مدارس کا نصاب بدلنے کو کیوں کہتے ہو؟
ازقلم: چاہت محمد قاسمی مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ
جب کوئی قوم مغلوب ہوتی ہے، اور کسی قوم کی غلام بن جاتی ہے، تو صرف اس قوم کے جان و مال اور عزت و آبرو ہی دوسری قوم کے زیر تسلط نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کی ہر چیز حتی کہ عقل اور جذبات بھی غالب قوم کے غلام ہوجاتے ہیں، اور جب آہستہ آہستہ مغلوب قوم کا دماغ غالب قوم کے تابع ہوجاتا ہے، تو مغلوب قوم اپنا کلچر، اپنا کردار اور اپنے اصول بھول کر غالب قوم کی نقل کرنے لگتی ہے۔ گوکہ کبھی جسمانی آزادی نصیب ہو بھی جاتی ہے تاہم ذہنی آزادی اور خود اعتمادی کبھی بھی حاصل نہیں ہو پاتی ۔ یاد رکھئے ذہنی غلامی اور غیر اعتمادی جسمانی غلامی سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہیں ۔
اسی چیز کو ہمارے اکابر نے پرکھا اور سمجھا تھا، اور اسی ذہنی غلامی اور غیر اعتمادی سے حفاظت کے لئے مدارس کا جال بچھا کر مسلمانوں کے لئے مضبوط قلعے اور محفوظ حصار فراہم کئے تھے، مسلمانوں کے ذہنوں کو غلام بننے سے بچانے کی کوشش کی تھی، اور مسلمانوں میں خود اعتمادی قائم رکھنے کی کوشش کی تھی، اسلامی کلچر، اسلامی لباس، اسلامی انداز، اسلامی کردار باقی رکھنے کی کوشش کی تھی، اور الحمدللہ وہ اس میں پوری طرح کامیاب بھی ہوئے، جس کی زندہ مثال آج بھی ہمارے سامنے ہے۔
اور ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ آج جس کگار اور جس لب سمندر امت کھڑی ہانپ رہی ہے، مسلمان فرسودہ حال اپنی خود اعتمادی کھو چکے ہیں، اور مسلم قوم کے اذہان غیروں کی غلامی کے سلاسل میں جکڑے ہوئے ہیں، ایسے میں مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ پھر سے مدارس کے ڈھانچوں کو مضبوط کیا جائے اور پھر سے ان مدارس کو دین کے آہنی حصار اور مضبوط قلعوں میں تبدیل کیا جائے، لیکن یاد رکھئے اگر آپ اپنے اندر اسلامی انداز کی خود اعتمادی چاہتے ہیں، اور اپنے ذہنوں کو غیروں کی غلامی سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو خدارا ان مدارس کو مدارس ہی رہنے دیجئے ورنہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں آپ کا نصاب میں تبدیلی کا نعرہ ان مدارس کا ڈھانچہ ہی تبدیل نہ کردے اور پھر کہیں
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
ادھر کے رہے، نہ ادھر کے صنم
کے مصداق بن جائیں، میں جزوی تبدیلیوں سے انکار نہیں کرتا وہ آپ اپنے علاقہ کے مدارس میں بھی کر سکتے ہیں، لیکن بہت سے لوگوں کے ارادے نیک نظر نہیں آتے ہیں وہ چاہتے ہیں کلی طور پر مدارس کے نصاب کو تبدیل کر دیا جائے گویا مدارس کا ڈھانچہ بدل کر اس کو یونورسٹی یا کالج کی شکل دیدی جائے، کہ یہ مدارس محض نام کے مدارس رہیں۔ اگر ایسا ہوا تو پھر خدا جانے کیا ہوگا۔
میں تو صرف آپ کی توجہ اس طرف دلانا چاہتا ہوں: کہ مدارس کہتے ہی ان کو ہیں جہاں دین کی تعلیم ہو، جہاں پیوند لگے ہوئے خرقہ پوش بستے ہوں، جو بورئے پر بیٹھ کر خدا کا دین سیکھتے اور سکھاتے ہوں، جو دنیا کے اعتبار سے فقیر، غریب اور حقیر ہوں، لیکن دین کے اعتبار سے مالدار، سخی اور امیر ہوں، اور جن کو اپنے مستقبل کی نہیں امت کی حالت کی فکر ہو، جو اپنے لئے نہیں غیروں کے لئے روتے ہوں، جو اپنے لئے نہیں دوسروں کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہو، جن کا کھانا پینا محض توکل علی اللہ پر چلتا ہو۔
اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ عصری تعلیم اس وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اس کو بھی ضرور حاصل کرنا چاہئے تو میں آپ کا مخالف نہیں ہوں بلکہ آپ کے ساتھ اس موڑ پر بھی کھڑا ہوا نظر آؤنگا لیکن اس کے لئے اسکول کالج کھولے جاسکتے ہیں، اس کے لئے الگ سے محنت اور کوشش کی جاسکتی ہے، بھلا مدارس کا نصاب کیوں تبدیل کرانا چاہتے ہیں۔
پھر یہی کہنا پڑتا ہے: گھر والی پر بس چلتا نہیں جا کے ملا کے کان اینٹھ دئے ، خود کچھ کرسکتے نہیں یا کرنا نہیں چاہتے بس اپنی نا اھلی کو اھل مدارس کے سر تھوپنے پر لگے ہوئے ہیں۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی