Tuesday, 29 September 2015

ایک غیر مسلم کے دو اعتراضات کے جوابات

ایک غیر مسلم کے دو اعتراضات کے جوابات

ازقلم‌: چاہت محمد قاسمی مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ

ہندوستانی ریل کا نہ کوئی ٹائم ہے، اور نہ کوئی بھروسہ، اگر وقت سے پہلے پہنچو تو یہ لیٹ ہوجاتی ہے اور اگر اتفاقا ذرا بھی لیٹ ہوئے تو یہ رائٹ ٹائم، بلکہ وقت سے پہلے ہی نکل جاتی ہے، اسی لئے میں وقت سے پہلے ہی پہنچ جاتا ہوں، حسب عادت وقت سے بہت پہلے چلا تھا لیکن اسٹيشن تک پہنچ نے کے لئے جس سواری کا سہارا لینا تھا، اس روز وہ لیٹ ہوگئی تھی۔ شیروانی ٹوپی اور کاندھے پر بیگ، میں ایک طرف کھڑا ہوا بور ہو رہا تھا کہ اچانک ایک بائک سوار نے میرے پاس آکر بریک لگائے اور چونکہ شاملی میں ہندو مسلم فساد سے پہلے علاقہ میں نہ کوئی کشیدگی تھی اور نہ تعصب،  ایک دوسرے پر اعتماد تھا، اسی لئے تو میں اس صاحب ہیلمٹ بائک ڈرائیور کے پیچھے بلا کسی تحقیق اور سوال کے بیٹھ گیا تھا، ویسے بھی بوریت انسان سے غیر احتیاطی اقدام کرا دیتی ہے۔
اپنے مذہب کے متعلق کچھ بتائے! ہیلمٹ کے پیچھے سے نرم اور ہلکی آواز آئی، اب مجھے احساس ہوا کہ میرا محسن کوئی غیر مسلم ہے، میں نے موقع غنیمت جانا اور اللہ کی وحدانیت پر بولنا شروع کیا۔ آپ کو کہاں جانا ہے؟ اس نے مجھ سے پوچھا، اسٹیشن، میرا مختصر جواب تھا۔ ٹھیک، مجھے جانا تو کہیں اور تھا لیکن پہلے آپ کو چھوڑ دیتا ہوں۔ اس نے اعلی اخلاق کا نمونہ پیش کیا۔
بائک اسٹیشن کے زینوں کے سامنے رکی، میں نے اترکر اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس سے پھر کبھی ملنے کا وعدہ کیا، اس نے کہا: اجی مجھے اسلام مذہب اچھا لگتا ہے، لیکن دو اعتراض ہیں، اگر آپ جواب دیدیں تو مہربانی ہوگی۔
میں نے ایک نگاہ اپنی مطلوبہ ٹرین پر ڈالی جو سامنے ہی نظر آرہی تھی اور لمبا سانس لیا، پھر سیڑھیوں سے ایک جانب ہوتے ہوئے کہا: آپ اعتراض بتائے ان شاء اللہ تعالی آپ کو مطمئن کرنے کی پوری کوشش کروں گا، میری ٹرین سے زیادہ قیمتی آپ کا اسلام کے متعلق اطمینان ہے۔
پہلا اعتراض: مسلمان جیو ہتیا (جانوروں کی قربانی اور ذبح) بہت کرتے ہیں؟ …… احباب! ایک بات سمجھ لیں یہاں کوئی نقلی دلیل نہیں چلنی تھی کہ میں قرآن و حدیث سے دلائل دیتا، جو اللہ نے ذہن میں ڈالا، میں ان کو کہتا گیا۔
دیکھو بھائی! اللہ تعالی نے دنیا میں بہت سے جانور، پیڑ، پودے، پھل پھول بنائے ہیں، لیکن ان میں سب سے اہم انسان کو پیدا کیا ہے، اور  دنیا کی ہر چیز کو انسان کے لئے پیدا کیا۔  اس کے سر کو اثبات میں ہلتا ہوا دیکھ کر میں نے سلسلہ کلام جاری رکھا، اور کہا: جب آپ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کائنات کی تمام چیزیں انسان کے فائدے کے لئے بنائی ہیں تو پھر یہ بھی جان لیجئے کہ کا اللہ نے انسان کے لئے جس چیز کا فائدہ جہاں دیکھا اس کو وہاں استعمال کرنے کی اجازت دی ہے، لہذاٰ بعض جانور سواری کے لئے، بعض جانور مال برداری کے لئے اور کچھ جانور کھانے کے لئے پیدا کئے ہیں۔ پھر جب پیدا کرنے والے نے اجازت دی ہے تو ہم اس کو غلط بتانے والے کون ہوتے ہیں؟
؞ بھائی! لوگ ہم پر جیو ہتیا کا الزام لگاتے ہیں لیکن آپ بتائے آج اس سے کون محفوظ ہے، یہ جو سبزیاں، پھل اناج اور چاول ہم کھاتے ہیں ان کو پیدا کرنے کے لئے بہت سی دوائی کا استعمال کیا جاتا ہے، جو ان کے پودوں پر پیدا ہونے والے لاکھوں جیووں کو قتل کردیتی ہے، بعد ازاں ان کو محفوظ رکھنے والی دوائی بھی کتنے جانوروں کی جان لے لیتی ہے، نیز ان پودوں، درختوں، پھلوں، پھولوں اور گندم چاول پر مھلک دوائی چھڑکنے والے صرف مسلمان ہی نہیں ہوتے ۔ پھر مسلمانوں کو جیو ہتیا کا طعنہ کیوں؟؟

؞ آج ہماری وجہ سے ان جانوروں کی قدر ہوتی ہے، ورنہ جب کوئی بھینس گائیں دودھ دینے سے بھاگتی تو وہ کسی کے گھر نہیں بلکہ سڑکوں پر بے کار نظر آتی، اور پھر یہ لہلاتے کھیت نظر نہ آتے اور آپ خود اپنے ہاتھ سے ان کو قتل کرتے اور ان کی نعشیں جگہ جگہ سڑتی اور بیماریاں پھیلاتیں ، اسی طرح مرغی، بکری، بکرا، مچھلیاں اور ایسے ہی ہر وہ جانور جو اپ لوگوں کے استعمال میں نہیں آتا ہے لیکن پھر بھی وہ سب غیر مسلمون کے گھر نظر آتے ہیں، آخر کیوں؟اس وجہ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم جیون لیتے نہیں جیون دیتے ہیں۔ اور پھر آپ بھی تو ہمارے ساتھ برابر کے شریک ہیں کہ جانتے ہوئے بھی اپنا جانور مسلمانوں کے ہاتھ فروخت کر دیتے ہیں ۔
اس کی گردن بار بار اثبات میں ہلتی رہی اور میرا حوصلہ بڑھاتی رہی، نیز اس نے کہا واقعی ہم جیو ہتیا سے نہیں بچ سکتے ہیں چونکہ آج سائنس کہتا ہے کہ 100 گرام دہی میں لاکھوں جیو ہوتے ہیں۔
مجھے پھر موقع ملا اور میں نے کہا: جناب من! آپ مجھے بتائے آپ کے مطابق دودھ نکالنا ہی کونسا شریفوں کا کام ہے، اس میں بھینس گائے کے بچہ کا حق چھین کر اور بھینس گائے کے ایسی جگہ ہاتھ لگا کر دودھ نکالتے ہیں کہ انسان عورت کے اس حصہ کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتا ہے۔
الحمدلله تعالی وہ اس اعتراض سے پوری طرح مطمئن ہوا تو استفسار پر آگے بولا:
اعتراض نمبر دو: مجھے مسلمانوں کے زیادہ بچوں پر اعتراض ہے کہ مسلمانوں کے یہاں بہت بچے ہوتے ہیں۔
میں نے مسکراکر اس کی طرف دیکھا اور کہا: یار! عجیب بات کرتے ہو، جانور کو بچانے کے لئے اتنی کوشش اور اللہ تعالی نے جانور کو جس انسان کے لئے پیدا کیا ہے، اس کو پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کردینا چاہتے ہو۔۔
واللہ اس جملہ سے اس کا چہرا اتنا شرمندہ ہوا کہ مجھے آج بھی محسوس ہوتا ہے گویا میرے سامنے ہے۔
میں نے اس سے پوچھا: آپ کتنے بہن بھائی ہیں؟ جواب ملا چار۔ میں نے کہا: اگر آپ کے والدین نے بھی فیملی پلانگ کرلی ہوتی تو شاید آج ہماری ملاقات نہ ہوتی۔
اپنے بعد والے سوال پر وہ بہت شرمندہ ہوا اور اس نے کہا کہ میں یہ بات اپنے گرو جی سے بتاؤں گا، گرو جی نے ہی مجھے اسلام پر دو اعتراض بتائے تھے۔
اس کی اس بات سے معلوم ہوا کہ حقیقت حال کیا ہے۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

اسلام ہمارا دین اور اللہ ہمارا رب ہے

اسلام ہمارا دین اور اللہ ہمارا رب ہے

ازقلم: چاہت محمد قاسمی مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ سہارنپور


عرصۂ دراز ہوا ایک چشمہ کی دکان پر ہم اپنے لئے ایک چشمہ پسند کرنے کے لئے کوشاں، فریم الٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے، اچانک دو اشخاص کی باہمی گفتگو نے ہمیں اپنے طرف متوجہ ہوجانے پر مجبور کیا، ایک شخص ان میں سے دکان مالک تھا، جو تراشیدہ ہلکے سے خط کے ساتھ پینٹ شرٹ میں ملبوس کاؤنٹر کے پیچھے کھڑا تھا، یہ اپنے رہن سہن اور انداز گفتگو سے مسلمان معلوم ہوتا تھا، جب کہ سامنے کھڑا دھوتی اور اونچے کرتے میں ملبوس شخص کوئی غیر مسلم تھا۔
سب دھرم اور مذہب ایک ہی ہیں، ہم میں اور آپ میں کوئی فرق نہیں ہے یہ  تو ہمیں اور آپ کو دھرم کے ٹھیکداروں نے الگ الگ کردیا ہے، ورنہ سب ایک ہی ہیں۔ یہ بات غیر مسلم نے بڑے لبھانے والے انداز میں کی تھی۔
میں نے دخل اندازی کرتے ہوئے کہا: میں آپ کی بات سے متفق نہیں ہوں اور آپ کی بات کم از کم ہمارے مذہب کے اعتبار سے تو غلط ہے، ہمارے مذہب کے ٹھیکیدار تو اللہ رب العزت ہیں اور دنیا میں ہمارے اور آپ کے مذہب کے درمیان حق اور باطل کا فرق ہے، اس کی اطلاع ہمیں ہمارے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، اور اسلاف نے یہ بات ہم تک بڑی امانت داری سے پہنچائی ہے۔ طالب علمی کا زمانہ تھا اس وقت اپنی استطاعت کے مطابق بات سمجھانے کی پوری کوشش کی تھی۔
اسی طرح کا واقعہ ماضی قریب میں اس وقت پیش آیا جب اپنے قریبی رشتہ دار کے غیر مسلم نوکر سے بات چیت کرنے کا موقع میسر ہوا، حسب عادت نرم اور لطیف گفتگو جاری تھی جس سے متاثر ہوکر غیر مسلم نے کہا: اجی سب ایک ہی ہیں رام رحیم سب اسی کے نام ہیں،(العیاذ باللہ) رام بھی وہی اللہ بھی وہی ہے۔
میں نے ان سے کہا غلط بالکل غلط، میں بالکل بھی متفق نہیں ہوں، ہم رام کی عزت کرتے ہیں اور انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم رام جی کو خدا کا درجہ دیدیں، اللہ رب العزت وہ ہیں جو ایک ہیں ، اس کے جیسا کوئی نہیں، نہ اس کو کسی نے جنم دیا اور نہ اس نے کسی کو جنم دیا، وہ کسی کا محتاج نہیں اور سب اس کے محتاج ہیں۔ …… …… …… میں نے الله تعالی کی چند صفات بیان کرکے پوچھا کیا یہ رام جی میں بھی پائی جاتی ہیں؟ خاموشی کے علاوہ کوئی جواب نہ تھا۔
ایک واقعہ اور چند دن قبل پیش آیا: عادت کے مطابق ایک غیر مسلم نے کہا کہ بھگوان اور اللہ ایک ہی تو ہیں۔
میں نے کہا بھائی پہلے تو آپ یہ تعین و تخصیص کریں کہ بھگوان کہنا کس کو ہے۔ کبھی آپ کو بچے میں بھگوان نظر آتا ہے، تو کبھی مہمان کو بھگوان کا روپ بتاتے ہو۔ آپ کو ہر اچھی چیز بھگوان نظر آتی ہے، آپ ہر طاقتور چیز کو بھگوان بتاتے ہیں۔ سورج، چاند، آگ، پانی، پہاڑ پربت، ہوا، سانپ، شیر، گائے وغیرہ سب کچھ آپ کو بھگوان نظر آتے ہیں۔

میرے مسلم بھائی بعض دفع اسی طرح کی پر امن اور چکنی چپڑی باتوں میں آکر بلا سوچے سمجھے  ہاں میں ہاں ملاتے چلے جاتے ہیں، جب کہ یہ چیز ہمارے ایمان کے لئے بڑی مہلک ہے، اس طرح کی باتوں سے بچنا بہت ہی ضروری ہے۔ اور بھی یاد رکھئے کہ اسلام ہمارا دین اور اللہ ہمارا رب ہے۔

اللہ حفاظت فرمائے

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

Monday, 21 September 2015

ابرہیمؑ اور خانوادهٔ ابرہیمؑ

ابرہیمؑ اور خانوادهٔ ابرہیمؑ

ازقلم: چاہت محمد قاسمی مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ سہارنپور یوپی انڈیا

ابتلا و آزمائش کے سینکڑوں قصے ہیں، ایثار و قربانی کی ہزاروں داستانیں ہیں، اورفداکاری و فرمابرداری کی بے شمار کہانیاں  ہیں لیکن اپنے محبوب کے لئے ایثار و قربانی کا جو نمونہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں نظر آتا ہے، اس کی مثال تو کجا اس کے اثرات بھی کہیں اور پائے جانے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہیں۔
اللّٰہ تعالی نے قرآن کریم کے اندر 25 سورتوں کی 63 آیات میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ فرمایا ہے۔ کہیں " فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ الخ جیسی آیتوں کے ذریعہ غیراللہ کی معبودیت کی نفی اور اللہ تعالی کی ربوبیت کو ثابت کرنے کا ذکر ہے، تو کہیں اللہ تعالی نے "واتل علیہم نبأ ابراھیم الخ" جیسے رکوع کے اندار سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی قوم کے درمیان ہونے والے مکالمہ کا تذکرہ کیا ہے، کہیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام "اذ قال لابیہ یا ابت لم تعبد مالا یسمع الخ" کے ذریعہ اپنے والد کو دعوت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں، تو کسی جگہ قرآن نے الم تر الی الذی حاج ابراھیم فی ربہ ‌الخ" کے ذریعہ نمرود کے دربار میں اس خردماغ بادشاہ کا تکبر و غرور خاک میں ملانے کو بیان کیا ہے،  کہیں قرآن نے "فراغ علھم ضربا بالیمین الخ" بیان کرکے ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ بت شکنی کا نقشہ بڑے فصیح انداز میں کھینچا ہے، تو کبھی کافر و مشرک قوم "حرقوہ و انصرو آلھتکم " کہہ کر اپنی قوم کو پکارتے ہوئے نظر آتی ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دو، دہکتے ہوئے انگاروں کے حوالے کردو، اور کبھی باپ "لئن لم تنتہ لارجمنک واھجرنی ملیا" کہکر ابراہیم علیہ السلام کو سنگسار کرنے کی دھمکی دے کر ھجرت کرنے پر مجبور کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بہر حال سینکڑوں امتحانات ہوئے، ہزاروں ابتلا و آزمائش کے دور سے گزرے، بہت سی بار آزمائے گئے، لیکن پھر بھی کوئی سستی نہیں، کوئی سرتابی نہیں، کوئی فرار نہیں، کہیں عذر نہیں،  کبھی جھجک نہیں، بلکہ جب بھی حکم ہوتا ہے فورا سر نگوں ہوتا ہے، جہاں بھی احکام جاری ہوتے ہیں وہیں اطاعت کے لئے تیار نظر آتے ہیں، جس وقت بھی فرامین سنائی دیتے ہیں اسی وقت اعمال کے لئے تیار ہوجاتے ہیں، جب بھی اسلم کی صدا آتی ہے اسلمت لرب العالمین پکار اٹھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خدا وند قدوس اپنے خلیل کے متعلق فرماتا ہے: وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ…… جب ابراہیم ﴿علیہ السلام﴾ کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا اور انہوں نے سب کو پورا کردیا۔
بہت سے امتحانات کے بعد ایک بڑے امتحان کی تیاری شروع ہوتی ہے، اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام دعا کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور بار گاہ ایزدی میں عرض کرتے ہیں "رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ"(‌اے میرے رب! مجھے نیک بخت اوﻻد عطا فرما) فورا رب کریم کی رحمت جوش میں آتی ہے، اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی بشارت سنائی جاتی ہے، پڑھاپے کی حالت میں ایک سہارا نصیب ہوتا ہے، آنکھوں کا تارا دل کا سکون پیدا ہوتا ہے، ایک ایسا باپ جس کو عمر کا بڑا حصہ گذرنے کے بعد ایک دلارا عطا ہوتا ہے، آپ تصور کیجئے وہ کیسے کیسے ‌چاؤ کرتا ہوگا، کس کس طرح پیار جتاتا ہوگا لیکن ابھی بچے سے طبیعت سیر بھی نہیں ہوتی، بے قرار دل کو قرار بھی نہیں ملتا، بوڑھے دل کو سکون بھی نہیں ملتا کہ بے آب و گیاہ چٹیل میدان میں چھوڑ آنے کا فرمان جاری ہوتا ہے، فورا سر تسلیم خم کرتے ہیں اور بیٹے کو ماں کے ساتھ ایک اونٹنی پر سوار کرکے ایک ایسے میدان میں چھوڑ آتے ہیں جہاں نہ کوئی آدم ہے نہ آدم زاد، نہ سایہ ہے نہ پانی، ہُو کا عالم ہے، ہر طرف وحشت برستی ہے، ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سیدہ ھاجرہ رضی اللہ عنہا بھی صبر و استقامت کی پیکر اللہ کی رضا پر راضی ہوجاتی ہیں، سبحان اللہ کتنا عظیم گھرانہ ہے، ہر فرد مطیع اور فرما بردار نظر آتا ہے،رحمت خدا وندی جوش میں آتی ہے، جب بچہ پیاس کی وجہ سے ایڈیاں رگڑتا ہے تو ممتا کی ماری ماں صفا اور مروہ پر دوڑ لگاتی ہے،اللہ تبارک و تعالی اس ننھے بچے کی ایڈیوں کی رگڑ کے ذریعہ پتھریلی زمین سے پانی جاری کرتا ہے، چٹان سے وہ چشمہ ابالتا ہے، جس کا پانی رحمت ہی رحمت ہے۔

قصۂ مختصر: جب اسماعیل علیہ السلام کچھ اور بڑے ہو گئے، باتوں کو سمجھنے لگے، اور پاؤں پاؤں چلنے لگے بلکہ بعض مفسرین کے مطابق بلوغیت کی حدود پار کرنے لگے تو قرآن کہتا ہے: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ انی اذبحک: پھر جب وه (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے، تو اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔
اللہ اللہ ایک باپ اپنے بچے کو خدا کا پیغام سنا رہا ہے (نبی کا خواب بھی حکم خدا وندی ہے) اپنے لخت جگر، نور نظر کو ذبح کرنے کا حکم سنا رہا ہے، جان لینے کا فرمان سنا رہا ہے، اور کہتا ہے: فَانْظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ اف!!! کس چیز پر رائے طلب کی جارہی ہے؟؟ قتل کے اوپر رائے مانگی جارہی ہے، موت کے فرمان پر دستخط کرائے جارہے ہیں، اور کس سے پوچھا جارہا ہے؟؟ ایک معصوم بچہ ہے، جو جانتا ہے، سانس کا رشتہ ہے، منٹوں میں ختم ہوجائے گا، زندہ وجود نعش میں تبدیل ہوجائے گا، مارنے والا کوئی غیر نہیں باپ ہوگا، مرنے والا کوئی دوسرا نہیں بیٹا ہوگا ایک بے زبان جانور بھی جان بچانے کے لئے جدو جہد کرتا ہے، یہاں تو معاملہ ایک انسان کا ہے، لیکن سبحان اللہ یہ خانوادۂ ابراہیمی کا چمکتا دمکتا ستارہ تھا، جو اپنے باپ کی فرما برداری، جاں نثاری اور اطاعت گذرای جانتا تھا، لہذا بلا جھجک کہتا ہے…… قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ۔…… : بیٹے نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا ہے اسے بجا ﻻئیے انشاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے
نیک بیٹے کے ایثار و قربانی سے لبریز جواب کے بعد باپ کمر کس لیتا ہے، آستین میں چھری چھپا لیتا ہے، ماں  نہلاتی دھلاتی اور خوشبو میں بساتی ہے، شیطان بھی اپنی چال چلتا اور خوب بہکاتا ہے، ورغلاتا ہے، کبھی ماں کی ممتا کو بھڑکاتا ہے، کبھی باپ کی محبت کو جوش دلاتا ہے، اور کبھی بچے کو قتل سے ڈراتا ہے، شاید اس کو معلوم نہیں کہ یہ خانوادۂ ابراہیمی ہے، اطاعت جس کی پہچان ہے، ایثار و قربانی جس کی شان ہے۔
لہذا باپ بیٹے کو سوئے مقتل لئے جارہا ہے، یقینا فرشتوں نے بھی یہ منظر دیکھ کر رشک کیا ہوگا، انہوں نے اس اشرف المخلوقات کا اعتراف کیا ہوگا۔ مقتل پر پہنچ کر بیٹا باپ کی خدمت میں عرض کرتا ہے، ابا جان مجھے پیشانی کے بل لٹا دینا مبادا آپ کی محبت جوش میں آجائے، ارادہ کمزور پڑجائے، اطاعت پر آنچ آجائے بہرحال انسان ہیں، دل میں میری محبت موجزن ہے، لہذا قران نقشہ کھینچتا ہے: فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ…… غرض جب دونوں مطیع ہوگئے اور اس نے (باپ نے) اس کو (بیٹے کو) پیشانی کے بل گرا دیا۔

سبحان اللہ!! لیکن یہاں تو ذبح کرانا مقصود نہ تھا، بلکہ اطاعت کا نمونہ دکھانا تھا، محبت سے روشناس کرانا تھا، کہ عشق اسکو کہتے ہیں، پیار اس کو کہتے ہیں، اور یہی اطاعت مطلوب ہے، یہی عشق منظور ہے۔ارشاد ہوتا ہے: قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ…… یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا، بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں…… إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ…… درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا…… وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ…… اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا۔ …… ایک دنبہ جنت سے بھیج کر اللہ تعالی نے اس کو قربان کرایا اور پھر اس سنت ابراہمی کو ہمیشہ ہمیش کے لئے زندہ فرماکر اس مذکورہ امتحان کی یادگار بنایا۔
لہذا ہم سب کو چاہئے کہ اس عظیم موقع جانور کی قربانی کا نذرانہ پیش کرکے ظاہر کردیں کہ اے اللہ سب کچھ مال و دولت، بیوی بچے وغیرہ تیرا عطا کردہ ہے، لہذا جب جس کی قربانی کا حکم آئے گا ان شاء اللہ تعالی تیری راہ میں قربان کردیا جائے گا۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

Thursday, 17 September 2015

بے جا تشدد اور شدت پسندی ہمیشہ حالات بگاڑتی ہے

بے جا تشدد اور شدت پسندی ہمیشہ حالات بگاڑتی ہے

ازقلم: چاہت محمد قاسمی مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ سہارنپور یوپی انڈیا

بے جا تشدد اور شدت پسندی ہمیشہ حالات بگاڑتی ہے اور ماحول خراب کرتی ہے، آج مسلمان جمہوری ملک میں رہ کر خلافت راشدہ جیسے قوانین کے طلب گار ہیں، خود نماز نہ پڑھیں، مسجدوں کے سامنے ڈھول بجائیں، مدرسوں کے سامنے رنڈی رچائیں، اور نماز کے وقت مسجد کی برابر میں ڈی جے بجائیں گویا یہ مسلمانوں کا حق ہے، اور مسلمانوں کے لئے ایسا کرنا جائز ہی نہیں بلکہ کار ثواب ہونا چاہئے، میں ضلع بجنور کے ایک مدرسہ میں پڑھاتا تھا، مدرسہ کے پڑوسیوں نے پوری رات مدرسہ کے سامنے رنڈیاں نچائی تھی، کوئی ان کو روکنے والا نہیں تھا، کوئی ان کے سامنے صد سکندری بن کر کھڑا نہیں ہوا، لیکن آپ بتائیں کہ اگر یہی کام کسی غیر مسلم نے کیا ہوتا تو حالات کیا ہوتے؟
گذشتہ رمضان میں ایک جگہ جانا ہوا، پورے شہر میں اسپیکر لگادیے گئے تھے، ادھر سحری کا وقت شروع ہوتا اور ادھر ان کی قوالیاں شروع ہوجاتی، تقریبا دو، ڈھائی گھنٹے قوالیاں جاری رہتی، ان کا بند ہونا سحری کے وقت کے  ختم ہونے کی نشانی تھی، آواز اتنی بلند ہوتی تھی کہ کیا مجال کہ اس وقت ہم نے سوکر دیکھا ہو یا نفل و غیرہ یکسوئی کے ساتھ ادا کرسکے ہوں۔ اگر یہی کام کسی غیر نے کیا ہوتا تو فساد شروع ہوجاتا

ابھی کچھ دن قبل زلزلوں کا سلسلہ جاری تھا، بہت سے لوگ مارے گئے، بہت سے زخمی ہوئے اور بہت سے بے گھر ہوئے لیکن ہمارے محلہ میں ایک شب ڈی جے بجتا رہا، مسجد بھی پاس ہی تھی، میں بھی اپنے کمرے میں کروٹے بدلتا رہا، کئی بار غصہ بھی آیا، دل بھی دکھا، آنکھوں سے آنسو بھی جاری ہوئے لیکن کسی کو کوئی پرواہ نہ ہوئی کیوں کہ ڈی جے بجانے والے مسلمان تھے، تقریبا ایک مہینے قبل مدرسہ کے قریب ایک مسلمان بھائی کے گھر سے گانے کی آواز آتی رہی، ادھر نماز ہوتی رہی لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگتی ، کسی غصہ نہ آیا، کسی نے مذکورہ اشخاص میں سے کسی کا گریبان نہ پکڑا، ایسوں کے دروازے پر کچھ لوگ اکھٹا ہوکر نہ گئے۔
مدرسہ سے کچھ ہی دوری پر ایک مندر ہے، جو ہمیشہ ویران رہتا ہے، لیکن ابھی چند دن قبل کسی مخصوص تہوار کے موقع پر مندر میں ڈی جے بجایا گیا، چند دن کا تہوار تھا، ڈی جے بجتا رہا، چند لوگ میرے پاس اکھٹے ہوکر آئے، مولانا صاحب!!! میں نے ان سے کہا تھا کہ نماز کے وقت مت بجانا۔ دوسرا بولا مولانا صاحب!!! چلو سب اکھٹے ہوکر چلتے ہیں اور اسکو اتروا دیتے ہیں۔ میں نے کہا مسلمان تم سے رکتے نہیں، چلے ہو دوسروں پر جہاد کا اختیار جمانے، پہلے اپنے بھائیوں کو دیکھو، مسجد مدرسہ کے آس پاس کیا کیا گل کھلاتے ہیں، اب تو یہ لوگ 3 روز ڈی جے بجا کر گھروں کو واپس ہوجائیں گے لیکن اگر تم نے بے جا تشدد کیا، سختی دکھائی تو وہ لوگ ضد پر اتر آئیں گے، پھر پورے سال ڈی جے بجتا رہے گا اور تم کچھ بھی نہیں کر پاؤگے، اور اسے بجانے والا ان کا ہیرو ہوگا۔ اور یہی لوگ جو اب ہمیں ایکتا کا درس دیتے ہیں کل فرقہ پرست بن جائیں گے۔
آپ اپنے آس پاس دیکھ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کا کیا حال ہے، کعبہ ان کا، ان کے باپ کا، پوری دنیا کا بیع نامہ انہیں کے نام ہے، پھر چاہے یہ سیاہ کریں یا سفید کریں۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

Sunday, 13 September 2015

موبائل میں اردو کے لئے آسان طریقہ

ملٹی لنگ او کیبورڈ کی خصوصیات اور سیٹنگ

📝 راہی حجازی

اردو لکھنے کے باب میں تقریبا تمام ہی کیبورڈز استعمال کئے، مگر جو مختلف الجہات خوبیاں ملٹی لنگ او کیبورڈ میں نظر آئیں وہ کسی اور کیبورڈ میں دیکھنے کو نہ ملیں۔جیسے اوٹو ٹیکسٹ فیچر،ذاتی کیبورڈ بنانے کی سہولت، حجم ایک ایم بی سے بھی کم۔ میرے ناقص خیال میں اپنے فیچرز اور گوناگوں خوبیوں کی بنا پہ ملٹی لنگ او کیبورڈ اینڈرائڈ میں سب سے عمدہ کیبورڈ ہے۔ آئیے اسکی انسٹالیشن و سیٹنگ کرتے ہیں

سب سے پہلے کیبورڈ انسٹال کیجئے 👇

My App link (sent via MyAppSharer) - https://play.google.com/store/apps/details?id=kl.ime.oh

یہ اردو ورڈ سجیشن ڈکشنری کا پلگ ان 👇

My App link (sent via MyAppSharer) - MK Urdu Plugin: https://play.google.com/store/apps/details?id=klye.plugin.ur

عربی کی ورڈ سجیشن ڈکشنری بھی انسٹال کرنا چاہتے ہیں تو یہ پلگ ان 👇

My App link (sent via MyAppSharer) - MK Arabic Plugin: https://play.google.com/store/apps/details?id=klye.plugin.ar

اور اگر خالص انگلش بھی لکھتے ہیں اور اسکی بھی ورڈ سجیشن ڈکشنری چاہئے تو یہ رہا پلگ ان 👇

My App link (sent via MyAppSharer) - Language.English: https://play.google.com/store/apps/details?id=klye.plugin.en

یہ اوٹو ٹیکسٹ کا پلگ ان 👇

My App link (sent via MyAppSharer) - AutoText|NextWord: https://play.google.com/store/apps/details?id=klye.usertext

چند باتیں

❶ اوٹو ٹیکسٹ ایک فیچر ہے جس میں بڑے جملے یا بکثرت لکھے جانے والے جملے کوڈ دیکر سیو کئے جاتے ہیں۔ جیسے السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ کا کوڈ  اگر سلام دیں تو صرف سلام لکھنے سے مکمل سلام سجیشن بار پہ نظر آجائے گا۔۔۔۔ پس جن جملوں کو بار بار لکھنے کی ضرورت پیش آتی ہو انکو اوٹو ٹیکسٹ کی پٹاری میں جمع کرنا مفید ہوتا ہے

جمع کرنے کیلئے کیبورڈ کے بالکل نیچے انتہائی بائیں جانب سیٹنگ کا آئیکون بنا ہوا ہوگا اس پہ انگلی رکھیں اور انگلی اٹھائے بغیر بہت سارے اوپشنز میں سے اوٹو ٹیکسٹ کے اوپشن تک انگلی کو ڈریگ کریں، اوٹو ٹیکسٹ تک کھینچتے ہوئے لے جائیں، اوٹو ٹیکسٹ میں جب آپ پہنچ جائیں تو بالکل اوپر دائیں جانب تین نقطے نظر آئیں گے اسے پریس کیجئے، ایڈ ٹیکسٹ آئے گا اسے پریس کیجئے ۔ ایڈ ٹیکسٹ کو پریس کرنے کے بعد دو خانے سامنے آئیں گے، پہلے والے خانے میں کوڈ (مثلا: سلام) لکھنا ہے اور دوسرے والے خانے میں جملہ (مثلا: السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ) لکھنا ہے۔ لیجئے ایک جملہ محفوظ ہوگیا۔ بس اسی طرح جملے محفوظ کرتے چلے جائیے

❷ آپ کے کیبورڈ میں چونکہ سجیشن ورڈز ڈکشنری اون ہے اس لئے جملہ لکھتے وقت جب آپ ایک لفظ مکمل کریں تو اس کے بعد اسپیس پہ انگلی نا ماریں کہ اس میں غلطیاں ہونے کے امکان ہیں۔ لفظ مکمل کرنے کے بعد سامنے سجیشن کی جو پٹی ہے اس میں آپ کا لفظ سامنے دکھ رہا ہوگا اسے پریس کرتے چلیں۔ اور اگر کوئی ایسا نیا لفظ لکھیں جو سجیشن ورڈز ڈکشنری میں نہ ہو تو لفظ لکھنے کے بعد اپنے لکھے ہوئے پہ انگلی ماردیں، وہ محفوظ ہوجائے گا۔ محفوظ ہونے کی علامت لفظ کا پیلے کلر میں ہوجانا ہے

❸ کیبورڈ اگر چھوٹا بڑا کرنا چاہیں تو جو سجیشن بار ہے اسکے بائیں کونے میں انگلی رکھیں اور انگلی کو اٹھائے بغیر اوپر نیچے کھینچیں،کیبورڈ چھوٹا بڑا ہوجائے گا