Sunday, 22 November 2015

مسلمانوں کی تعلیمی زبوحالی اور اس کے علاج پر ایک شاندار تحریر

دن پلٹ آئیں گے، بے شک پلٹ آئیں گے، مگر

چاہت محمد قاسمی

ایک زمانہ تھا جب مسلمان علوم حاصل کرنے کے لئے ہزارہا میل کا سفر طے کرتے تھے ، بھوکے، پیاسے بے آسرا چٹیل میدانوں کی خاک چھانتے، پر خطر جنگلات کی زمین ناپتے، سمندر کی گہرائی اور خشکی کی طوالت کو علمی تحصیل کے واسطے عبور کرنا اپنی سعادت سمجھتے تھے ، گھر کھانا، پانی، دانا، دلیہ کچھ نہ ہوتا، شب و روز گھر میں چولہا نہ نیوارا پیٹ کی آگ درختوں کے پتے کھاکر بجھانا گوارا کرتے لیکن جہالت کے داغوں کے ساتھ رہنا نیز علوم و فنون اور معرفت سے دور ہونا برداشت نہ کرتے۔ نہ موٹر تھی نہ گاڑی، نہ جہاز تھا نہ ریل، گھنٹوں کا سفر دنوں میں طے ہوتا، دنوں کا سفر  مہینوں میں پورا ہوتا، جوق در جوق، قافلے اور ٹولیوں کی شکل میں سفر کیا جاتا، رہزنی، لوٹ مار، اور ڈاکوؤں کا ہر قدم پر خطرہ رہتا، ہر سفر معرض خطر میں ہوتا، لیکن تمام خطرات، خدشات، تشویشات، اور مصائب و آلام کے باوجود بھی تشنگان علوم اپنی تشنگی بجھانے، علوم و فنون اور معرفت الہی سے آراساتہ ہونے کے لئے گاؤں گاؤں، کوچہ کوچہ، قریہ قریہ، ڈگر ڈگر، شہر شہر خاک چھان کر کسی بھی ماہر اور حاذق کی خدمت میں پہنچ کر اپنی تشنگی دور کرتے۔ یہیں وجہ تھی کہ آج سے تقریبا دوسو سال قبل کی تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ محقق، مدقق، اسکالر، جغرافیہ داں، طبیب، ڈاکٹر اور سائنس داں اسلام میں پیدا ہوئے،اسی مذہب کے آغوش میں ہی تراشے، خراشے اور تربیت دیکر پروان چڑھائے گئے تھے۔
لیکن آج کیا ہوا کہ مسلمان علوم و فنون اور معرفت الہی سے دور بہت دور ہوکر جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں اور عمیق کنویں میں جاگرے ہیں؟؟ نہ دینی علوم سے آراستہ ہیں اور نہ ہی عصری علوم سے پیراستہ ہیں، نہ طاقت ہے نہ زیور، نہ شجاعت ہے نہ لیاقت ، آخر کیا ہوا ان مسلمانوں کو؟

قارئین کرام!!! ذرا غور کیجئے! ایک وہ دن تھا جب مسلمان علوم و فنون کے لئے مر مٹتے تھے اور ایک آج ہیں کہ انکی حالت زار پر رونا آتا ہے، دل دکھی ہوجاتا ہے۔ ؎

سیاہ رات میں جلتے ہیں جگنوؤں کی طرح
دلوں کے زخم بھی محسن کمال ہوتے ہیں

کہتے ہیں کہ ہر قوم کا مستقبل قوم کے بچے ہی ہوتے ہیں تو پھر آئیے میں آپ کو مسلمانوں کا مستقبل دکھاتا ہوں، اور ان کی ذلت و پستی سے بھر پور آنے والے کل کی آج ہی ایک تلخ لیکن حقیقت پر مبنی تصویر دکھاتا ہوں، وہ مجھے کہاں اور کیسا نظر آیا ہے۔ میں نے دیکھا:
پرا گندہ بوسیدہ لباس، بے ترتیب گرد آلود بال، خاک آلود چہرہ، گرد و غبار سے اٹے گال، اور بھیک مانگنے کا عجیب انداز، جو پیچھے لگ جائے تو مقناطیس کی طرح چپک جائے، کسی ہم دم دیرینہ کی طرح اس وقت تک ساتھ نہ چھوڑے جب تک زبردستی بھیک کسی ٹیکس کی طرح وصول نہ کرلے، تقریبا دس گیارہ سال کا بھکاری یہ بچہ یقینا مسلمان ہی ہوگا جو آپ کو کسی بھی گلی گلیارے اور چوراہے کے علاوہ کسی بھی بس اسٹینڈ اور ریلوے اسٹیشن پر مل جائے گا۔ گلی گلیاروں اور چوراہوں پر کھیلتے اور ماں، بہن، بیٹی حتی کہ نانی، دادی تک کا نام لیکر گالی گلوچ کرتے اور مغلظات بکتے یہ بچے مسلمان ہی تھے؛ میں نے یہ بھی نظارہ دیکھا۔ گاؤں، دیہاتوں، شہر قصباتوں کے خالی پلاٹوں اور میدانوں میں کھیلتے اور آوارہ گردی کرتے یہ بچے بھی مسلمانوں کے ہی ہوتے ہیں؛ میں آپ کو یہ بھی دکھاتا ہوں کہ جنگلات، کھیت، کھلیانوں میں کھانا لے جانے والے اور ذرا بہانے سے اپنا مستقبل تباہ کرنے والے یہ بچے بھی مسلمانوں کے ہی ہوتے ہیں؛ میں آپ کو یہ بھی بتلا دیتا ہوں کہ چھوٹے بڑے ہوٹلوں اور چائے کی دکانوں میں بھی برتن دھوتے ہوئے یہ بچے مسلمانوں کے ہی نظر آتے ہیں؛ اور اس کڑوے سچ سے بھی رو گردانی نہیں کی جا سکتی ہے کہ جیل، کچہری کے؛ پروانوں کی طرح چکر لگاتے یہ جوان بچے بھی مسلمان ہی دکھائی دیتے ہیں، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہسپتالوں میں علاج کراتے ہوئے یہ بچے  بھی مسلمانوں کے ہی نظر آتے ہیں، گندگیوں، اور کوڑیوں پر پرانی پلاسٹک، پولوتھین اور دیگر بوسیدہ چیزیں تلاش کرتے بچوں کے نام بھی اسلامی ہی سنائی دیتے ہیں۔
اف کیا کہوں۔ ایک مسلمانوں کا سنہرا کل تھا جب لوگ ہمارے تہذیب و تمدن، آداب و سلیقہ کی مثالیں دیا کرتے تھے، حسن کردار، حسن اخلاق، اور خوبصورت انداز کی قسمیں کھایا کرتے تھے، لیکن ایک آج ہے جس میں لوگ مسلمانوں کی جہالت، علوم و فنون سے نا آشنائی کا تذکرہ کرتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں۔
ایک دور تھا جب مسلمانوں کا نصب العین علوم و فنون میں مہارت اور میدان جہاد میں شجاعت تھا اور ایک آج ہے جس میں جہالت، تاریکی، بدنصیبی، پستی اور پسماندگی مسلمانوں کا نصیب بن گئی ہے۔ خدارا اپنی اولاد کے مستقبل کی کچھ تو فکر کیجئے، اور دس دس بیس بیس روپئے پر اپنی اولاد کی زندگی برباد نہ کیجئے، اس کا بھی لحاظ کیجئے اور یہ بھی یاد رکھئے کہ یہ بچے صرف آپ کے نہیں بلکہ پوری امت کے ہیں، اگر یہ جاہل تو امت بھی جاہل، اگر یہ عالم تو امت بھی صاحب علم کہلائے گی، اگر یہ پسماندہ پچھڑے ہوئے بنیں گے تو صرف یہی نہیں بلکہ پوری امت اور اھل اسلام پسماندہ اور پچھڑے ہوئے کہلائے جائیں گے، اسی لئے میں دست بستہ عرض کرتا ہوں، اور آپ سبھی والدین سے درخواست کرتا ہوں کہ بھوکے پیٹ سوجائے، پرانے کپڑوں میں گذارا کر لیجئے، چھوٹے مکان میں بسر کر لیجئے لیکن اپنی اولاد کو پسماندہ، پچھڑا ہوا مت بنائے، انہیں تعلیم ضرور دیجئے، اسلامی کردار، حسن گفتار، اعلی اخلاق اور بہترین انداز سکھائے، دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم اور حسب موقع فنون سے بھی آگاہی ضروری ہے۔ بعد ازاں ان شاء اللہ تعالی آپ حضرات خود اس کے ثمرات کا مشاھدہ کریں گے۔
راہی حجازی نے کیا بر موقع اور بر محل شعر کہا ہے۔

دن پلٹ آئیں گے، بے شک پلٹ آئیں گے، مگر
علم کے پودے ہمیں ہر سو لگانے ہونگے

اللہ اعلی اخلاق اور اعلی کردار عطا فرمائے۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

Saturday, 7 November 2015

چند کتب فتاوی

فتاوی رحیمیہ جلد اول: ایمان و عقائد

فتاوی رحیمیہ جلد دوم: سنت بدعت

فتاوی رحیمیہ جلد سوم: انبیاء اولیاء، علم علماء، حقوق معاشرت

فتاوی رحیمیہ جلد چہارم: طہارت، نماز

فتاوی رحیمیہ جلد پنجم: صفة نماز، قرات، زلة القاری، مفسدات نماز، مکروہات نماز، مسبوق، لاحق، مدرک کے احکام، مریض و مسافر کی نماز، سجدہ سہو سجدہ تلاوت، سنن نوافل، وتر

فتاوی رحیمیہ جلد ششم: متفرقات نماز، تراویح، نماز استسقاء

فتاوی رحیمیہ جلد ہفتم: جنائز، زکوۃ، روزہ

فتاوی رحیمیہ جلد ہشتم: حج، نکاح طلاق عدت

فتاوی رحیمیہ جلد نہم: قسم نذر وقف صلح لقطہ کرایہ ہبہ

فتاوی رحیمیہ جلد دہم: قربانی عقیقہ، کتاب الحظر، میراث فرائض

https://besturdubooks.wordpress.com/2013/09/16/fatawa-rahimiyah/
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

فتاوی عثمانی جلد اول: ایمان عقائد، قرآن حدیث، علم تاریخ تفسیر، دعوت تبلیغ تصوف، ذکر اذکار، معاشرت، سیر مناقب، طہارت نماز جنائز

فتاوی عثمانی جلد دوم: زکوۃ روزہ حج نکاح طلاق قسم نذر وقف

فتاوی عثمانی جلد سوم: شرکت مضاربت، بیوع، کرایہ اجارہ رہن لقطہ غصب، ضمان جہاد امارت سیاست دعوی قضاء، حدود جنایات، صلح وکالت قسمت
https://besturdubooks.wordpress.com/2013/09/28/fatawa-usmani/
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

فتاوی دار العلوم زکریا جلد اول: ایمان و عقائد قرآن و حدیث، تصوف، طہارت

فتاوی دار العلوم زکریا جلد دوم: نماز

فتاوی دار العلوم زکریا جلد سوم: زکوۃ حج روزہ نکاح

فتاوی دار العلوم زکریا جلد چہارم: طلاق قسم نذر قصاص حدود وقف
https://urdubookdownload.wordpress.com/2012/02/23/fatawa-darul-uloom-zakariyya-by-shaykh-mufti-riza-ul-haq/
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

احسن الفتاوی جلد اول: ایمان و عقائد، علم و علماء، قرآن و حدیث، احسان و سلوک و تصوف

احسن الفتاوی جلد دوم: طہارت و نجاست، مسح و حیض، اذان نماز و صلوۃ

احسن الفتاوی جلد سوم: نماز و صلوۃ، امامت و جماعت، مسبوق و لاحق، وتر و نوافل

احسن الفتاوی جلد چہارم: قضاء نمازیں، سجدہ سہو و تلاوت، مریض مسافر کی نماز، جمعہ عیدین، جنائز، شہید، زکوۃ، روزہ  صوم، حج

احسن الفتاوی جلد پنجم: نکاح، رضاعت، طلاق خلع ظہار، عدت ایمان و نذور و قسم، حدود و تعزیر

احسن الفتاوی جلدششم: جہاد مرتد باغی لقطہ شرکت وقف مسجد بیع

احسن الفتاوی جلد ہفتم: سود قمار قرض دین کفالہ حوالہ قضاء دعوی صلح مضاربت ودیعت و عاریت، ہبہ صدقہ، کرایہ اجارہ، غصب شفعہ قسمت، مزارعت مساقات صید ذبائح، قربانی عقیقہ

احسن الفتاوی جلد ہشتم: جائز ناجائز، قرآن کتب مبارکہ، پردہ، لباس وضع قطع، کمائی، کھانا پینا سلام، رسومات، احیاء موات، رہن، جنایت ضمان،قصاص حدود

احسن الفتاوی جلد نہم: متفرقات وصیت، میراث

  https://besturdubooks.wordpress.com/2013/10/13/ahsan-ul-fatawa/
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد اول: ایمانیات، محاسن اسلام، انبیاء کرام، حیات النبی، معراج، حضورﷺ کی خواب میں زیارت، سیر و مناقب، اجتہاد و تقلید، سنت و بدعت، فرق باطلہ

آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد دوم: کفر و شرک و ارتداد، موجبات کفر، قادیانی فتنہ، غیر مسلم سے تعلقات، ختم نبوت و نزول عیسی، علامات قیامت، گناہوں سے توبہ، موت کے بعد کیا، آخرت کی جزاء و سزا، جنت، تعویذ گنڈے اور جادو، جنات، رسومات، توہم پرستی، متفرق مسائل

آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد سوم: طہارت، غسل مسح حیض و نفاس ناخن پالش، پاکی ناپاکی میں تلاوت و اذکار، صلوۃ، احکام مسجد، لاؤڈ اسپیکر، امامت، مقتدی، نماز کے بعد دعا، مسبوق و لاحق، عورتوں کی نماز، وتر و سنن

آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد چہارم: سجدہ سہو، مسافر کی نماز  جمعہ و عیدین، تراویح، نفل نمازیں، سجدہ تلاوت، اورادو وظائف، جنائز، انکھوں کا عطیہ و اعضاء کی پیوند کاری، قرآن کی عظمت و تلاوت، رؤیت ہلال، صوم و اعتکاف

آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد پنجم: زکوۃ، منت و صدقہ، حج و عمرہ، قربانی و عقیقہ، حلال و حرام جانور، بری بحری اور فضائی جانور، قسم نذور

آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد ششم: نکاح، رضاعت، طلاق، خلع، عدت، پرورش، نان و نفقہ، عائلی قوانین

آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد ہفتم: بیوع، غصب حصص و شیئرز، مضاربت و مشارکت، کرایہ و اجارہ، قسطوں کا کاروبار، قرض امانت رشوت، معاملات زندگی، سود، بیمہ انشورنس، انعامی اسکیمیں، کمیشن، میراث و فرائض، وصیت، جہاد، شہید، سیادت

آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد ہشتم: پردہ، اخلاقیات، سلام و مصافحہ، تعلیم، تبلیغ دین،احسان و سلوک و تصوف، خواب و تعبیر، نام، داڑھی، جسمانی وضع قطع، کتاب الحظر و الاباحہ

https://besturdubooks.wordpress.com/2013/09/22/aap-ke-masail-aor-unka-hal/
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

فتاوی دار العلوم دیوبند  - فتاوی دار العلوم دیوبند جلد اول: طہارت

فتاوی دار العلوم دیوبند جلد دوم: نماز

فتاوی دار العلوم دیوبند جلد سوم نماز

فتاوی دار العلوم دیوبند جلد چہارم: نماز

فتاوی دار العلوم دیوبند جلد پنجم: نماز

فتاوی دار العلوم دیوبند جلد ششم: زکوۃ روزہ حج

فتاوی دار العلوم دیوبند جلد ہفتم: نکاح

فتاوی دار العلوم دیوبند جلد ہشتم: نکاح

فتاوی دار العلوم دیوبند جلد نہم: طلاق

فتاوی دار العلوم دیوبند جلد دہم: طلاق

فتاوی دار العلوم دیوبند جلد یازدہم: قسم نذر

فتاوی دار العلوم دیوبند جلد دوازہم: شرکت مضاربت قسمت وقف

  https://besturdubooks.wordpress.com/2013/10/11/fatawa-dar-ul-uloom-deoband/

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

فتاوی مفتی محمود جلد اول: موجود نہیں

فتاوی مفتی محمود جلد دوم: امامت، مسبوق لاحق، نماز کے بعد دعا، سنن نوافل، جمعہ، سجدہ سہو، لباس کے احکام، مسجد کے احکام، احکام سفر، عیدین

فتاوی مفتی محمود جلد سوم: جنائز، زکوۃ عشر خراج، رؤیت ہلال روزہ، حج

فتاوی مفتی محمود جلد چہارم: نکاح

فتاوی مفتی محمود جلد پنجم: نکاح رضاعت،

فتاوی مفتی محمود جلد ششم: طلاق

فتاوی مفتی محمود جلد ہفتم: طلاق فسخ تفریق عدت پرورش نان و نفقہ،

فتاوی مفتی محمود جلد ہشتم: موجود نہیں

فتاوی مفتی محمود جلد نہم: احیاء موات،شراب، شکار، حلال حرام جانور، حدود جنایات، وصیت امانت لقطہ ہبہ عاریت قرض کرایہ اجارہ رہن غصب شفعہ تقسیم، زراعت مساقات، ذبح قربانی عقیقہ

فتاوی مفتی محمود جلد یازدہم: الحظر و الاباحہ، سیاسیات (بہت عمومی کتاب الحظر ہے)

فتای مفتی محمود

https://urdubookdownload.wordpress.com/2011/03/06/fatawa-e-mufti-mahmood/

Friday, 23 October 2015

ان لوگوں کے لئے جو مدارس کے نصاب پر انگلی اٹھاتے ہیں۔

مدارس کا نصاب بدلنے کو کیوں کہتے ہو؟

ازقلم: چاہت محمد قاسمی مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ

جب کوئی قوم مغلوب ہوتی ہے، اور کسی قوم کی غلام بن جاتی ہے، تو صرف اس قوم کے جان و مال اور عزت و آبرو ہی دوسری قوم کے زیر تسلط نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کی ہر چیز حتی کہ عقل اور جذبات بھی غالب قوم کے غلام ہوجاتے ہیں، اور جب آہستہ آہستہ مغلوب قوم کا دماغ غالب قوم کے تابع ہوجاتا ہے، تو مغلوب قوم  اپنا کلچر، اپنا کردار اور اپنے اصول بھول کر غالب قوم کی نقل کرنے لگتی ہے۔ گوکہ کبھی جسمانی آزادی نصیب ہو بھی جاتی ہے تاہم ذہنی آزادی اور خود اعتمادی کبھی بھی حاصل نہیں ہو پاتی ۔ یاد رکھئے ذہنی غلامی اور غیر اعتمادی جسمانی غلامی سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہیں ۔
اسی چیز کو ہمارے اکابر نے پرکھا اور سمجھا تھا، اور اسی ذہنی غلامی اور غیر اعتمادی سے حفاظت کے لئے مدارس کا جال بچھا کر مسلمانوں کے لئے مضبوط قلعے اور محفوظ حصار فراہم کئے تھے، مسلمانوں کے ذہنوں کو غلام بننے سے بچانے کی کوشش کی تھی، اور مسلمانوں میں خود اعتمادی قائم رکھنے کی کوشش کی تھی، اسلامی کلچر، اسلامی لباس، اسلامی انداز، اسلامی کردار باقی رکھنے کی کوشش کی تھی، اور الحمدللہ وہ اس میں پوری طرح کامیاب بھی ہوئے، جس کی زندہ مثال آج بھی ہمارے سامنے ہے۔
اور ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ آج جس کگار اور جس لب سمندر امت کھڑی ہانپ رہی ہے، مسلمان فرسودہ حال اپنی خود اعتمادی کھو چکے ہیں، اور مسلم قوم کے اذہان غیروں کی غلامی کے سلاسل میں جکڑے ہوئے ہیں، ایسے میں مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ پھر سے مدارس کے ڈھانچوں کو مضبوط کیا جائے اور پھر سے ان مدارس کو دین کے آہنی حصار اور مضبوط قلعوں میں تبدیل کیا جائے، لیکن یاد رکھئے اگر آپ اپنے اندر اسلامی انداز کی خود اعتمادی چاہتے ہیں، اور اپنے ذہنوں کو غیروں کی غلامی سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو خدارا ان مدارس کو مدارس ہی رہنے دیجئے ورنہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں آپ کا نصاب میں تبدیلی کا نعرہ ان مدارس کا ڈھانچہ ہی تبدیل نہ کردے اور پھر کہیں

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
ادھر کے رہے، نہ ادھر کے صنم

کے مصداق بن جائیں، میں جزوی تبدیلیوں سے انکار نہیں کرتا وہ آپ اپنے علاقہ کے مدارس میں بھی کر سکتے ہیں، لیکن بہت سے لوگوں کے ارادے نیک نظر نہیں آتے ہیں وہ چاہتے ہیں کلی طور پر مدارس کے نصاب کو تبدیل کر دیا جائے گویا مدارس کا ڈھانچہ بدل کر اس کو یونورسٹی یا کالج کی شکل دیدی جائے، کہ یہ مدارس محض نام کے مدارس رہیں۔ اگر ایسا ہوا تو پھر خدا جانے کیا ہوگا۔
میں تو صرف آپ کی توجہ اس طرف  دلانا چاہتا ہوں: کہ مدارس کہتے ہی ان کو ہیں جہاں دین کی تعلیم ہو، جہاں پیوند لگے ہوئے خرقہ پوش بستے ہوں، جو بورئے پر بیٹھ کر خدا کا دین سیکھتے اور سکھاتے ہوں، جو دنیا کے اعتبار سے فقیر، غریب اور حقیر ہوں، لیکن دین کے اعتبار سے مالدار، سخی اور امیر ہوں، اور جن کو اپنے مستقبل کی نہیں امت کی حالت کی فکر ہو، جو اپنے لئے نہیں غیروں کے لئے روتے ہوں، جو اپنے لئے نہیں دوسروں کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہو، جن کا کھانا پینا محض توکل علی اللہ پر چلتا ہو۔
اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ عصری تعلیم اس وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اس کو بھی ضرور حاصل کرنا چاہئے تو میں آپ کا مخالف نہیں ہوں بلکہ آپ کے ساتھ اس موڑ پر بھی کھڑا ہوا نظر آؤنگا لیکن اس کے لئے اسکول کالج کھولے جاسکتے ہیں، اس کے لئے الگ سے محنت اور کوشش کی جاسکتی ہے، بھلا مدارس کا نصاب کیوں تبدیل کرانا چاہتے ہیں۔
پھر یہی کہنا پڑتا ہے: گھر والی پر بس چلتا نہیں جا کے ملا کے کان اینٹھ دئے ، خود کچھ کرسکتے نہیں یا کرنا نہیں چاہتے بس اپنی نا اھلی کو اھل مدارس کے سر تھوپنے پر لگے ہوئے ہیں۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

Monday, 19 October 2015

عصری علوم کی ضرورت پر ایک اہم مضمون

عصری علوم اور مسلمانوں کا مستقبل، ماضی اور حال

از قلم: چاہت محمد قاسمی مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ

میں نہیں جانتا آپ کو کیسا لگتا ہوگا جب کوئی مسلمانوں کو پس ماندہ جاہل اور ان پڑھ کہتا ہے۔ مجھے تو بہت ہی برا لگتا ہے۔ لیکن غور کرنے پر یہ بات درست اور بالکل صحیح معلوم ہوتی ہے۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ وہ لوگ بھی مسلمانوں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں جن کا ماضی علوم و فنون سے کوسوں دور تھا، ہندوستان میں اگر اسلام کے آنے سے پہلے کی بات کریں تو ان لوگوں کے علوم و فنون ایک نام نہاد قوم تک محدود تھے، اور وہ لوگ اپنے علوم و فنون کو پردوں میں چھپا کر رکھتے تھے حالانکہ وہ کوئی علوم نہ تھے بلکہ کچھ اشلوک، ٹونے ٹوٹکے اور جنتر منتر تھے۔ لیکن اسلام ہندوستان میں آیا تو انسانیت کا صحیح نمونہ پیش کیا، ہر انسان کو برابری اور یکسانیت کا درجہ ملا، علم کو پانی اور ہواؤں کی طرح عام کیا جس کا مشاہدہ اگر آپ کرنا چاہتے ہیں تو جائے 80 سال کے کسی بھی بوڑھے بزرگ سے معلوم کرئے کہ اس نے کیسے پڑھا؟ میں یقین سے کہتا ہوں 80٪ آپ کو ایسے مل جائیں گے جن کے اساتذہ مسلمان ہونگے، تو وہ قوم جن کو تعلیمی آشنائی مسلمانوں کے ذریعہ حاصل ہوئی وہ بھی آج مسلمانوں پر انگلی اٹھا کر کہتی ہے، کہ مسلمان جاہل ہیں، اور کڑوا سچ یہی ہے کہ ان کا دعوی بر حق ہے، اور ان کی باتیں اگر چہ تلخ ہیں لیکن حقیقت پر مبنی ہیں۔
وہ مسلمان جن کے لئے علم جینے سے زیادہ ضروری تھا، جن مسلمانوں نے پوری دنیا میں علم کو پھیلایا، جن مسلمانوں میں محقق، اسکالر، پروفسر، اور سائنسدان سب سے زیادہ پیدا ہوئے، جن مسلمانوں کا ماضی علوم و فنون کے اعتبار سے تابناک تھا، وہ مسلمان آج علم سے کوسوں دور، جہالت کا میڈل لئے مزدوریاں کرتے پھرتے ہیں اور پسماندہ قوم سے بھی بدتر کہلائے جاتے ہیں۔
مسلمانو! یہ مت بھولو علم کے باب میں آج بھی آپ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہزاروں حدیثیں زندہ و پائندہ ہیں جو ہمیں علوم حاصل کرنے کی  دعوت دیتی ہیں، جو ہمیں جہالت سے دور رہنے کی تلقین کرتی ہیں، اور ہندوستان میں بہت پرانی اور بڑی بڑی یونورسٹیاں ہمیں ہمارا تابناک اور روشن تعلیم یافتہ ماضی یاد دلا رہی ہیں، اور بتا رہی ہیں کہ ہندوستان کو تہذیب و تمدن، علم و معرفت تمہارے آباؤ اجداد کی دین ہے۔
دل مزید خون کے آنسو یہ سوچ کر روتا ہے کہ آئندہ بھی مسلمانوں کے تعلیم یافتہ ہونے کی کوئی امید نہیں ہے، ہر چھوٹے بڑے گاؤں اور شہر کے باہر غیر مسلموں کے بہت سے اسکول کالج خوب صورت جدید انداز سے بنے ہوئے آپ کو نظر آجائیں گے، ان کے بزنس مین تعلیمی عمارتوں پر پیسہ لگا رہے ہیں، زمین دار زمین بینچ کر تعلیمی آشیانے نئے طرز سے بنا کر اپنے روپئے اور تعلیم کو کئی گنا کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں، لیکن مجھے نظر نہیں آتا کہ مسلمان بزنس مین یا کسی صاحب حیثیت نے کہیں کوئی اسکول یا کالج قائم کیا ہو، یہ سمجھ لیجئے اگر آپ کا اسکول یا کالج نہیں ہے تو پھر آپ دنیوی علوم سے آراستہ بھی نہیں ہوسکتے ہیں کہاوت ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔

اگر آپ میری بات سمجھ رہے ہیں اور اپنی اولاد کو ہندوستان میں غیروں کا غلام نہیں بنانا چاہتے ہیں تو پھر آپ جدید طرز کے اپنے اسکول اور کالج بنائیں جن میں آپ کے بچے پراتھنا نہیں بلکہ مناجات پڑھیں، غیریت نہیں اپنائیت محسوس کریں۔ جہاں لاٹھی اور بھینس دونوں آپ کی ہوں، جن میں عزت، دولت اور شہرت کے ساتھ اشاعت علوم کا سہرا بھی آپ کے سر سجے ۔ دین کی اشاعت کے لئے اھل مدارس کوشاں ہیں، عصری علوم کے لئے ہمیں بہت سے افراد کی ضرورت ہے، تو پھر بڑھائیں قدم اور کریں شروعات۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

ایک خوبصورت سفر نامہ

میگھالیہ کے دارالحکومت شیلانگ کا ایک سفر

ازقلم: چاہت محمد قاسمی مدرسہ فیض العلوم یاسینیہ گنگوہ

خوبصورت شہر شیلانگ سطح زمین سے تقریبا پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر ہندوستانی صوبہ میگھالیہ کی کھسی پہاڑیوں کے مغرب میں واقع ہے، کہا جاتا ہے جاتا ہے کہ میگھالیہ کے معنی ہی "بادلوں کا مسکن" ہے، نیز اس کے خوش گوار موسم اور خوبصورتی کی بنا پر اس کو مشرقی اسکاٹ لینڈ بھی کہا جاتا ہے، آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ بنگلہ دیش کے باڈر پر میگھا لیہ کا ایک قصبہ چیرا پونجی دنیا کا سب سے زیادہ بارش والا قصبہ ہے اسی لئے چیرا پونجی کی خوبصورتی سیاحوں کے لئے دلچسپی کا خصوصی مرکز ہے۔ لیکن میگھالیہ کے دارالسلطنت شیلانگ کی خوبصورتی بھی کم نہیں ہے، خاص طور سے یہاں کا خوشگوار و نشاط انگیز موسم، فلک بوس دیدہ زیب عمارتیں، بلند بالا پہاڑ، وسیع سبزہ زار درختوں سے گھری اور بل کھاتی ہوئی سڑکیں، جو کبھی بلندی اور کبھی پستی میں جاتی ہیں، الفینڈہ فالس، ائیر پلین میوزیم، بڑا پانی ڈیم، بلند و بالا فلک بوس پہاڑ اور ان سے نکلنے والے بہت سے آبشارے، نیز خاص طور سے شیشوں سے بنی ہوئی خوبصورت دیدہ زیب مدینہ مسجد وغیرہ سیاحت کے بہترین مقامات سیاحوں کے لئے توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔
- شیلانگ شہر کا موسم بہت خوش گوار اور دل فریب ہوتا ہے، ہلکی ہلکی پھوار، کبھی رم جھم برسات، اور کبھی بہت ہی زیادہ تیز بارش یہاں روز کا معمول ہے، سورج بادلوں کے پیچھے سے دلہن کی ادائے دلنواز کی طرح مکھڑا دکھاتا ہے، اور پھر بے وفا محبوبہ کی طرح بادلوں کے پیچھے گم ہوجاتا ہے، ٹھنڈے ٹھنڈے ہوا کے جھونکے، بارش کی ہلکی سی پھوار، اور سردی کا ہلکا سا احساس اور ایسے خوش گوار موسم میں آئسکریم سبحان اللہ تعالی ہم کئی بار اپنے میزبان سے خواہش ظاہر کرکے لطف اندوز ہوئے ہیں۔
خوبصورت شہر میں حسین محبوبہ کے نشیب و فراز کی طرح اونچے نیچے راستے تھے تو شہر کے باہر سبزہ زار پہاڑیوں کے درمیان سے پیچ در پیچ اونچی نیچی سڑکیں ہیں، آس پاس پہاڑوں سے نکلنے والے آبشاروں کی کہیں آواز سنائی دیتی ہے تو کہیں یہ آبشارے آنکھوں کے ذریعہ دل کو بھلے معلوم ہوتے ہیں، ایسے ہی ایک آبشار سے کار رکوا کر ہم نے پانی پیا تو بہت ہی ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے ذائقہ نے بڑا سکون بخشا۔ ان بل کھاتی ہوئی سڑکوں پر اگر آگے دیکھتے ہیں تو سامنے سے آنے والی گاڑی اور اونچی نیچی سڑکوں سے خوف محسوس ہوتا ہے، نیز اگر دائیں بائیں سبز پوشاک میں ملبوس بادلوں سے گھری ہوئی بلند و بالا پہاڑیوں کو دیکھیں تو بڑی خوبصورت معلوم ہوتی ہیں، لیکن جب دائیں بائیں یہ پہاڑ نہیں ہوتے تو پھر ناظرین اپنے آپ کو بلندی پر اور اپنے دائیں بائیں گہری کھائی کو دیکھ کر بہت خوف محسوس کرتے ہیں، ایسے میں اگر آپ نئے ہیں تو یاد رکھئے ڈرائیور کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کی بھول نہ کریں، ورنہ ہر موڑ پر سامنے سے جب عمیق گہرائی نظر آئے گی تو دل بہت زور سے دھڑکے کا اور حفاظت کی ساری دعائیں یاد آجائیں گی۔
اگر ہم شیلانگ کی آبادی کی بات کریں تو یہاں مقامی لوگوں کی اکثریت ہے جن کو کھسی کہا جاتا ہے، اور یہ مذہبی اعتبار سے کرسچن ہیں، جب کہ  آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ نیپالی ہندؤں پر مشتمل ہے (جن کو دیکھ کر فورا دل میں خیال گذرا: بنگلہ دیشیوں کو نکالنے کا نعرہ لگانے والے حضرات کو کیا ملک کے مختلف علاقوں میں موجود لاکھوں نیپالی نظر نہیں آتے) رہے مسلم تو یہ آبادی تاجروں پر مشتمل ہے جو ملک کے مختلف اضلاع سے جاکر بسے ہیں، اکا دکا مقامی کھسی باشندے بھی مسلمان ہیں، جو داعیان اسلام کی محنت کا نتیجہ ہیں، بازاروں میں باشرع بہت سے افراد کو دیکھ کر دل خوش ہوجاتا ہے۔ مقامی کھسی باشندوں کا ذریعۂ معاش کوئلہ ہے تو مسلمان بازاروں میں تجارت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جب کہ نیپالی حضرات مختلف کاروبار اور مزدوریاں کرتے ہیں۔
غیر مسلموں کی ایک بڑی آبادی جو کرسچن اور ہندؤں پر مشتمل ہے، گائے اور سور دونوں کھاتے ہیں، جب کہ مسلمان گائے کا گوشت تناول کرتے ہیں، کرسچن گائے الگ اور مسلمان الگ کاٹتے ہیں، آپ کو یہ بھی بتادیں کہ یہاں گائے کاٹنے کی سرکاری طور پر اجازت ہے۔ اسی لئے کھلے عام گائیں کاٹی جاتی ہیں، کچھ دن قبل بی جے پی کے امت شاہ میگھالیہ کے دورے پر تھے تو خود انہیں کی پارٹی کے بڑے نیتاؤں نے بیف کھاکر گائے کے ذبیحہ پر پابندی کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
ایک بات اور جو آپ کو حیران کردے گی وہ یہ ہے کہ یہاں مقامی کھسی باشندگان میں لڑکی کی ولادت کو پسند کیا جاتا ہے، لڑکی کو وراثت دی جاتی ہے، جب کہ لڑکے محروم رہتے ہیں اور مزید عجیب بات یہ ہے کہ لڑکے ہی وداع ہوکر سسرال جاتے ہیں، مرد گھر میں کھانا بناتے اور بچے کھلاتے ہیں جب کہ عورت آفس، بازار، دکان اور دیگر پبلک پلیس پر نیم عریاں نظر آتی ہیں۔
کرسچن کی آبادی کی اکثریت ظاہر کرنے کے بعد یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ بے شرمی، بے حیائی، عریانیت اور فحاشی بہت زیادہ ہے، گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کھلے عام روز تبدیل کئے جاتے ہیں، بغیر شادی کی ولادت غیر معیوب ہی نہیں بلکہ ایک رواج ہے، ایک ٹیکسی کے ڈرائیور نے بتایا کہ یہاں ولادت کے بعد ہی اکثر شادی ہوتی ہے جس کی تصدیق ہمارے میزبان نے بھی کی ہے۔
یہاں شراب کی دکان کے لئے پرمیشن، پرمٹ یا کسی اجازت کی ضرورت نہیں پڑتی ہے، اسی لئے ہر مارکیٹ ہر بازار میں ہر چہار قدم پر آپ کو بہت سی شراب کی دکانیں مل جائیں گی، نیز جوان بوڑھے مردوں کے ساتھ ادھیڑ عمر عورتیں اور نوخیز دوشیزائیں بھی شراب نوشی کرتی ہوئی نظر آجائیں گی۔

زائرین کے لئے جہاں بہت سے مقام مرکز توجہ ہیں وہیں شیلانگ کی مدینہ مسجد بھی بہت ہی خوبصورت اور دل کو لبھانے والی ہے، 120 فٹ اونچی 60 فٹ چوڑی یہ مسجد چھت کے سوا پوری سبز شیشے سے بنائی گئی ہے، جس میں تقریبا 2000 ہزار نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شیشے سے بنی ہوئی ہندوستان کی یہ واحد مسجد ہے، جدید قسم کی اس مسجد کا افتتاح 2012ء میں کیا گیا تھا۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی