Friday, 23 October 2015

ان لوگوں کے لئے جو مدارس کے نصاب پر انگلی اٹھاتے ہیں۔

مدارس کا نصاب بدلنے کو کیوں کہتے ہو؟

ازقلم: چاہت محمد قاسمی مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ

جب کوئی قوم مغلوب ہوتی ہے، اور کسی قوم کی غلام بن جاتی ہے، تو صرف اس قوم کے جان و مال اور عزت و آبرو ہی دوسری قوم کے زیر تسلط نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کی ہر چیز حتی کہ عقل اور جذبات بھی غالب قوم کے غلام ہوجاتے ہیں، اور جب آہستہ آہستہ مغلوب قوم کا دماغ غالب قوم کے تابع ہوجاتا ہے، تو مغلوب قوم  اپنا کلچر، اپنا کردار اور اپنے اصول بھول کر غالب قوم کی نقل کرنے لگتی ہے۔ گوکہ کبھی جسمانی آزادی نصیب ہو بھی جاتی ہے تاہم ذہنی آزادی اور خود اعتمادی کبھی بھی حاصل نہیں ہو پاتی ۔ یاد رکھئے ذہنی غلامی اور غیر اعتمادی جسمانی غلامی سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہیں ۔
اسی چیز کو ہمارے اکابر نے پرکھا اور سمجھا تھا، اور اسی ذہنی غلامی اور غیر اعتمادی سے حفاظت کے لئے مدارس کا جال بچھا کر مسلمانوں کے لئے مضبوط قلعے اور محفوظ حصار فراہم کئے تھے، مسلمانوں کے ذہنوں کو غلام بننے سے بچانے کی کوشش کی تھی، اور مسلمانوں میں خود اعتمادی قائم رکھنے کی کوشش کی تھی، اسلامی کلچر، اسلامی لباس، اسلامی انداز، اسلامی کردار باقی رکھنے کی کوشش کی تھی، اور الحمدللہ وہ اس میں پوری طرح کامیاب بھی ہوئے، جس کی زندہ مثال آج بھی ہمارے سامنے ہے۔
اور ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ آج جس کگار اور جس لب سمندر امت کھڑی ہانپ رہی ہے، مسلمان فرسودہ حال اپنی خود اعتمادی کھو چکے ہیں، اور مسلم قوم کے اذہان غیروں کی غلامی کے سلاسل میں جکڑے ہوئے ہیں، ایسے میں مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ پھر سے مدارس کے ڈھانچوں کو مضبوط کیا جائے اور پھر سے ان مدارس کو دین کے آہنی حصار اور مضبوط قلعوں میں تبدیل کیا جائے، لیکن یاد رکھئے اگر آپ اپنے اندر اسلامی انداز کی خود اعتمادی چاہتے ہیں، اور اپنے ذہنوں کو غیروں کی غلامی سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو خدارا ان مدارس کو مدارس ہی رہنے دیجئے ورنہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں آپ کا نصاب میں تبدیلی کا نعرہ ان مدارس کا ڈھانچہ ہی تبدیل نہ کردے اور پھر کہیں

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
ادھر کے رہے، نہ ادھر کے صنم

کے مصداق بن جائیں، میں جزوی تبدیلیوں سے انکار نہیں کرتا وہ آپ اپنے علاقہ کے مدارس میں بھی کر سکتے ہیں، لیکن بہت سے لوگوں کے ارادے نیک نظر نہیں آتے ہیں وہ چاہتے ہیں کلی طور پر مدارس کے نصاب کو تبدیل کر دیا جائے گویا مدارس کا ڈھانچہ بدل کر اس کو یونورسٹی یا کالج کی شکل دیدی جائے، کہ یہ مدارس محض نام کے مدارس رہیں۔ اگر ایسا ہوا تو پھر خدا جانے کیا ہوگا۔
میں تو صرف آپ کی توجہ اس طرف  دلانا چاہتا ہوں: کہ مدارس کہتے ہی ان کو ہیں جہاں دین کی تعلیم ہو، جہاں پیوند لگے ہوئے خرقہ پوش بستے ہوں، جو بورئے پر بیٹھ کر خدا کا دین سیکھتے اور سکھاتے ہوں، جو دنیا کے اعتبار سے فقیر، غریب اور حقیر ہوں، لیکن دین کے اعتبار سے مالدار، سخی اور امیر ہوں، اور جن کو اپنے مستقبل کی نہیں امت کی حالت کی فکر ہو، جو اپنے لئے نہیں غیروں کے لئے روتے ہوں، جو اپنے لئے نہیں دوسروں کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہو، جن کا کھانا پینا محض توکل علی اللہ پر چلتا ہو۔
اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ عصری تعلیم اس وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اس کو بھی ضرور حاصل کرنا چاہئے تو میں آپ کا مخالف نہیں ہوں بلکہ آپ کے ساتھ اس موڑ پر بھی کھڑا ہوا نظر آؤنگا لیکن اس کے لئے اسکول کالج کھولے جاسکتے ہیں، اس کے لئے الگ سے محنت اور کوشش کی جاسکتی ہے، بھلا مدارس کا نصاب کیوں تبدیل کرانا چاہتے ہیں۔
پھر یہی کہنا پڑتا ہے: گھر والی پر بس چلتا نہیں جا کے ملا کے کان اینٹھ دئے ، خود کچھ کرسکتے نہیں یا کرنا نہیں چاہتے بس اپنی نا اھلی کو اھل مدارس کے سر تھوپنے پر لگے ہوئے ہیں۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

Monday, 19 October 2015

عصری علوم کی ضرورت پر ایک اہم مضمون

عصری علوم اور مسلمانوں کا مستقبل، ماضی اور حال

از قلم: چاہت محمد قاسمی مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ

میں نہیں جانتا آپ کو کیسا لگتا ہوگا جب کوئی مسلمانوں کو پس ماندہ جاہل اور ان پڑھ کہتا ہے۔ مجھے تو بہت ہی برا لگتا ہے۔ لیکن غور کرنے پر یہ بات درست اور بالکل صحیح معلوم ہوتی ہے۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ وہ لوگ بھی مسلمانوں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں جن کا ماضی علوم و فنون سے کوسوں دور تھا، ہندوستان میں اگر اسلام کے آنے سے پہلے کی بات کریں تو ان لوگوں کے علوم و فنون ایک نام نہاد قوم تک محدود تھے، اور وہ لوگ اپنے علوم و فنون کو پردوں میں چھپا کر رکھتے تھے حالانکہ وہ کوئی علوم نہ تھے بلکہ کچھ اشلوک، ٹونے ٹوٹکے اور جنتر منتر تھے۔ لیکن اسلام ہندوستان میں آیا تو انسانیت کا صحیح نمونہ پیش کیا، ہر انسان کو برابری اور یکسانیت کا درجہ ملا، علم کو پانی اور ہواؤں کی طرح عام کیا جس کا مشاہدہ اگر آپ کرنا چاہتے ہیں تو جائے 80 سال کے کسی بھی بوڑھے بزرگ سے معلوم کرئے کہ اس نے کیسے پڑھا؟ میں یقین سے کہتا ہوں 80٪ آپ کو ایسے مل جائیں گے جن کے اساتذہ مسلمان ہونگے، تو وہ قوم جن کو تعلیمی آشنائی مسلمانوں کے ذریعہ حاصل ہوئی وہ بھی آج مسلمانوں پر انگلی اٹھا کر کہتی ہے، کہ مسلمان جاہل ہیں، اور کڑوا سچ یہی ہے کہ ان کا دعوی بر حق ہے، اور ان کی باتیں اگر چہ تلخ ہیں لیکن حقیقت پر مبنی ہیں۔
وہ مسلمان جن کے لئے علم جینے سے زیادہ ضروری تھا، جن مسلمانوں نے پوری دنیا میں علم کو پھیلایا، جن مسلمانوں میں محقق، اسکالر، پروفسر، اور سائنسدان سب سے زیادہ پیدا ہوئے، جن مسلمانوں کا ماضی علوم و فنون کے اعتبار سے تابناک تھا، وہ مسلمان آج علم سے کوسوں دور، جہالت کا میڈل لئے مزدوریاں کرتے پھرتے ہیں اور پسماندہ قوم سے بھی بدتر کہلائے جاتے ہیں۔
مسلمانو! یہ مت بھولو علم کے باب میں آج بھی آپ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہزاروں حدیثیں زندہ و پائندہ ہیں جو ہمیں علوم حاصل کرنے کی  دعوت دیتی ہیں، جو ہمیں جہالت سے دور رہنے کی تلقین کرتی ہیں، اور ہندوستان میں بہت پرانی اور بڑی بڑی یونورسٹیاں ہمیں ہمارا تابناک اور روشن تعلیم یافتہ ماضی یاد دلا رہی ہیں، اور بتا رہی ہیں کہ ہندوستان کو تہذیب و تمدن، علم و معرفت تمہارے آباؤ اجداد کی دین ہے۔
دل مزید خون کے آنسو یہ سوچ کر روتا ہے کہ آئندہ بھی مسلمانوں کے تعلیم یافتہ ہونے کی کوئی امید نہیں ہے، ہر چھوٹے بڑے گاؤں اور شہر کے باہر غیر مسلموں کے بہت سے اسکول کالج خوب صورت جدید انداز سے بنے ہوئے آپ کو نظر آجائیں گے، ان کے بزنس مین تعلیمی عمارتوں پر پیسہ لگا رہے ہیں، زمین دار زمین بینچ کر تعلیمی آشیانے نئے طرز سے بنا کر اپنے روپئے اور تعلیم کو کئی گنا کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں، لیکن مجھے نظر نہیں آتا کہ مسلمان بزنس مین یا کسی صاحب حیثیت نے کہیں کوئی اسکول یا کالج قائم کیا ہو، یہ سمجھ لیجئے اگر آپ کا اسکول یا کالج نہیں ہے تو پھر آپ دنیوی علوم سے آراستہ بھی نہیں ہوسکتے ہیں کہاوت ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔

اگر آپ میری بات سمجھ رہے ہیں اور اپنی اولاد کو ہندوستان میں غیروں کا غلام نہیں بنانا چاہتے ہیں تو پھر آپ جدید طرز کے اپنے اسکول اور کالج بنائیں جن میں آپ کے بچے پراتھنا نہیں بلکہ مناجات پڑھیں، غیریت نہیں اپنائیت محسوس کریں۔ جہاں لاٹھی اور بھینس دونوں آپ کی ہوں، جن میں عزت، دولت اور شہرت کے ساتھ اشاعت علوم کا سہرا بھی آپ کے سر سجے ۔ دین کی اشاعت کے لئے اھل مدارس کوشاں ہیں، عصری علوم کے لئے ہمیں بہت سے افراد کی ضرورت ہے، تو پھر بڑھائیں قدم اور کریں شروعات۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

ایک خوبصورت سفر نامہ

میگھالیہ کے دارالحکومت شیلانگ کا ایک سفر

ازقلم: چاہت محمد قاسمی مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ

خوبصورت شہر شیلانگ سطح زمین سے تقریبا پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر ہندوستانی صوبہ میگھالیہ کی کھسی پہاڑیوں کے مغرب میں واقع ہے، کہا جاتا ہے جاتا ہے کہ میگھالیہ کے معنی ہی "بادلوں کا مسکن" ہے، نیز اس کے خوش گوار موسم اور خوبصورتی کی بنا پر اس کو مشرقی اسکاٹ لینڈ بھی کہا جاتا ہے، آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ بنگلہ دیش کے باڈر پر میگھا لیہ کا ایک قصبہ چیرا پونجی دنیا کا سب سے زیادہ بارش والا قصبہ ہے اسی لئے چیرا پونجی کی خوبصورتی سیاحوں کے لئے دلچسپی کا خصوصی مرکز ہے۔ لیکن میگھالیہ کے دارالسلطنت شیلانگ کی خوبصورتی بھی کم نہیں ہے، خاص طور سے یہاں کا خوشگوار و نشاط انگیز موسم، فلک بوس دیدہ زیب عمارتیں، بلند بالا پہاڑ، وسیع سبزہ زار درختوں سے گھری اور بل کھاتی ہوئی سڑکیں، جو کبھی بلندی اور کبھی پستی میں جاتی ہیں، الفینڈہ فالس، ائیر پلین میوزیم، بڑا پانی ڈیم، بلند و بالا فلک بوس پہاڑ اور ان سے نکلنے والے بہت سے آبشارے، نیز خاص طور سے شیشوں سے بنی ہوئی خوبصورت دیدہ زیب مدینہ مسجد وغیرہ سیاحت کے بہترین مقامات سیاحوں کے لئے توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔
- شیلانگ شہر کا موسم بہت خوش گوار اور دل فریب ہوتا ہے، ہلکی ہلکی پھوار، کبھی رم جھم برسات، اور کبھی بہت ہی زیادہ تیز بارش یہاں روز کا معمول ہے، سورج بادلوں کے پیچھے سے دلہن کی ادائے دلنواز کی طرح مکھڑا دکھاتا ہے، اور پھر بے وفا محبوبہ کی طرح بادلوں کے پیچھے گم ہوجاتا ہے، ٹھنڈے ٹھنڈے ہوا کے جھونکے، بارش کی ہلکی سی پھوار، اور سردی کا ہلکا سا احساس اور ایسے خوش گوار موسم میں آئسکریم سبحان اللہ تعالی ہم کئی بار اپنے میزبان سے خواہش ظاہر کرکے لطف اندوز ہوئے ہیں۔
خوبصورت شہر میں حسین محبوبہ کے نشیب و فراز کی طرح اونچے نیچے راستے تھے تو شہر کے باہر سبزہ زار پہاڑیوں کے درمیان سے پیچ در پیچ اونچی نیچی سڑکیں ہیں، آس پاس پہاڑوں سے نکلنے والے آبشاروں کی کہیں آواز سنائی دیتی ہے تو کہیں یہ آبشارے آنکھوں کے ذریعہ دل کو بھلے معلوم ہوتے ہیں، ایسے ہی ایک آبشار سے کار رکوا کر ہم نے پانی پیا تو بہت ہی ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے ذائقہ نے بڑا سکون بخشا۔ ان بل کھاتی ہوئی سڑکوں پر اگر آگے دیکھتے ہیں تو سامنے سے آنے والی گاڑی اور اونچی نیچی سڑکوں سے خوف محسوس ہوتا ہے، نیز اگر دائیں بائیں سبز پوشاک میں ملبوس بادلوں سے گھری ہوئی بلند و بالا پہاڑیوں کو دیکھیں تو بڑی خوبصورت معلوم ہوتی ہیں، لیکن جب دائیں بائیں یہ پہاڑ نہیں ہوتے تو پھر ناظرین اپنے آپ کو بلندی پر اور اپنے دائیں بائیں گہری کھائی کو دیکھ کر بہت خوف محسوس کرتے ہیں، ایسے میں اگر آپ نئے ہیں تو یاد رکھئے ڈرائیور کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کی بھول نہ کریں، ورنہ ہر موڑ پر سامنے سے جب عمیق گہرائی نظر آئے گی تو دل بہت زور سے دھڑکے کا اور حفاظت کی ساری دعائیں یاد آجائیں گی۔
اگر ہم شیلانگ کی آبادی کی بات کریں تو یہاں مقامی لوگوں کی اکثریت ہے جن کو کھسی کہا جاتا ہے، اور یہ مذہبی اعتبار سے کرسچن ہیں، جب کہ  آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ نیپالی ہندؤں پر مشتمل ہے (جن کو دیکھ کر فورا دل میں خیال گذرا: بنگلہ دیشیوں کو نکالنے کا نعرہ لگانے والے حضرات کو کیا ملک کے مختلف علاقوں میں موجود لاکھوں نیپالی نظر نہیں آتے) رہے مسلم تو یہ آبادی تاجروں پر مشتمل ہے جو ملک کے مختلف اضلاع سے جاکر بسے ہیں، اکا دکا مقامی کھسی باشندے بھی مسلمان ہیں، جو داعیان اسلام کی محنت کا نتیجہ ہیں، بازاروں میں باشرع بہت سے افراد کو دیکھ کر دل خوش ہوجاتا ہے۔ مقامی کھسی باشندوں کا ذریعۂ معاش کوئلہ ہے تو مسلمان بازاروں میں تجارت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جب کہ نیپالی حضرات مختلف کاروبار اور مزدوریاں کرتے ہیں۔
غیر مسلموں کی ایک بڑی آبادی جو کرسچن اور ہندؤں پر مشتمل ہے، گائے اور سور دونوں کھاتے ہیں، جب کہ مسلمان گائے کا گوشت تناول کرتے ہیں، کرسچن گائے الگ اور مسلمان الگ کاٹتے ہیں، آپ کو یہ بھی بتادیں کہ یہاں گائے کاٹنے کی سرکاری طور پر اجازت ہے۔ اسی لئے کھلے عام گائیں کاٹی جاتی ہیں، کچھ دن قبل بی جے پی کے امت شاہ میگھالیہ کے دورے پر تھے تو خود انہیں کی پارٹی کے بڑے نیتاؤں نے بیف کھاکر گائے کے ذبیحہ پر پابندی کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
ایک بات اور جو آپ کو حیران کردے گی وہ یہ ہے کہ یہاں مقامی کھسی باشندگان میں لڑکی کی ولادت کو پسند کیا جاتا ہے، لڑکی کو وراثت دی جاتی ہے، جب کہ لڑکے محروم رہتے ہیں اور مزید عجیب بات یہ ہے کہ لڑکے ہی وداع ہوکر سسرال جاتے ہیں، مرد گھر میں کھانا بناتے اور بچے کھلاتے ہیں جب کہ عورت آفس، بازار، دکان اور دیگر پبلک پلیس پر نیم عریاں نظر آتی ہیں۔
کرسچن کی آبادی کی اکثریت ظاہر کرنے کے بعد یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ بے شرمی، بے حیائی، عریانیت اور فحاشی بہت زیادہ ہے، گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کھلے عام روز تبدیل کئے جاتے ہیں، بغیر شادی کی ولادت غیر معیوب ہی نہیں بلکہ ایک رواج ہے، ایک ٹیکسی کے ڈرائیور نے بتایا کہ یہاں ولادت کے بعد ہی اکثر شادی ہوتی ہے جس کی تصدیق ہمارے میزبان نے بھی کی ہے۔
یہاں شراب کی دکان کے لئے پرمیشن، پرمٹ یا کسی اجازت کی ضرورت نہیں پڑتی ہے، اسی لئے ہر مارکیٹ ہر بازار میں ہر چہار قدم پر آپ کو بہت سی شراب کی دکانیں مل جائیں گی، نیز جوان بوڑھے مردوں کے ساتھ ادھیڑ عمر عورتیں اور نوخیز دوشیزائیں بھی شراب نوشی کرتی ہوئی نظر آجائیں گی۔

زائرین کے لئے جہاں بہت سے مقام مرکز توجہ ہیں وہیں شیلانگ کی مدینہ مسجد بھی بہت ہی خوبصورت اور دل کو لبھانے والی ہے، 120 فٹ اونچی 60 فٹ چوڑی یہ مسجد چھت کے سوا پوری سبز شیشے سے بنائی گئی ہے، جس میں تقریبا 2000 ہزار نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شیشے سے بنی ہوئی ہندوستان کی یہ واحد مسجد ہے، جدید قسم کی اس مسجد کا افتتاح 2012ء میں کیا گیا تھا۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی