ایک غیر مسلم کے دو اعتراضات کے جوابات
ازقلم: چاہت محمد قاسمی مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ
ہندوستانی ریل کا نہ کوئی ٹائم ہے، اور نہ کوئی بھروسہ، اگر وقت سے پہلے پہنچو تو یہ لیٹ ہوجاتی ہے اور اگر اتفاقا ذرا بھی لیٹ ہوئے تو یہ رائٹ ٹائم، بلکہ وقت سے پہلے ہی نکل جاتی ہے، اسی لئے میں وقت سے پہلے ہی پہنچ جاتا ہوں، حسب عادت وقت سے بہت پہلے چلا تھا لیکن اسٹيشن تک پہنچ نے کے لئے جس سواری کا سہارا لینا تھا، اس روز وہ لیٹ ہوگئی تھی۔ شیروانی ٹوپی اور کاندھے پر بیگ، میں ایک طرف کھڑا ہوا بور ہو رہا تھا کہ اچانک ایک بائک سوار نے میرے پاس آکر بریک لگائے اور چونکہ شاملی میں ہندو مسلم فساد سے پہلے علاقہ میں نہ کوئی کشیدگی تھی اور نہ تعصب، ایک دوسرے پر اعتماد تھا، اسی لئے تو میں اس صاحب ہیلمٹ بائک ڈرائیور کے پیچھے بلا کسی تحقیق اور سوال کے بیٹھ گیا تھا، ویسے بھی بوریت انسان سے غیر احتیاطی اقدام کرا دیتی ہے۔
اپنے مذہب کے متعلق کچھ بتائے! ہیلمٹ کے پیچھے سے نرم اور ہلکی آواز آئی، اب مجھے احساس ہوا کہ میرا محسن کوئی غیر مسلم ہے، میں نے موقع غنیمت جانا اور اللہ کی وحدانیت پر بولنا شروع کیا۔ آپ کو کہاں جانا ہے؟ اس نے مجھ سے پوچھا، اسٹیشن، میرا مختصر جواب تھا۔ ٹھیک، مجھے جانا تو کہیں اور تھا لیکن پہلے آپ کو چھوڑ دیتا ہوں۔ اس نے اعلی اخلاق کا نمونہ پیش کیا۔
بائک اسٹیشن کے زینوں کے سامنے رکی، میں نے اترکر اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس سے پھر کبھی ملنے کا وعدہ کیا، اس نے کہا: اجی مجھے اسلام مذہب اچھا لگتا ہے، لیکن دو اعتراض ہیں، اگر آپ جواب دیدیں تو مہربانی ہوگی۔
میں نے ایک نگاہ اپنی مطلوبہ ٹرین پر ڈالی جو سامنے ہی نظر آرہی تھی اور لمبا سانس لیا، پھر سیڑھیوں سے ایک جانب ہوتے ہوئے کہا: آپ اعتراض بتائے ان شاء اللہ تعالی آپ کو مطمئن کرنے کی پوری کوشش کروں گا، میری ٹرین سے زیادہ قیمتی آپ کا اسلام کے متعلق اطمینان ہے۔
پہلا اعتراض: مسلمان جیو ہتیا (جانوروں کی قربانی اور ذبح) بہت کرتے ہیں؟ …… احباب! ایک بات سمجھ لیں یہاں کوئی نقلی دلیل نہیں چلنی تھی کہ میں قرآن و حدیث سے دلائل دیتا، جو اللہ نے ذہن میں ڈالا، میں ان کو کہتا گیا۔
دیکھو بھائی! اللہ تعالی نے دنیا میں بہت سے جانور، پیڑ، پودے، پھل پھول بنائے ہیں، لیکن ان میں سب سے اہم انسان کو پیدا کیا ہے، اور دنیا کی ہر چیز کو انسان کے لئے پیدا کیا۔ اس کے سر کو اثبات میں ہلتا ہوا دیکھ کر میں نے سلسلہ کلام جاری رکھا، اور کہا: جب آپ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کائنات کی تمام چیزیں انسان کے فائدے کے لئے بنائی ہیں تو پھر یہ بھی جان لیجئے کہ کا اللہ نے انسان کے لئے جس چیز کا فائدہ جہاں دیکھا اس کو وہاں استعمال کرنے کی اجازت دی ہے، لہذاٰ بعض جانور سواری کے لئے، بعض جانور مال برداری کے لئے اور کچھ جانور کھانے کے لئے پیدا کئے ہیں۔ پھر جب پیدا کرنے والے نے اجازت دی ہے تو ہم اس کو غلط بتانے والے کون ہوتے ہیں؟
؞ بھائی! لوگ ہم پر جیو ہتیا کا الزام لگاتے ہیں لیکن آپ بتائے آج اس سے کون محفوظ ہے، یہ جو سبزیاں، پھل اناج اور چاول ہم کھاتے ہیں ان کو پیدا کرنے کے لئے بہت سی دوائی کا استعمال کیا جاتا ہے، جو ان کے پودوں پر پیدا ہونے والے لاکھوں جیووں کو قتل کردیتی ہے، بعد ازاں ان کو محفوظ رکھنے والی دوائی بھی کتنے جانوروں کی جان لے لیتی ہے، نیز ان پودوں، درختوں، پھلوں، پھولوں اور گندم چاول پر مھلک دوائی چھڑکنے والے صرف مسلمان ہی نہیں ہوتے ۔ پھر مسلمانوں کو جیو ہتیا کا طعنہ کیوں؟؟
؞ آج ہماری وجہ سے ان جانوروں کی قدر ہوتی ہے، ورنہ جب کوئی بھینس گائیں دودھ دینے سے بھاگتی تو وہ کسی کے گھر نہیں بلکہ سڑکوں پر بے کار نظر آتی، اور پھر یہ لہلاتے کھیت نظر نہ آتے اور آپ خود اپنے ہاتھ سے ان کو قتل کرتے اور ان کی نعشیں جگہ جگہ سڑتی اور بیماریاں پھیلاتیں ، اسی طرح مرغی، بکری، بکرا، مچھلیاں اور ایسے ہی ہر وہ جانور جو اپ لوگوں کے استعمال میں نہیں آتا ہے لیکن پھر بھی وہ سب غیر مسلمون کے گھر نظر آتے ہیں، آخر کیوں؟اس وجہ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم جیون لیتے نہیں جیون دیتے ہیں۔ اور پھر آپ بھی تو ہمارے ساتھ برابر کے شریک ہیں کہ جانتے ہوئے بھی اپنا جانور مسلمانوں کے ہاتھ فروخت کر دیتے ہیں ۔
اس کی گردن بار بار اثبات میں ہلتی رہی اور میرا حوصلہ بڑھاتی رہی، نیز اس نے کہا واقعی ہم جیو ہتیا سے نہیں بچ سکتے ہیں چونکہ آج سائنس کہتا ہے کہ 100 گرام دہی میں لاکھوں جیو ہوتے ہیں۔
مجھے پھر موقع ملا اور میں نے کہا: جناب من! آپ مجھے بتائے آپ کے مطابق دودھ نکالنا ہی کونسا شریفوں کا کام ہے، اس میں بھینس گائے کے بچہ کا حق چھین کر اور بھینس گائے کے ایسی جگہ ہاتھ لگا کر دودھ نکالتے ہیں کہ انسان عورت کے اس حصہ کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتا ہے۔
الحمدلله تعالی وہ اس اعتراض سے پوری طرح مطمئن ہوا تو استفسار پر آگے بولا:
اعتراض نمبر دو: مجھے مسلمانوں کے زیادہ بچوں پر اعتراض ہے کہ مسلمانوں کے یہاں بہت بچے ہوتے ہیں۔
میں نے مسکراکر اس کی طرف دیکھا اور کہا: یار! عجیب بات کرتے ہو، جانور کو بچانے کے لئے اتنی کوشش اور اللہ تعالی نے جانور کو جس انسان کے لئے پیدا کیا ہے، اس کو پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کردینا چاہتے ہو۔۔
واللہ اس جملہ سے اس کا چہرا اتنا شرمندہ ہوا کہ مجھے آج بھی محسوس ہوتا ہے گویا میرے سامنے ہے۔
میں نے اس سے پوچھا: آپ کتنے بہن بھائی ہیں؟ جواب ملا چار۔ میں نے کہا: اگر آپ کے والدین نے بھی فیملی پلانگ کرلی ہوتی تو شاید آج ہماری ملاقات نہ ہوتی۔
اپنے بعد والے سوال پر وہ بہت شرمندہ ہوا اور اس نے کہا کہ میں یہ بات اپنے گرو جی سے بتاؤں گا، گرو جی نے ہی مجھے اسلام پر دو اعتراض بتائے تھے۔
اس کی اس بات سے معلوم ہوا کہ حقیقت حال کیا ہے۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی