جہیز بار گراں بن گیا ہے ملت پر
پڑی ہیں بیٹیاں پاؤں کی بیڑیاں بن کر
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
یہ بات ہم سبھی کے لئے ناقابل انکار ہے کہ اس بھاگتی دوڑتی زندگی کے سسکتے بلکتے معاشرے میں ہزاروں بیماریاں جنم لے چکی ہیں جن میں سے شادی بیاہ کی گلی سڑی رسمیں تعفن اور بساند پیدا کر رہی ہیں، اور حالت یہ ہوچلی ہے کہ بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی جب باپ کے کان اپنے نومولود کی کلکاریاں سننے کے لئے بیتاب ہوتے ہیں تو اسی وقت دل و دماغ کے کسی گوشے سے یہ دعا اور تمنا بھی ابھرنے لگتی ہے کہ خدایا پیدا ہونے والی بیٹی نہ ہو! ورنہ پوری زندگی اس کی شادی کے لئے سامان جمع کرنے میں گزر جائے گی۔ اور ہوتا بھی یہی ہے کہ جب اللہ تعالی یہ جنت کی کنجی عطا کرتا ہے اور اپنی اس خوبصورت رحمت سے نوازتا ہے تو باپ کے سر پر بچی کی پیدائش کے وقت سے ہی اس کی منگنی، بیاہ شادی اور جہیز وغیرہ کی فکر سوار ہوجاتی ہے۔
باپ بوجھ ڈھوتا تھا کیا جہیز دے پاتا
اس لئے وہ شہزادی آج تک کنواری ہے
بعد ازاں ماں باپ کی زندگی کا مقصد محض ایک ہی رہ جاتا ہے کہ جناب عالی کسی طرح اس بچی کی شادی سے فراغت حاصل ہوجائے تو پھر سُکھ کا سانس لیا جائے لہذا در در کی ٹھوکریں کھائی جاتی ہیں، ایک ایک پائی جمع کی جاتی ہے، بچوں کے ذہن میں بھی یہ بات بیٹھا دی جاتی ہے کہ بس اس زندگی کی تگ و دو کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح لڑکی کی شادی ہوجائے، اور لڑکی رخصت ہوکر اپنے سسرال عزت کے ساتھ پہنچ جائے، اسی لئے تو ہر کام، کمائی اور کاروبار کا مقصد ایک ہی بنالیا جاتا ہے کہ لڑکی کے لئے جہیز کا سامان اکھٹا کرنا ہے، پیٹ کاٹ کر، دل چیر کر، رات دن محنت کر کے اور ایک ایک پائی جوڑ کر جہیز جمع کیا جانے لگتا ہے، پھر اگر کمی رہے تو مکان، دکان، باغان سب بیچا جاسکتا ہے،اس میں بھی کام نہ چلے تو قرض؛ خواہ سود کی ہی شکل میں کیوں نہ ہو اٹھایا جاسکتا ہے۔
ماں باپ کا گھر بکا تو بیٹی کا گھر بسا
کتنی ہے دل خراش رسمِ جہیز بھی
اِدھر لڑکی کے والدین کی نیندیں حرام ہوئی رہتی ہیں، دن بھر محنت کرنے والے والدین راتیں بیٹی کے بیاہ کی فکر میں گزار دیتے ہیں، دل کڑھتا ہے، دماغ سن ہوجاتا ہے، اور آنکھیں حسرت سے ڈھلتی جوانی اور زمانہ شباب سے گذرتی بیٹی کی جانب دیکھتی رہتی ہیں، اور اُدھر لڑکوں کے؛ لالچی اور جہیز کے حریص والدین گھر گھر، در در، گلی گلی، شہر شہر، کوچہ کوچہ اس لئے جھانکتے پھرتے ہیں کہ بس ان کو کسی طرح ایسی بہو مل جائے جو ڈھیر سارا جہیز لے کر آئے، جس میں سب کچھ ہونے کے بعد بھی ان لالچیوں کو کچھ نظر نہیں آتا ہے، جس میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ کمی رہ ہی جاتی ہے۔
جہیز مانگ رہے ہو حیا نہیں آتی
اگر تمہیں گوارا تو بھیک بھی مانگو
نو سو چوہے کھاکر بلی حج کو چلی یہ مثال صادق آتی ہے لڑکے کے ان لالچی والدین پر جو جہیز کا سامان لے جاتے ہوئے کہتے ہیں۔ اجی بہت دے دیا، جس نے لڑکی دیدی اس نے سب کچھ دے دیا، معلوم نہیں یہ جہیز کے لالچی لوگ زیادہ جہیز لانے والی دلہن ڈھونڈھ کر اور ہزاروں بار اشاروں کنایوں میں اور کبھی بذات خود تو کبھی دوسروں کے ذریعہ جہیز کی مانگ کرنے کے بعد اور سب کچھ لے کر اور سمیٹ کر گھر کی طرف چلتے ہوئے یہ جملے کیوں کہتے ہیں؟ اور ہاں یہ جملے بھی بادل نا خواستہ لوگوں کو دکھانے کے لئے ادا کئے جاتے ہیں ورنہ تو دل میں یہی سوچتے ہیں کہ جتنے کی امید تھی اُتنا تو دیا ہی نہیں، فلاں چیز تو دی ہی نہیں، وہ تو بھول ہی گئے، یہ تو رہ ہی گیا۔
پہلے سنتے تھے بازاروں میں صنم بکتے ہیں
اب کیوں شرم نہیں آتی کہ ہم بکتے ہیں
تیری عظمت کی قسم مرد کی قیمت ہے یہ کم
مرد بک سکتا نہیں بکتے ہیں مٹی کے صنم
کیا ان کو لڑکی کے باپ کا تھکا ہوا چہرا نظر نہیں آتا ہے؟ کیا ان کو لڑکی کے بھائی کا اُترا ہوا مُنہ دکھائی نہیں دیتا ہے؟ کیا یہ خود کسی لڑکی کے باپ نہیں ہوتے؟ کیا ان کو اندازہ نہیں ہوتا کہ اس جہیز کے جمع کرنے میں لڑکی کے والدین نے کتنے پاپڑ بیلے ہوں گے؟ کیا یہ نہیں سمجھتے کہ رات دن کی محنت و مشقت کے بعد بھی لڑکی کے والدین نے گھر گروی رکھا ہوگا یا زمین بیچ کر یہ سامان جمع کیا ہوگا؟ یہ نہیں جانتے کہ اس جہیز کے لئے لڑکی کے والدین نے کتنی راتیں جاگ کر گزاری ہوں گی؟ کیا ان کو نہیں پتا ہوتا کہ لڑکی کے والدین نے اس جہیز کو خون و جگر سے کیسے سینچا ہوگا؟ کیا ان کو علم نہیں ہوتا کہ لڑکی کے بھائیوں نے اپنے بچپن اور مستقبل دونوں داؤ پر لگا دئے ہوں گے؟ کیا یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ کل ان لینے والوں کو اس سے بھی زیادہ دینا ہوگا؟
مقام عورت پھر خود جان گیا وہ
بنا تھا باپ جب وہ ایک بیٹی کا
اور ہاں یہی جہیز کے لالچی والدین ذمہ دار ہوتے ہیں ان لڑکیوں کے جو جہیز نہ ہونے کے سبب اپنے والدین کے گھروں میں بوڑھی ہورہی ہیں،یہی لوگ صبر کی زد میں آئیں گے ان لڑکیوں کے گذرتے ہر دن اور سسکتی ہر رات کے، اور شادی کے انتظار میں تڑپتی بلکتی اور سسکتی لڑکیوں کے جو جہیز نہ ہونے کے سبب باپ کے گھر ہی میں بوڑھی ہوتی جارہی ہیں۔یہی جہیز کے لالچی لوگ ذمہ دار ہوتے ہیں لڑکی کے ان مظلوم والدین کی پریشانیوں، مشکلوں، دشواریوں اور آنسوؤں کے بھی جو جہیز نہ ہونے کے سبب پیدا ہوتے ہیں، اور یہی لوگ ذمہ دار ہوتے ہیں ان بچوں کے تباہ ہوتے ہوئے مستقبل کے بھی جن کے والدین لڑکی کے جہیز کو جمع کرنے کی لگن میں ان بچوں کو بھول جاتے ہیں اور انہیں بھی مزدوری پر لگا دیتے ہیں، اور انہیں پر ذمہ داری آئے گی اس مکان دکان اور زمین کے بکنے کی جو جہیز کی وجہ سے فروخت کرنے پڑے، اور انہیں پر گناہ ہے اس سودی قرض کا بھی جو جہیز دینے کے لئے اٹھایا گیا، اور اس معاشرے کو گندا کرنے کے بھی ذمہ دار یہی لوگ کہلائیں گے جس میں یہ بیماری روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔اور ان ہزاروں لڑکیوں کے قاتل بھی یہی لوگ کہلائیں گے جو جہیز کے ڈر کی وجہ سے ماں کے پیٹ میں ہی قتل کردی جاتی ہیں۔
اور ہاں پھر آپ مجھ کو یہ بھی کہنے دیجئے کہ اگر ہم جہیز لینے والے ہیں تو ہم یقینا انہی لالچی اور طماع والدین میں شمار کئے جائیں گے اور یاد رکھئے نجاست پر سونے کا ورق لگانے سے وہ پاک نہیں ہوجاتی۔ اس طرح ہزاروں برائیاں لئے ہوئے جہیز کو حدیث سے ثابت بتا کر گناہوں میں اضافہ تو ہوسکتا ہے لیکن یہ جہیز بالکل بھی جائز اور پاک نہیں ہوسکتا ہے۔اگر اختلاف کے بعد بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو دئے گئے اس سامان کو جہیز مان بھی لیا جائے تو العیاذ باللہ اس سے یہ خرافات اور اس برائیوں کے پلندہ جہیز کو ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے۔
جہیز آخر کیوں دیا جاتا ہے؟ کونسی ایسی چیز ہےجس کی وجہ سے انسان جہیز کو برا جاننے کے بعد بھی دینے پر مجبور ہوتا ہے؟اور کونسی ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے انسان جہیز کے لئے ہر طرح کی پریشانی اٹھانے کے لئے تیار رہتا ہے۔بڑے غور و خوض اور تحقیق کے بعد درج ذیل آٹھ چیزیں ایسی نظر آتی ہیں جو لاکھ برائیوں کے بعد بھی جہیز دینے کا سبب بنتی ہیں اور ہمیشہ انہیں برائیوں کی وجہ سے جہیز دیا جاتا ہے، اور انسان کو انہیں چیزوں میں سے کوئی نہ کوئی یا سبھی چیزیں جہیز دینے کی طرف ابھارتی ہیں اور انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ میں اپنی بیٹی کو زیادہ سے زیادہ جہیز دوں، خواہ لُٹ جاوں، خواہ مٹ جاوں، خواہ گھر بیچوں یا سود پر قرض لوں لیکن جہیز ضرور دوں، ان آٹھ چیزوں پر آپ بھی نظر دوڑا لیں۔
1۔ جہیز دینے سے اپنی شان و شوکت اور بڑائی کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔
2۔ لڑکی کے والدین اپنے نام و نمود اور شہرت حاصل کرنے کے لئے بھی جہیز دیتے ہیں۔
3۔ جہیز بطور رشوت بھی دیا جاتا ہے تاکہ سسرال والے بچی کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کریں۔
4۔ برادری، بھائی بند اور محلے والوں سے مقابلہ آرائی کے لئے بھی جہیز دیتے ہیں۔
5۔ طمع اور لالچ یعنی جہیز دینے کے بعد اپنے لڑکے کے لئے اس سے زیادہ جہیز لینے کا لالچ بھی جہیز دینے کا سبب بنتا ہے۔
6۔ وراثت سے محروم کرنے کے لئے ۔ یعنی جہیز کی وجہ سے اکثر لڑکیاں وراثت سے محروم کردی جاتی ہیں اور اسی لئے بہت سے لوگ جہیز دیتے ہیں کہ جہیز کے بعد وراثت (جو اکثر جہیز سے کئی گُنا زیادہ ہوتی ہے) کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔
7۔ محض ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی رسم کے طور پر بھی جہیز دیا جاتا ہے۔
8۔ بیٹی اور داماد کے لئے تعاون، ہدیہ اور صلہ رحمی کے طور پر بھی جہیز دیا جاتا ہے۔
اگلی قسط میں جہیز کی اِن آٹھوں وجوہ پر ان شاء اللہ تفصیلی بات کریں گے۔
2019/11/12 18:33
No comments:
Post a Comment