خان کا ذکر نہ کریں تو ہم احسان فراموش بھی کہلا سکتے ہیں، اللہ تعالی ان کی مخلصانہ خدمات کو قبول فرمائے۔
صبح 5 بجے کے نکلے ہوئے شب 11: 57 پر ہم اپنے مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ کے بورڈ کے سامنے گاڑی سے اترے مولانا راشد الندوی اور ان کے چچا پردھان جی کے ساتھ مولانا راشد کے دوسرے چچا مولانا سلیم صاحب قاسمی صاحب کو بھی دعوت دی جو موقع محل کو مد نظر رکھتے ہوئے معذرت کے ساتھ نامنظور کردی گئی۔
ہاں یہ بارونق، بابرکت شادی کا ہی اثر تھا کہ اتنے بڑے دن کی بھاگ دوڑ اور باوجود گرمی کے ہمیں ذرا سی بھی تھکن احساس نہ ہوا اور ہم چست، ہشاش بشاش اور خوش و کرم گھر واپس ہوئے۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی
No comments:
Post a Comment