نماز پڑھو اس سے پہلے کہ آپ کی نماز پڑھی جائے۔
ازقلم: چاہت محمد قاسمی مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ
بعض دفعہ کسی کی زبان سے نکلنے والے الفاظ، سامنے والے کے دل پر سیدھے اور گہرے نقوش مرتب کرتے ہیں، پھر دن، ہفتے سال اور دھائیاں گذرنے کے بعد بھی وہ نقوش ماند اور ہلکے نہیں پڑتے، خواہ وہ بات آپ نے قبل ازیں ہزاروں، لاکھوں، اور کروڑوں مرتبہ ہی کیوں نہ سنی ہو، شاید یہ شعر بر محل ہوگا:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
دہلی میں میرے ایک خاص دوست نے اپنا واقعہ سنایا کہ ایک رات بر بنائے علالت ان پر بہت سخت گذری، رات بھر منہ سے نکلنے والے اضطراری الفاظ "ہائے ہائے" بدن میں شدید تکلیف کا پتا دیتے تھے، بیوی بیچاری پاکباز، بہت خدمت گذار، بے بسی کی حالت میں حیران و پریشان اور شوہر کی محبت میں ہلکان، لاچار و مجبور، بار، بار، طرح طرح کے جتن کرتی، لیکن مصلحت خداوندی کہ ہر جتن بے کار ہوجاتا، اور شدید درد میں بالکل بھی آرام میسر نہ ہوتا، درد کی شدت اس قدر حاوی تھی کہ بیوی کے قرب، نرم بستر، اور ہر طرح کی سہولت کے باوجود نیند کا بالکل بھی احساس نہ ہوتا، لیکن صبح صادق کے وقت ناجانے پریشان انسان کو کیسے قرار آیا، سخت تکلیف اور شدید درد میں نیند کا خمار آیا۔
جب آنکھ کھلی تو معلوم ہوا، نور کا تڑکا سورج کی حدت و تپش میں تبدیل ہوچکا ہے، ہر چار سو پھیلی ہوئی روشنی نماز کے قضا ہونے کی خبر دے رہی تھی۔
بس یہ حال دیکھا تو ایک چیخ مار کر اٹھ بیٹھا، بیوی کو آواز لگائی: ارے اللہ کی بندی یہ کیا ہوا؟ نماز قضا ہوگئی؟ تونے مجھے بیدار کیوں نہ کیا؟
بیوی نے محبت و لجاجت کے ساتھ عرض کیا: میرے سرتاج آپ پوری رات پریشان رہے، درد سے تڑپتے رہے، آپ کو بالکل بھی آرام نہ ملا لیکن نماز سے کچھ دیر قبل آپ کی اچانک آنکھ لگ گئی، شاید نیند کا نشہ درد کے شدید احساس پر حاوی ہوگیا تھا، اس لئے میں نے سوچا: آپ ابھی سوئے ہیں، نیز بیماری کی وجہ سے آپ کے لئے اجازت بھی نکل سکتی ہے، تو میرا تصور تھا کہ آپ کو آرام کرنے دیا جائے، بعد میں نماز ادا کرلی جائے گی۔
اس پر میرے دوست نے خاص جملہ کہا، جو شاید ہم نے بھی بار بار سنا تھا، اور آپ نے بھی سنا ہوگا، لیکن وہ جملہ میرے دل پر آج تک گہرائی کے ساتھ نقش ہے:
ہائے یہ تو نے کیا کردیا؟ اگر خدا نہ خواستہ مجھے اس حال میں موت آجاتی تو ذرا سوچ میں اللہ کے حضور بے نمازی کی حالت میں حاضر ہوتا۔ اس وقت میں اللہ کو کیا منہ دکھاتا، تونے میرے ساتھ یہ کوئی بھلائی نہیں کی، خدارا آئندہ ایسا مت کرنا، بلکہ بیماری کی حالت میں تو نماز مزید خشوع اور خضوع کے ساتھ ادا کرنی چاہئے، کہ مبادا یہ نماز آخری نماز ہو۔
بھائیو۔!! یہی وہ الفاظ تھے جنہوں نے مجھے جھنجھوڑ ڈالا اور ہمیشہ ہمیش کے لئے دل پر گویا جم ہی گئے۔
یہ الفاظ آپ حضرات کے لئے بھی مشعل راہ ثابت ہوسکتے ہیں، نیز غور کر نے کا مقام ہے، جو لوگ نماز میں سستی کرتے ہیں، یا پھر ذرا سی بیماری کی وجہ سے نماز چھوڑ دیتے ہیں، ذرا وہ لوگ بلکہ ہم سب انسان اپنا محاسبہ کریں کہ اللہ کے کیسے کیسے بندے ہیں، اور اللہ کے یہ بندے ہر حال میں اللہ کو یاد رکھتے ہیں، بس آپ سبھی حضرات سے التجا ہے کہ کبھی نماز نہ چھوڑیں، چونکہ نماز دین کا ایک اہم ستون ہے، انسانوں کے چہرے کا نور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک، اور کفر و اسلام کے درمیان آڑ ہے، نیز اس کے محض قضا کرنے پر سخت وعیدوں کا ذکر ہے، چھوڑنا تو گنتی و شمار ہی میں نہیں۔ چھوڑنے سے اللہ ہمیشہ حفاظت فرمائے۔ آپ کو یہ بھی فیصلہ کرنا ہے، کہ موت جو کبھی بھی، کہیں بھی، کسی بھی حالت میں دبوچ سکتی ہے، اس کے بعد ہمیں رب العزت کے دربار میں کس حال میں حاضر ہونا چاہئے، نمازی یا بے نمازی؟ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
میرے لئے بھی دعا کریں کہ صحیح طریقے سے اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی نماز کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین ثم آمین یا رب العالمین
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی
No comments:
Post a Comment