عصری علوم اور مسلمانوں کا مستقبل، ماضی اور حال
از قلم: چاہت محمد قاسمی مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ
میں نہیں جانتا آپ کو کیسا لگتا ہوگا جب کوئی مسلمانوں کو پس ماندہ جاہل اور ان پڑھ کہتا ہے۔ مجھے تو بہت ہی برا لگتا ہے۔ لیکن غور کرنے پر یہ بات درست اور بالکل صحیح معلوم ہوتی ہے۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ وہ لوگ بھی مسلمانوں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں جن کا ماضی علوم و فنون سے کوسوں دور تھا، ہندوستان میں اگر اسلام کے آنے سے پہلے کی بات کریں تو ان لوگوں کے علوم و فنون ایک نام نہاد قوم تک محدود تھے، اور وہ لوگ اپنے علوم و فنون کو پردوں میں چھپا کر رکھتے تھے حالانکہ وہ کوئی علوم نہ تھے بلکہ کچھ اشلوک، ٹونے ٹوٹکے اور جنتر منتر تھے۔ لیکن اسلام ہندوستان میں آیا تو انسانیت کا صحیح نمونہ پیش کیا، ہر انسان کو برابری اور یکسانیت کا درجہ ملا، علم کو پانی اور ہواؤں کی طرح عام کیا جس کا مشاہدہ اگر آپ کرنا چاہتے ہیں تو جائے 80 سال کے کسی بھی بوڑھے بزرگ سے معلوم کرئے کہ اس نے کیسے پڑھا؟ میں یقین سے کہتا ہوں 80٪ آپ کو ایسے مل جائیں گے جن کے اساتذہ مسلمان ہونگے، تو وہ قوم جن کو تعلیمی آشنائی مسلمانوں کے ذریعہ حاصل ہوئی وہ بھی آج مسلمانوں پر انگلی اٹھا کر کہتی ہے، کہ مسلمان جاہل ہیں، اور کڑوا سچ یہی ہے کہ ان کا دعوی بر حق ہے، اور ان کی باتیں اگر چہ تلخ ہیں لیکن حقیقت پر مبنی ہیں۔
وہ مسلمان جن کے لئے علم جینے سے زیادہ ضروری تھا، جن مسلمانوں نے پوری دنیا میں علم کو پھیلایا، جن مسلمانوں میں محقق، اسکالر، پروفسر، اور سائنسدان سب سے زیادہ پیدا ہوئے، جن مسلمانوں کا ماضی علوم و فنون کے اعتبار سے تابناک تھا، وہ مسلمان آج علم سے کوسوں دور، جہالت کا میڈل لئے مزدوریاں کرتے پھرتے ہیں اور پسماندہ قوم سے بھی بدتر کہلائے جاتے ہیں۔
مسلمانو! یہ مت بھولو علم کے باب میں آج بھی آپ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہزاروں حدیثیں زندہ و پائندہ ہیں جو ہمیں علوم حاصل کرنے کی دعوت دیتی ہیں، جو ہمیں جہالت سے دور رہنے کی تلقین کرتی ہیں، اور ہندوستان میں بہت پرانی اور بڑی بڑی یونورسٹیاں ہمیں ہمارا تابناک اور روشن تعلیم یافتہ ماضی یاد دلا رہی ہیں، اور بتا رہی ہیں کہ ہندوستان کو تہذیب و تمدن، علم و معرفت تمہارے آباؤ اجداد کی دین ہے۔
دل مزید خون کے آنسو یہ سوچ کر روتا ہے کہ آئندہ بھی مسلمانوں کے تعلیم یافتہ ہونے کی کوئی امید نہیں ہے، ہر چھوٹے بڑے گاؤں اور شہر کے باہر غیر مسلموں کے بہت سے اسکول کالج خوب صورت جدید انداز سے بنے ہوئے آپ کو نظر آجائیں گے، ان کے بزنس مین تعلیمی عمارتوں پر پیسہ لگا رہے ہیں، زمین دار زمین بینچ کر تعلیمی آشیانے نئے طرز سے بنا کر اپنے روپئے اور تعلیم کو کئی گنا کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں، لیکن مجھے نظر نہیں آتا کہ مسلمان بزنس مین یا کسی صاحب حیثیت نے کہیں کوئی اسکول یا کالج قائم کیا ہو، یہ سمجھ لیجئے اگر آپ کا اسکول یا کالج نہیں ہے تو پھر آپ دنیوی علوم سے آراستہ بھی نہیں ہوسکتے ہیں کہاوت ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔
اگر آپ میری بات سمجھ رہے ہیں اور اپنی اولاد کو ہندوستان میں غیروں کا غلام نہیں بنانا چاہتے ہیں تو پھر آپ جدید طرز کے اپنے اسکول اور کالج بنائیں جن میں آپ کے بچے پراتھنا نہیں بلکہ مناجات پڑھیں، غیریت نہیں اپنائیت محسوس کریں۔ جہاں لاٹھی اور بھینس دونوں آپ کی ہوں، جن میں عزت، دولت اور شہرت کے ساتھ اشاعت علوم کا سہرا بھی آپ کے سر سجے ۔ دین کی اشاعت کے لئے اھل مدارس کوشاں ہیں، عصری علوم کے لئے ہمیں بہت سے افراد کی ضرورت ہے، تو پھر بڑھائیں قدم اور کریں شروعات۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی
No comments:
Post a Comment