Sunday, 22 September 2024

مسنون تعزیت اور ہمارا غلط رویہ

مسنون تعزیت اور ہمارا غلط رویہ

چاہت محمد قریشی قاسمی 

جب کسی شخص پر مصائب، پریشانی اور مشکل حالات  آتے ہیں، یا کسی کا قریبی عزیز،  اور پیارا اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے تو اس شخص پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں اور وہ شخص حزن و ملال اور رنج و الم کی تصویر بن جاتا ہے، کبھی کبھی تو حال سے بے حال، مجنون اور دیوانے جیسی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اسی لئے اس غمزدہ کی غمخواری اور حزن و ملال میں ڈوبے شخص کی حوصلہ افزائی اور صبر جمیل کی تلقین نیز آخرت میں اجر جزیل کی بشارت کے لئے شریعت مطہرہ نے تعزیت کو مسنون قرار دیا ہے جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کی تو اس کے لئے مصیبت زدہ کے برابر ثواب ہے۔ (ترمذی) 
نیز ابن ماجہ شریف میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا جو مومن اپنے بھائی کی مصیبت کے وقت اس کی تعزیت کرے گا ، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن عزت وشرف کا لباس پہنائیں گے۔
ان دو احادیث کے علاوہ بھی تعذیت کی فضیلت نبی کریمﷺ کے اقوال و افعال سے ثابت ہے۔ 
جب کسی کی تعزیت کے لئے جائیں تو اس بات کا پوری طرح خیال رکھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے مصیبت زدہ مغموم شخص کو نرمی، محبت، اپنائیت اور پیار سے تسلی دیں، صبر جمیل کی تلقین کریں اور آخرت میں اجر جزیل کی بشارت سنائیں خاص طور سے نبی کریمﷺ، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور بزرگان دین نے جس طرح مصائب پر صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا ہے اس کے واقعات سناکر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صبر و استقامت کی تلقین کریں جیسا کہ نبی کریمﷺ نے مصیبت کے وقت اپنی پیاری بیٹی کے لئے ان کے لخت جگر  کے انتقال کے موقع پر یہ الفاظ ارشاد فرمائے تھے  إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ ، وَلَهُ مَا أَعْطَى ، وَكُلَّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُّسَمًّى، فَاصْبِرْ وَاحْتَسِبْ 
ترجمہ: یقیناً اللہ ہی کا ہے جو اس نے لے لیا، اور جو اس نے عطا کیا وہ بھی اسی کا ہے، ہر چیز اس کے پاس لکھے ہوئے ایک مقررہ وقت تک کے لیے ہے، اس لیے سو تم صبر کرو اور ثواب کی امید رکھو۔
لیکن افسوس صد افسوس آج ہمارا رویہ اور انداز بدل گیا ہے جس چیز کو اللہ نے دل جوئی کے لئے بنایا تھا وہی دل شکنی کا سبب بن گئی ہے، جس چیز کو حزن و الم دور کرنے کے لئے بنایا تھا وہی غم بڑھانے کا سبب بن گئی ہے،  ہم نے اس مسنون تعزیت کا انداز بدل دیا اور ایسے انداز میں تعزیت کرنے لگے ہیں کہ غمزدہ شخص کا اس سے غم  مزید بڑھ جاتا ہے اور وہ بے چارہ اپنے آپ کو ایک مجرم تصور کرنے لگتا ہے، کبھی کبھی تو اس سے ملاقاتیوں سے بھی وحشت ہونے لگتی ہے اور وہ ملنے والوں سے ڈرنے لگتا ہے کیوں کہ یہ ملاقاتی اس کا غم ہلکا کرنے کی بجائے مزید بڑھا دیتے ہیں اور فون کرنے والے تو اس سے بھی برے ثابت ہوتے ہیں۔
 اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب اہلیہ مرحومہ کا انتقال ہوا یہ وہ  وقت تھا جب مجھ پر اور میرے اہل خانہ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا اور ہم سب مغموم و ملول تھے اس وقت اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ ہمارے عوام تو عوام بہت سے خواص کی تعزیت بھی صبر و استققامت کی تلقین اور تسلی کی بجائے غم کا سبب بنتی ہے، مثلا ایک بات تو تقریبا آنے والے سبھی حضرات کہتے تھے کہ اگر مریضہ کو فلاں جگہ دکھا دیا جاتا تو بچ جاتی یا آپ نے فلاں غلطی کی اگر اس طرح کرتے تو بچ جاتی وغیرہ وغیرہ جس سے اپنی غلطی کا احساس شدید سے شدید تر ہوتا چلا جاتا تھا اور میں اپنے آپ کو مجرم تصور کرنے لگتا تھا، مجھے لگتا کہ میری غلطی کی وجہ سے میری عزیز از جان بیوی مجھے چھوڑ کر چلی گئی اور میرے بچوں کے سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا لہذا یہ باتیں غم، حزن و ملال میں اضافہ کا سبب بن جاتی تھیں، اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب تک کئی مہینے بعد میں نے رمضان کے ختم قرآن کے موقع پر  تقریر کرتے ہوئے اس طرف توجہ نہیں دلائی اور لوگوں سے کہا کہ کسی کے مرنے اور دنیا سے رخصت ہونے  کے بعد اس طرح کی بات کہنے والے گویا کہ موت کے مقررہ وقت  کا انکار کر رہے ہیں کہ جس کو اللہ مارنا چاہتا ہے اس کو فلاں ڈاکٹر بچا لیتا ہے یا کسی بڑے ہاسپٹل میں پہنچ کر وہ بچ جاتا ہے، یاد رکھیں ایسا بالکل ممکن نہیں ہے کہ جس کی موت جس وقت، جہاں اور جس طرح اللہ نے لکھ دی ہے وہ آکر ہی رہے گی،  اس کو نہ کوئی روک سکتا ہے اور نہ ہی اس کو اس کے وقت سے کوئی ٹال سکتا ہے اور رہی غلطیاں تو جب کوئی کام بگڑتا ہے یا مصیبت آتی ہے تو اس میں اپنی غلطیاں اور معصیتیں ہی کار فرما ہوتی ہیں۔ لیکن ایسے غم کے موقع پر مصیبت زدہ کی غلطیاں شمار کرا کر اس کو مزید مصیبت میں ڈالنا اور غم میں ڈبو دینا بے موقع اور بے محل ہے جس سے غم اور حزن و ملال ہلکا ہونے کی بجائے بڑھ جاتا ہے حالانکہ مسنون تعزیت غم ہلکا کرنے اور حزن و ملا دور کرنے کے لئے ہے نہ کہ غم بڑھانے کے لئے۔
تعذیت کا کیا انداز ہونا چاہئے اور اس کا مسنون طریقہ کیسا ہونا چاہئے، یہ ہم نے اوپر مختصرا ذکر کردیا ہے لیکن اب ہم اہلیہ مرحومہ کے انتقال کے وقت اپنے ملول دل کو مزید ملول اور غمزدہ ماحول کو بہت زیادہ غمزدہ کرنے والے  غلط انداز  میں تعزیت  کے چند واقعات مثال کے طور پر ذکر کرنا چاہتے ہیں تاکہ قارئین کو اس سے کچھ سبق حاصل ہو اور سبھی حضرات اس میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
تعزیت ایک مسنون عمل ہے، ایک عبادت ہے، ایک بندہ کا دوسرے بندے پر حق ہے، یہ حسن سلوک ہے جو ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ کرتا ہے، اس سے مصیبت زدہ کی مصیبت کم تو نہیں ہوتی البتہ اس کو مصیبت کے وقت کچھ حوصلہ مل جاتا ہے، پریشان حال مغموم شخص کا غم کچھ ہلکا ضرور ہوجاتا ہے اس لئے سبھی لوگوں کو چاہئے کہ تعزیت ضرور کریں اور بوقت تعزیت نرمی کا سلوک کریں، اپنائیت کا اظہار کریں، صبر جمیل کی تلقین کریں، اجر جزیل کی بشارتیں سنائیں اور جہاں تک ہوسکے ایسی باتوں سے گریز کریں جن سے مصیبت زدہ کی مصیبت بڑھ جائے،  اس کا غم زیادہ ہوجائے، اس کی مشکلوں اور پریشانیوں میں اضافہ ہو جائے لیکن کیا کریں ہر چیز میں حد سے تجاوز کر جانا ہماری عادت سی بن گئی ہے اس لئے تعزیت جیسی عظیم سنت کو بھی ہم نے نہیں بخشا ہے اور جانے ان جانے میں ہم مصیبت زدہ مغموم کا غم ہلکا کرنے کی بجائے اور زیادہ کر دیتے ہیں، ہمارے ساتھ اہلیہ کے انتقال کا پرملال سانحہ پیش آیا تو ہمیں نت نئے تجربات ہوئے اور ہم نے لوگوں کے مختلف رویے اور الگ الگ انداز کو دیکھا بہت سے زخم اب  بھی تازہ ہیں، بہت سی باتیں نہ چاہتے ہوئے بھی اب تک بھول نہیں پائے ہیں لہذا تعزیت کے چند واقعات ہم بطور مثال لکھ دیتے ہیں۔

1۔ ایک مفتی صاحب سے میرا بہت ہی خاص تعلق ہے، ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے، صاحب علم بھی ہیں اور صاحب نسبت بھی، میں ان کو صالح اور مصلح بھی تصور کرتا ہوں لیکن اہلیہ مرحومہ کے انتقال کے بعد قبرستان ہی میں بوقت تدفین تو ملاقات ہوئی تھی بعد ازاں وہ تعزیت کے لئے تشریف نہیں لاسکے ممکن ہے کچھ عذر ہو، میں ان سے ناراض نہیں ہوں لیکن صحیح بات یہی ہے کہ مجھے اس وقت ان کی بہت زیادہ ضرورت تھی، میرے ان سے گہرے تعلقات تھے، میں نے ان کو اپنا بڑا بھی مانا تھا، وہ میرے مزاج شناس بھی تھے، میں ان کو اپنے دل کی بات کہنا بھی چاہتا تھا تاکہ دل کچھ ہلکا ہو۔
نیز ان کے تعزیت کرنے سے میرا غم ہلکا بھی ضرور ہوسکتا تھا، ان کے تشریف لانے سے میرے چہرے پر مسکراہٹ آسکتی تھی خواہ عارضی ہوتی حتی کہ ایک مرتبہ کی آمد سے بھی بہت سکون میسر آجاتا اور جس طرح کے ان سے میرے تعلقات  تھے ان کو کئی مرتبہ بلکہ بار بار میری تعذیت کے لئے تشریف لانی چاہئے تھی لیکن تشریف لانے اور تعزیت کے لئے آنے کی بجائے انہوں نے کسی صاحب کے ذریعہ کہلا بھیجا کہ مبتلائے مصیبت اپنا محاسبہ کریں کہ آخر یہ واقعہ میرے ساتھ ہی کیوں پیش آیا ؟ ان کی اس بات سے مجھے بہت تکلیف پہنچی تھی، میرا غم بہت ہی زیادہ بڑھ گیا تھا، میں ہر وقت اپنا محاسبہ کرتا رہتا، روز گھنٹوں پڑا سوچتا رہتا، تفکرات کے سمندر میں غرق ہوجاتا،  اپنے کئے ہوئے گناہوں پر نظر کرتا تو سمندر کے جھاگ کے برابر نظر آتے، لگتا تھا یہ میری پکڑ ہے، میرے گناہوں کی وجہ سے میری عزیز از جان اہلیہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہے، میرے ہی گناہوں کی وجہ سے میرے نھنے نھنے بچوں کے سر سے مشفق ماں کا سایا اٹھ گیا ہے، بہر حال یہ تو اللہ رب العزت ہی کو معلوم ہے کہ وہ پکڑ تھی یا امتحان لیکن پکڑ کی اللہ غفور رحیم سے امید نہیں رکھتا ہوں اور آزمائش کے میں لائق نہیں ہوں بہر حال کچھ بھی ہو لیکن یہ بات کہنا اس وقت مفتی صاحب کے بالکل شایان شان نہ تھا، اگرچہ میں معترف ہوں کہ میں گناہ گار ہوں سراپا خطاکار ہوں لیکن تب بھی کسی مصیبت زدہ کو مصیبت کے وقت ایسی بات نہیں کہنی چاہئے چونکہ تعزیت کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ آدمی نرمی، محبت، اپنائیت سے ملاقات کرکے صبر جمیل اور اجر جزیل کی تلقین کرے، جیسا کہ ہم نے مضمون کے شروع میں عرض کیا ہے، نیز حضرت مفتی صاحب تو بڑے آدمی ہیں میں ان کے متعلق اس طرح کا تصور بھی نہیں کر سکتا البتہ میرا ناقص خیال ہے کہ بوقت تعذیت اس طرح کی بات سے ایک تو سوئے ظن کا اظہار ہوتا ہے کہ گویا ایسی بات کرنے والے لوگ مصیبت زدہ کو گناہ گار سمجھ کر اللہ کی پکڑ کا مستحق گردانتے ہیں دوسرے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو گناہگار ہی نہیں سمجھتے یعنی ان کو لگتا ہے کہ دوسروں پر آئے مصائب و آلام  ان کی پکڑ کا سبب ہیں، جو ان کے گناہوں کی وجہ سے ہوئی ہے اور وہ لوگ جو خود مصائب و آلام سے محفوظ ہیں (اللہ ان کو ہمیشہ محفوظ رکھے) ان کے گناہگار نہ ہونے کی وجہ سے ہے، واللہ اعلم بالصواب۔
2۔  ایک اور مفتی صاحب جو کسی جامع مسجد کے امام و خطیب اور متعد تنظیموں کے صدر بھی ہیں، انہوں نے اہلیہ مرحومہ کے انتقال پرملال کے دوسرے روز برائے تعذیت فون کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ کو اب تو اہلیہ کی زیادہ ضرورت تھی ابھی وہ رخصت ہوگئی، وہ ابھی تو بچوں کی پرورش کرتی، آپ اکیلے کیسے بچے پالیں گے؟ سب کچھ کیسے ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ، یہ ایسی باتیں ہیں جو مسنون تعزیت کے برخلاف ہیں اور ایسی باتوں سے غم ہلکا ہونے کی بجائے مزید بڑھ جاتا ہے لہذا ان سے ضرور بچنا چاہئے۔ لوگ ترس کھانے کے لئے رحم دلی کے نام پر اس طرح کے الفاظ زبان سے نکالتے ہیں جو غمگین کو مزید غم بڑھا دیتے ہین،  پریشان حال کو اور زیادہ پریشان کردیتے ہیں اور مصیبت زدہ کی مصیبت میں اضافہ کا سبب بن جاتے  ہیں اس لئے ضروری ہے کہ مسنون تعزیت میں سنت کے مطابق احتیاط سے بات کریں اور سوچ سمجھ کر الفاظ منہ سے نکالیں۔
3۔ تعزیت کے تیسرے دل خراش واقعہ پر آپ بھی سر دُھنتے رہ جائیں گے اور کف افسوس ملتے ہوئے نہ تھکیں گے۔
 ایک تیسرے مفتی صاحب میرے بہت خاص دوست ہیں، جو صحاح ستہ میں علاوہ بخاری کے شاید سب ہی کتابیں پڑھا چکے ہیں، فون کرکے مذاقا فرمانے لگے، اب تو فرصت ہی فرصت ہے؟ اب تو تمہیں آزادی ہے؟ کوئی روک ٹوک بھی باقی نہیں رہی اب تو ملاقات کے لئے آجائیں۔ ان کی اس بات سے انتہائی تکلیف پہنچی تھی اور ان باتوں نے میرے غم میں بے انتہا اضافہ کردیا تھا، گو موصوف کے لئے یہ ایک مذاق تھا لیکن ان کے اس مذاق سے مجھ مصیبت زدہ پر کیا گذری تھی میں اس  کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنا سکتا۔
یہ چند واقعات علما کرام کی تعزیت کے بطور مثال ذکر کئے گئے ہیں وہ بھی اس لئے کہ ہم نصیحت حاصل کریں اور کسی کی تکلیف کا سبب نہ بنیں۔ نیز آپ غور کیجئے کہ خواص کا یہ حال ہے تو عوام کا کیا حال ہوگا؟ 

Thursday, 12 September 2024

حضرت جی مولانا قاری شاہ عبدالستار بوڑیوی دامت برکاتھم

حضرت جی مولانا قاری شاہ عبدالستار بوڑیوی دامت برکاتھم 

انہیں کی شان کو زیبا نبوت کی وراثت ہے۔

ازقلم:  چاہت محمد قریشی قاسمی گنگوہ

 ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّيينَ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْاعَلَیْہِمْ اٰیٰتِہ ویُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ․ (سورہ جمعہ، آیت:۲)
ترجمہ: ”وہی ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کریں اور ان کو پاکیزہ بنائیں اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں۔ 
قرآن کریم کی اس آیت کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے کہ تزکیۀ قلب اور اصلاحِ نفس کازریں سلسلہ اسلام کی آمدکے ساتھ ہی شروع ہوگیاتھا ، مصلحِ عالم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طریقہ سے صحابہ کرام کے قلوب کا تزکیہ اور نفس کی اصلاح فرمائی تھی اسی نہج اور طریقہ کی نقل صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین نے کی ہے اور بعد ازاں آج تک بزرگان دین کرتے آئے ہیں لہذا جس طرح  جسمانی اور بدنی امراض کے لئےاطبا اور ڈاکٹروں کی ضرورت پیش آتی ہے اسی طرح قلبی اور روحانی امراض کے لئے صالح، مصلح ماہر و موقع شناس  شیخ کامل اور پیرومرشد کا ہونا انتہائی ضروری ہے لہذا اس انحطاط اور تنزلی کے دور میں بھی حضرت عارف باللہ بقیۃ السلف الشاہ مولانا قاری عبدالستار صاحب بوڑیوی دامت برکاتہم تقویٰ وللہیت اور تزکیۂ نفس کے حوالہ سے بے مثال خدمات انجام دے رہے ہیں، 
حضرت شیخ کی مجلس میں حاضر ہوکر دل و دماغ پر سکون طاری ہوجاتا ہے اور بے ساختہ انسان بزبان حال یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ آج بھی الحمدلله تعالی ایسے کامل لوگ دنیا میں موجود ہیں جن کو دیکھ کر خدا یاد آتا ہے، ایسی شخصیات کا وجود دنیا میں باقی ہے جن کی صحبت میں ایک ساعت بیٹھنا ہزار سال بے ریا طاعت سے افضل ہے، ایسے حضرات دنیا میں باحیات ہیں جن کی نگاہوں سے دل بدل جاتے ہیں، ایسے اللہ والے دنیا میں باقی ہیں جن کی توجہ سے  گناہ گاروں کو نیکی کرنے کا جذبہ اور نیکوکاروں کو استقامت اور خلوص کا جام نصیب ہوتا ہے

یہی ہیں جن کے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر
انہیں کے اتقاء پر ناز کرتی ہے مسلمانی
انہیں کی شان کو زیبا نبوت کی وراثت ہے
انہیں کا کام ہے دینی مراسم کی نگہبانی
رہیں دنیا میں اور دنیا سے بالکل بے تعلق ہوں
پھریں دریا میں اور ہرگز نہ کپڑوں کو لگے پانی
 جو بیٹھے ہوں اپنی خلوت میں تو جلوت کا مزہ آئے
جو آئیں اپنی جلوت میں تو ساکت ہو سخن دانی

 پیر طریقت الشاہ مولانا عبدالستار صاحب بوڑیوی دامت برکاتہم کو
حضرت مسیح الامت مولانا مسیح اللہ جلال آبادی رحمۃ اللہ تعالی علیہ،  حضرت مولانا حکیم سید مکرم حسین سنسارپوری صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ اور حضرت مولاناسیدمحمودحسن پٹھیڑوی قدس سرہ کے علاوہ اور بھی کئی حضرات مشائخ سے تصوف و سلوک میں  خلافت و اجازت  حاصل ہے اور شاید انہیں بزرگان دین کی صحبت کا اثر ہے کہ حضرت کے اندر وہ تمام صفات پائی جاتی ہیں جو ایک قابل و ماہر شیخ اور پیر و مرشد میں ہونی چاہئے لہذا حضرت بوڑیوی دامت برکاتہم کی سحر لسانی کا یہ عالم ہے کہ پندو نصائح زبان سے پھول بن کر نکلتے ہیں اور سامعین کو مسحور کرلیتے ہیں، ہمدردی اور اپنایت کا جذبہ ایسا نظر آتا ہے کہ انسان اپنا درد بیان کرکے اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرلیتا ہے، حسن اخلاق کا عالم یہ ہے کہ پیرانہ سالی اور طبیعت کی ناسازی کے باوجود محبین، معتقدین اور مریدین کی پوری بات خندہ پیشانی سے سماعت فرماتے ہیں اور اطمینان سے جواب مرحمت فرما کر پورے اطمینان سے رخصت فرماتے ہیں، شیخ اور مصلح ایسے ہیں کہ حضرت کی فکر دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے آقائے کل ہادی عالم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے فکر کی عملی تفسیر ہوں۔
حضرت کے معتقدین، پیروکاروں اور مریدین میں صرف عوام ہی شامل نہیں ہیں بلکہ خواص کی کثیر تعداد بھی موجود ہے جن میں حضرات محدثین، مفسرین، مدرسین، علما اور قرا حضرات بھی شامل ہیں، ام المدارس دارالعلوم دیوبند، وقف دارالعلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور کے بڑے بڑے اساتذہ اور مدسین معرفت الی اللہ،  تزکیہ قلب اور  اصلاح نفس کے لئے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر عشقِ حقیقی کا جام نوش فرما رہے ہیں۔ آج کے زمانے کے نامور مصنفین، بہترین قلم کار،  منجھے ہوئے مؤلفین، ماہر فقہا ءکرام اور بڑے بڑے محدثین آپ کے جاری و ساری فیض سے سیراب ہورہے ہیں۔
نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

 ہمارے حضرت بوڑیوی دامت برکاتہم کا اصلاحی انداز بہت خوبصورت دلنشیں، نرم اور محبت آمیز ہوتا ہے، نہ کہیں غصہ ، نہ کہیں پھٹکار، نہ دھتکار، نہ جھٹکنا، نہ ڈانٹنا، نہ برا بھلا کہنا اور نہ ہی سست و کاہل جیسے القاب سے  نوازتے ہیں، شفقت اور محبت بھرے انداز میں سمجھاتے ہیں، میرے بچے اور مولوی صاحب کہہ کر مخاطب کرتے ہیں ہر آنے والے شخص سے آنے کا مقصد معلوم کرتے ہیں، ضعف، پیرانہ سالی اور بیماری کے باوجود حاضرین کی بات پوری توجہ سے سن کر اس کا حل بتاتے ہیں اور اس کو پند و نصائح سے نوازتے ہیں، بعد ازاں جو مانے اچھی بات ہے اور جو نہیں مانتا اس کو بہت پیار سے سمجھانے کے بعد فرماتے ہیں بھائی ہمارا کام بتانے کا تھا ہم نے بتادیا آگے تمہاری مرضی، ایک ایسی ہی  مجلس میں بندہ بھی موجود تھا چند نوجوان حاضر مجلس ہوئے حضرت نے حسب عادت ایک سے پوچھا کیوں آئے ہو کیا کرتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا ٹیلر ہوں کوٹ پینٹ سیتا ہوں، حضرت نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ بچا ہوا کپڑا مالک کو لوٹا دیا کریں بغیر اجازت اس کو اپنے پاس  نہ رکھا کریں! اس نے کہا کہ حضرت میں نے پرچی پر لکھوا دیا ہے کہ بچا ہوا کپڑا مانگ کر واپس لے لیں، تو جس کو ضرورت ہوگی لے لے گا۔ حضرت نے اس کو مزید قائل کرنے کی کوشش کی، جلال آباد کے ایک درزی کا واقعہ بھی سنایا کہ ہمارے زمانۂ طالب علمی میں جلال آباد میں ایک درزی ہوا کرتا تھا جو کپڑے کی کترن بھی کرتے کی جیبوں میں بھردیا کرتا تھا،  لیکن وہ سامع درزی صاحب  اسی طرح کے حیلے اور بہانے بتانے لگے، اخیر میں حضرت نے بڑی نرمی سے فرمایا بھائی مسئلہ تو یہی ہے جس طرح میں نے بتایا ہے اب تم ہی نہ مانو تو کیا کریں، تمہاری مرضی۔
حضرت جی مولانا قاری شاہ عبدالستار بوڑیوی دامت برکاتھم

اہلیہ مرحومہ کے انتقال کے بعد جب بندہ غم سے نڈھال، پریشان حال زندگی کے مشکل ترین حالات سے گذر رہا تھا توحضرت کی ہی محبت اور شفقت تھی جس کی وجہ سے میں اپنے آپ کو سنبھال پایا اور اپنی ذمہ داریاں جہاں تک بھی ممکن تھی نبھا پایا، حضرت بہت محبت، پیار سے بوقت ملاقات پیش آتے اور ملاقات کا انداز اتنا پیارا ہوتا کہ سب کچھ غم غلط ہوجاتا لہذا جیسے ہی جاکر سلام کرتے تو مصافحہ کے بعد سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کنپٹی پر ہاتھوں کو روک لیتے  اور محبت بھرے انداز سے میری خیر و عافیت معلوم کرتے،  بچوں کی خیریت دریافت فرماتے، گھر کے نظام اور پورے حالات معلوم فرما کر  صبر و شکر کی تلقین فرماتے، بڑی محبت اور پیار سے تنہائی میں بیٹھا کر سمجھاتے اور واپسی میں جب میں کچھ ہدیہ دینے کی کوشش کرتا تو فرماتے نہیں ابھی آپ کو پیسوں کی مجھ سے زیادہ ضرورت ہے، میں ہی تمہیں ہدیہ دوں گا اور ہدیہ عنایت فرماکر بہت محبت سے رخصت فرماتے یہ محبت، شفقت اور عنایت کیسی ہوتی تھی میں اس کو لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا، حضرت کی شفقت و محبت کا  یہ ایک بہت گہرا احساس ہے جو پوری زندگی میرے ساتھ باقی رہے گا اور میرے لئے بہت قیمتی سرمایا ہے۔
 نکاح ثانی کے بعد بچوں اور ان کی دوسری ماں کے درمیان محبت اور پیار باقی رہے اس کے لئے بھی میں نے حضرت کی ہی جانب رجوع کیا اور اپنی اہلیہ کو حدود شرع کی پاسداری کے ساتھ حضرت کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا، حضرت نے پردے کے پیچھے سے  اہلیہ کو بہت محبت اور پیار سے میری بچی کہکر مخاطب کیا، نماز، تسبیح وغیرہ کی تلقین فرمائی،  پانچ سو روپئے اہلیہ کو اور سو روپئے بچی کو عنایت فرمائے اور چوں کہ یہ ان پڑھ ہیں اس لئے ان کی بسم اللہ بھی شروع کرائی، اور مجھے ان کی تعلیم کی جانب توجہ دینے کی تاکید فرمائی۔
 میری طرح اہلیہ بھی بہت خوبصورت احساسات لیکر واپس ہوئی اور بار بار کہتی رہی کہ ابا جی کتنے پیار سے سمجھا رہے تھے۔ ویسے بھی حضرت کی زبان میں لطافت شائستگی، شستگی، محبت،  پیار اور اثر ہوتا ہے اس لئے زبان سے نکلی ہوئی ایک ایک بات سیدھے جاکر دل پر اثر انداز ہوتی ہے

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پرنہیں طاقت پروازمگررکھتی ہے

 ابھی کچھ روز قبل کی بات ہے ہمارے ایک شاگرد جو بر سر روز گار ہیں بیمار ہوگئے، بیماری بھی کیا تھی بس ذہنی مرض تھا، دل و دماغ پر موت کا خوف سوار ہوگیا تھا،  خوب ڈاکٹروں اور اطبا کو دکھایا بہت علاج کرائے لیکن کچھ بھی آرام نہیں ہورہا تھا نہ کچھ کھا پی رہے تھے اور نہ ہی کسی طرح بھی سکون میسر تھا، سوکھ کر لکڑی جیسے ہوتے چلے جا رہے تھے، بندہ ان حافظ صاحب کو لیکر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور کیفیت بیان کی حضرت نے چند باتیں بیان فرمائی اور قرآن کی آیت بڑھ کر اس کو نصیحت فرمائی کہ موت اٹل حقیقت ہے جو وقت پر آئے گی، چند باتیں ہی تو تھیں جو حضرت نے فرمائی تھیں جو ایسی زود اثر ثابت ہوئی کہ مریض فورا بالکل اچھا ہوگیا اور اچھا بھی ایسا فورا ہوا کہ خانقاہ ہی میں کئی وقت کے بھوکے مریض نے خوب سیر ہوکر کر کھانا کھایا اور کہنے لگا الحمدلله تعالی میں تو بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں اور اگلے ہی روز ماشاء اللہ تعالی صحت مند ہوکر اپنے کام پر کھڑا ہوگیا، یہ حضرت کی زبان کا ہی تو اثر تھا ورنہ نصیحت اور افہام و تفہیم تو بہت لوگ کرچکے تھے۔
مطلق آں آواز از شہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود
ان کی آواز حق کی آواز ہوتی ہے
اگرچہ حلق اللہ والوں کا ہوتا ہے۔

حضرت عام طور سے محبین، معتقدین، مریدین کو نماز، صفائی معاملات، حسن اخلاق، نرمی اور غصہ نہ کرنے کی کثرت سے تاکید فرماتے رہتے ہیں، بندے کو بھی حضرت نے غصہ سے بچنے کے لئے بہت تاکید فرمائی ہے،  حضرت نے ایک مرتبہ فرمایا اگر سامنے والے کو بھی غصہ آگیا تو کیا ہوگا؟ 
حضرت کی نصائح کا اثر یہ ہوا کہ غصہ گویا کافور ہوگیا، اب بحمد اللہ تعالی حضرت کی نصیحت سے غصہ برداشت کرنے کا مادہ پیدا ہوگیا ہے اور کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے۔

ان کو آتا ہے پیارپرغصہ
مجھ کو غصہ پہ پیارآتا ہے ۔ 

حسن اخلاق کے متعلق خوب نصیحتیں فرماتے ہیں ایک مرتبہ اپنے حضرت مسیح الامت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جب ہم سے کوئی موسم سرما میں ہاتھ ملاتا ہے تو کوشش کے باوجود بھی کم از کم  اوہ آہ تو کر ہی لیتے ہیں لیکن حضرت مسیح الامت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی زبان سے ایسے کلمات بھی جاری نہیں ہوتے تھے کہ کہیں سامنے والے کو تکلیف نہ پہنچ جائے۔

قرآن سے حضرت کو بے انتہا محبت و الفت ہے ممکن نہیں کہ کوئی مجلس قرآن کریم کے بغیر تذکرہ کے گزر جائے، حضرت نے سند تجوید شیخ القرا قاری محمد فتح صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے حاصل کی ہے، قاری فتح محمدصاحب پانی پتی اپنے خاص لب ولہجہ اور اشتغال بالقرآن کے حوالہ سے بہت نام ور قاری اور اھل دل بزرگ گزرے ہیں ان کی سند بھی حضرت کو حاصل ہے چنانچہ آپ قرآن کریم بہت اچھا اور فن قرات سے مزین پڑھتے ہیں، قرآن پڑھتے ہوئے منہ بنانے کے بہت خلاف ہیں لہذا خود پڑھ کر سناتے ہیں اور بار بار اپنے  منہ پر ہاتھ لگا کر دکھاتے رہتے ہیں کہ دیکھو کہیں سے منہ تو نہیں بگڑا ہے، جب بندہ سب سے پہلے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو سورہ فاتحہ سن کر سو روپئے انعام کے طور پر بھی حضرت نے عطا فرمائے تھے۔

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن​
گفتار میں، کردار میں، ﷲ کی برہان!​
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت​
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان​
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن​
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن!​

Monday, 27 July 2020

ابوبصیر رضی اللہ تعالی عنہ

میں اکیلا کیا کرسکتا ہوں؟ 

ابوبصیر رضی اللہ تعالی عنہ..........

وہ ایک شخص جس نے مشرکین مکہ کو جھکنے پر مجبور کردیا

ازقلم: چاہت محمد قریشی قاسمی

لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو 

مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں

اونچی نیچی فلک بوس پہاڑیاں دور تک پھیلی ہوئی تھیں، سورج ماند پڑ گیا تھا اور شام کا دھندلکا گہرا ہوتا چلا جا رہا تھا، پتھریلی زمین پر تین اشخاص ابھی بھی محو سفر تھے، ان میں سے ایک شخص دوسرے دو آدمیوں کا قیدی تھا، قیدی کے ہاتھ کسی رسی سے باندھے گئے تھے اور یہ بوجھل قدموں سے نا چاہتے ہوئے بھی ان لوگوں کے ساتھ چلا جا رہا تھا بلکہ کہنا چاہیے گھسٹتا جا رہا تھا لیکن یہ یہ قیدی مایوس نہیں لگتا تھا شاید اسی لئے وہ دوسرے دونوں آدمیوں کی باتوں میں دلچسپی لے رہا تھا اور ان دونوں کی باتوں کے انداز اور اطوار سے ان کی کمیوں خامیوں اور خوبیوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اچانک وہ دونوں ایک جگہ بیٹھ گئے اورانہوں نے اپنا زاد راہ نکالا اور کھانے لگے قیدی جو بہت دیر سے ان کو دیکھ رہا تھا، ان میں سے ایک کے مزاج کو سمجھتے ہوئے کہنے لگا:  جناب عالی آپ کی یہ تلوار بڑی شاندار لگتی ہے؟ 
وہ آدمی فورا شیخی بگھارتے ہوئے بتانے لگا کہ یہ تلوار بہت انمول ہے، میں نے اس تلوار سے بہت سے معرکے سر کئے ہیں، بہت سے لوگوں کی گردن ریتی ہے، بہت سی جگہ فتح کے جھنڈے گاڑے ہیں، وغیرہ وغیرہ ۔ یہ شیخی خور آدمی اپنی مرغوب ترین غذا پاکر خوش ہوگیا تھا۔
قیدی نے بڑے سوچ سمجھ کر پینترہ چلا تھا، آدمی کے مزاج کو پہچان کر قدم اٹھایا تھا لہذا تیر نشانے پر لگا اور قیدی نے موقع کے حساب سے اگلی ضرب لگاتے ہوئے کہا: ہاں واقعی ذرا مجھے بھی تو دکھانا؟ 
اس شخص نے بغیر سوچے سمجھے فورا یہ تلوار قیدی کے ہاتھ میں پکڑا دی بس پھر تو قیدی نے موقع غنیمت جانا اور فورا ہی ایک ضرب میں اس کا سر تن سے جدا کردیا۔
جب دوسرے شخص نے یہ ماجرا دیکھا تو فورا ہی واپس مدینہ کی جانب دوڑ لگادی۔
 یہ واقعہ حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے جنہوں نے اکیلے قریش مکہ کو ناکوں چنے چپوائے اور مشرکین کے دانت کھٹے کردئے اوران کو جھکنے پر مجبور کردیا لہذا آج کے اس پرفتن دور میں جب کہ مظلوم مسلمان پریشان اور مشکلوں میں گھرے ہوئے ہیں، ہر آدمی یہ سوچ رہا ہے کہ میں اکیلا کیا کرسکتا ہوں تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ ابوبصیر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرح وہ بھی بہت کچھ کر سکتا ہے۔
تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب 
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
 صلح حدیبیہ جو در اصل فتح مبین تھی،  اس میں کئی شقیں ایسی تھیں، جو مسلمانوں پر بڑا بھاری ظلم تھا انہیں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ مکہ سے کوئی آدمی مسلمان ہوکر مدینہ آئے گا تو وہ مشرکین مکہ کو واپس کرنا پڑے گا لیکن جو آدمی مدینہ سے مکہ آئے گا وہ واپس نہیں کیا جائے گا لہذا مکہ سے مسلمان ہوکر مدینہ آنے والے ایک شخص حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے اسی لئے حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالی عنہ کے پیچھے پیچھے مشرکین مکہ نے اپنے دو آدمیوں کو بھیج دیا جنہوں نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ معاہدے کے مطابق ہمارا آدمی واپس کر دیجئے!آپ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ ” تم مکے چلے جاؤ، تم جانتے ہو کہ ہم نے کفارقریش سے معاہدہ کرلیا ہے اور ہمارے دین میں عہد شکنی اور غداری جائز نہیں ہے ” حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ !(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ مجھ کو کافروں کے حوالہ فرمائیں گے تاکہ وہ مجھ کو کفر پر مجبور کریں ؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم جاؤ ! خداوند کریم تمہاری رہائی کا کوئی سبب ضرور پیدا کر دے گا۔ آخر مجبور ہو کر حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں کافروں کی حراست میں مکہ واپس جانے لگے۔ لیکن جب مقام ذوالحلیفہ میں پہنچے تو حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالی عنہ نے بڑی دانشمندی سے ایک کو قتل کردیا اور دوسرا مدینہ بھاگ آیا اور اس مرتبہ مدینہ جانے کا منظر بھی بدل گیا، پہلے ابوبصیرؓ آگے تھے اور یہ دونوں کافر پیچھے جب کہ اس مرتبہ ایک شکار ہونے کے بعد دوسرا کافر آگے تھا اور حضرت ابوبصیرؓ ننگی تلوار لئے ہوئے پیچھے پیچھے تھے، کافر ہانپتا کانپتا دہائی دیتا ہوا مسجد نبوی میں گھس گیا، آپﷺ نے اس کو دیکھ کر فرمایا یہ آدمی بہت زیادہ خوف زدہ معلوم ہوتا ہے۔
اس آدمی نے ہانپتے کانپتے ہوئے بارگاہ نبوت میں عرض کیا کہ میرے ساتھی کو ابو بصیر نے قتل کر دیا اور میں بھی ضرور مارا جاؤں گا۔ اتنے میں حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ننگی تلوار ہاتھ میں لئے ہوئے آن پہنچے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذمہ داری پوری کردی تھی کیونکہ صلح نامہ کی شرط کےمطابق آپ نے تو مجھے کفار کے حوالے کردیا تھا۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ اس نے مجھ کو ان کافروں سے نجات دے دی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے  فرمایا 
وَيْلُ اُمِّهٖ مِسْعَرُ حَرْبٍ لَوْ کَانَ لَهٗ اَحَدٌ
اس کی ماں مرے ! یہ تو لڑائی بھڑکا دے گا کاش اس کے ساتھ کوئی آدمی ہوتا جو اس کو روکتا۔
حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس جملہ سے سمجھ گئے کہ اگر مشرکین مکہ پھرمجھے لینے آگئے تو  میں پھر ان کے حوالے کردیا جاؤں گا لہذا وہ وہاں سے چلے گئے اور ساحل سمندر کے قریب مقام’’ عیص‘‘ میں جاکر ٹہرگئے ،حضرت ابوجندل رضی اللہ تعالی عنہ بھی ایمان لانے کے بعد مشرکین مکہ سے پریشان تھے لہذا وہ بھی مکہ سے اپنی زنجیر کاٹ کر بھاگے اور وہیں پہنچ گئے۔ اسی طرح مکہ کے دوسرے مظلوم مسلمانوں نے بھی موقع پاکر کفار کی قید سے نکل نکل کر وہیں پناہ لینی شروع کردی۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر 
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
یہاں تک کہ اس جنگل میں ستر آدمیوں کی جماعت جمع ہوگئی۔یہ مقام اور جگہ بھی سوچ سمجھ کر چنی گئی تھی چونکہ محل وقو ع کے اعتبار سے قریش مکہ کے تجارتی قافلوں کا یہی راستہ تھا۔ جو قافلہ بھی آمدورفت میں یہاں سے گزرتا، یہ لوگ اس کو لوٹ لیتے۔ یہاں تک کہ کفار قریش کی ناک میں دم کردیا۔ بالآخر کفار قریش نے خدا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خط لکھا اور بعض روایتوں کے مطابق ابو سفیان کو بھیج کر درخواست کی کہ ہم صلح نامہ حدیبیہ میں اپنی شرط سے دست بردار ہوجاتے ہیں بس بدلہ میں حضرت ابوبصیرؓ اور ان کے ساتھیوں کو مقام عیص سے مدینہ بلا لیجئے۔
لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالی عنہ کو خط لکھا کہ اپنے ساتھیوں سمیت مدینہ آجائے لیکن وہ خط حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایسی حالت میں پہنچا جب حضرت ابوبصیرؓ پر نزع کا وقت طاری تھا، بس حضرت ابوبصیرؓ اس طرح دنیا سے رخصت ہوئے کہ یہ بشارت نامہ ان کے سینہ مبارک سے لگا ہوا تھا۔

وصل کا دن اور اتنا مختصر 
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے 

 بہرحال حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالی عنہ اکیلے ہونے کے باوجود وہ کام کرگئے کہ کفار اور مشرکین مکہ کا تکبر خاک میں ملادیا، انہیں جھکنے پر مجبور کردیا، اور اکیلے ایک شخص نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیاجو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔
لہذا میرا خیال ہے اس پرفتن دور میں ایسے واقعات ہمارے لئے کارگر ثابت ہوں گے اور ہمیں اس سے بڑا حوصلہ حاصل ہوگا۔

Tuesday, 12 November 2019

جہیز ایک لعنت

جہیز بار گراں بن گیا ہے ملت پر
پڑی ہیں بیٹیاں پاؤں کی بیڑیاں بن کر

ازقلم: چاہت محمد قاسمی

یہ بات ہم سبھی کے لئے ناقابل انکار ہے کہ اس بھاگتی دوڑتی زندگی کے سسکتے بلکتے معاشرے میں ہزاروں بیماریاں جنم لے چکی ہیں جن میں سے شادی بیاہ کی گلی سڑی رسمیں تعفن اور بساند پیدا کر رہی ہیں، اور حالت یہ ہوچلی ہے کہ بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی جب باپ کے کان اپنے نومولود  کی کلکاریاں سننے کے لئے بیتاب ہوتے ہیں تو اسی وقت دل و دماغ کے کسی گوشے سے یہ دعا اور تمنا بھی ابھرنے لگتی ہے کہ خدایا پیدا ہونے والی بیٹی نہ ہو! ورنہ پوری زندگی اس کی شادی کے لئے سامان جمع کرنے میں گزر جائے گی۔ اور ہوتا بھی یہی ہے کہ جب اللہ تعالی یہ جنت کی کنجی عطا کرتا ہے اور اپنی اس خوبصورت رحمت سے نوازتا ہے تو باپ کے سر پر بچی کی پیدائش کے وقت سے ہی اس کی منگنی، بیاہ شادی اور جہیز وغیرہ کی فکر سوار ہوجاتی ہے۔

باپ بوجھ ڈھوتا تھا کیا جہیز دے پاتا
اس لئے وہ شہزادی آج تک کنواری ہے

بعد ازاں ماں باپ کی زندگی کا مقصد محض ایک ہی رہ جاتا ہے کہ جناب عالی کسی طرح اس بچی کی شادی سے فراغت حاصل ہوجائے تو پھر سُکھ کا سانس لیا جائے  لہذا در در کی ٹھوکریں کھائی جاتی ہیں، ایک ایک پائی جمع کی جاتی ہے، بچوں کے ذہن میں بھی یہ بات بیٹھا دی جاتی ہے کہ بس اس زندگی کی تگ و دو کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح لڑکی کی شادی ہوجائے، اور لڑکی رخصت ہوکر اپنے سسرال عزت کے ساتھ پہنچ جائے، اسی لئے تو ہر کام، کمائی اور کاروبار کا مقصد ایک ہی بنالیا جاتا ہے کہ لڑکی کے لئے جہیز کا سامان اکھٹا کرنا ہے، پیٹ کاٹ کر، دل چیر کر، رات دن محنت کر کے اور ایک ایک پائی جوڑ کر جہیز جمع کیا جانے لگتا ہے، پھر اگر کمی رہے تو مکان، دکان، باغان سب بیچا جاسکتا ہے،اس میں بھی کام نہ چلے تو قرض؛ خواہ سود کی ہی شکل میں کیوں نہ ہو اٹھایا جاسکتا ہے۔

ماں باپ کا گھر بکا تو بیٹی کا گھر بسا
کتنی ہے دل خراش رسمِ جہیز بھی

اِدھر لڑکی کے والدین کی نیندیں حرام ہوئی رہتی ہیں، دن بھر محنت کرنے والے والدین راتیں بیٹی کے بیاہ کی فکر میں گزار دیتے ہیں، دل کڑھتا ہے، دماغ سن ہوجاتا ہے، اور آنکھیں حسرت سے ڈھلتی جوانی اور زمانہ شباب سے گذرتی بیٹی کی جانب دیکھتی رہتی ہیں، اور اُدھر لڑکوں کے؛ لالچی اور جہیز کے حریص والدین گھر گھر، در در، گلی گلی، شہر شہر، کوچہ کوچہ اس لئے جھانکتے پھرتے ہیں کہ بس ان کو کسی طرح ایسی بہو مل جائے جو ڈھیر سارا جہیز لے کر آئے، جس میں سب کچھ ہونے کے بعد بھی ان لالچیوں کو کچھ نظر نہیں آتا ہے، جس میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ کمی رہ ہی جاتی ہے۔

جہیز مانگ رہے ہو حیا نہیں آتی
اگر تمہیں گوارا تو بھیک بھی مانگو

نو سو چوہے کھاکر بلی حج کو چلی یہ مثال صادق آتی ہے لڑکے کے ان لالچی والدین پر جو جہیز کا سامان لے جاتے ہوئے کہتے ہیں۔ اجی بہت دے دیا، جس نے لڑکی دیدی اس نے سب کچھ دے دیا، معلوم نہیں یہ جہیز کے لالچی لوگ زیادہ جہیز لانے والی دلہن ڈھونڈھ کر اور ہزاروں بار اشاروں کنایوں میں اور کبھی بذات خود تو کبھی دوسروں کے ذریعہ جہیز کی مانگ کرنے کے بعد اور سب کچھ لے کر اور سمیٹ کر گھر کی طرف چلتے ہوئے یہ جملے کیوں کہتے ہیں؟ اور ہاں یہ جملے بھی بادل نا خواستہ لوگوں کو دکھانے کے لئے ادا کئے جاتے ہیں ورنہ تو دل میں یہی سوچتے ہیں کہ جتنے کی امید تھی اُتنا تو دیا ہی نہیں، فلاں چیز تو دی ہی نہیں،  وہ تو بھول ہی گئے، یہ تو رہ ہی گیا۔

پہلے سنتے تھے بازاروں میں صنم بکتے ہیں
اب کیوں شرم نہیں آتی کہ ہم بکتے ہیں
تیری عظمت کی قسم مرد کی قیمت ہے یہ کم
مرد بک سکتا نہیں بکتے ہیں مٹی کے صنم

کیا ان کو لڑکی کے باپ کا تھکا ہوا چہرا نظر نہیں آتا ہے؟ کیا ان کو لڑکی کے بھائی کا اُترا ہوا مُنہ دکھائی نہیں دیتا ہے؟ کیا یہ خود کسی لڑکی کے باپ نہیں ہوتے؟ کیا ان کو اندازہ نہیں ہوتا کہ اس جہیز کے جمع کرنے میں لڑکی کے والدین نے کتنے پاپڑ بیلے ہوں گے؟ کیا یہ نہیں سمجھتے کہ رات دن کی محنت و مشقت کے بعد بھی لڑکی کے والدین نے گھر گروی رکھا ہوگا یا زمین بیچ کر یہ سامان جمع کیا ہوگا؟ یہ نہیں جانتے کہ اس جہیز کے لئے لڑکی کے والدین نے کتنی راتیں جاگ کر گزاری ہوں گی؟ کیا ان کو نہیں پتا ہوتا کہ لڑکی کے والدین نے اس جہیز کو خون و جگر سے کیسے سینچا ہوگا؟ کیا ان کو علم نہیں ہوتا کہ  لڑکی کے بھائیوں نے اپنے بچپن اور مستقبل دونوں داؤ پر لگا دئے ہوں گے؟ کیا یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ کل ان لینے والوں کو اس سے بھی زیادہ دینا ہوگا؟

مقام عورت پھر خود جان گیا وہ
بنا تھا باپ جب وہ ایک بیٹی کا

اور ہاں یہی جہیز کے لالچی والدین ذمہ دار ہوتے ہیں ان لڑکیوں کے جو جہیز نہ ہونے کے سبب اپنے والدین کے گھروں میں بوڑھی ہورہی ہیں،یہی لوگ صبر کی زد میں آئیں گے ان لڑکیوں کے گذرتے ہر دن اور سسکتی ہر رات کے، اور شادی کے انتظار میں تڑپتی بلکتی اور سسکتی لڑکیوں کے جو جہیز نہ ہونے کے سبب باپ کے گھر ہی میں بوڑھی ہوتی جارہی ہیں۔یہی جہیز کے لالچی لوگ ذمہ دار ہوتے ہیں لڑکی کے ان مظلوم والدین کی پریشانیوں، مشکلوں، دشواریوں اور آنسوؤں کے بھی جو جہیز نہ ہونے کے سبب پیدا ہوتے ہیں، اور یہی لوگ ذمہ دار ہوتے ہیں ان بچوں کے تباہ ہوتے ہوئے مستقبل کے بھی جن کے والدین لڑکی کے جہیز کو جمع کرنے کی لگن میں ان بچوں کو بھول جاتے ہیں اور انہیں بھی مزدوری پر لگا دیتے ہیں، اور انہیں پر ذمہ داری آئے گی اس مکان دکان اور زمین کے بکنے کی جو جہیز کی وجہ سے فروخت کرنے پڑے، اور انہیں پر گناہ ہے اس سودی قرض کا بھی جو جہیز دینے کے لئے اٹھایا گیا،  اور اس معاشرے کو گندا کرنے کے بھی ذمہ دار یہی لوگ کہلائیں گے جس میں یہ بیماری روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔اور ان ہزاروں لڑکیوں کے قاتل بھی یہی لوگ کہلائیں گے جو جہیز کے ڈر کی وجہ سے ماں کے پیٹ میں ہی قتل کردی جاتی ہیں۔
اور ہاں پھر آپ مجھ کو یہ بھی کہنے دیجئے کہ اگر ہم جہیز لینے والے ہیں تو ہم یقینا انہی لالچی اور طماع والدین میں شمار کئے جائیں گے اور یاد رکھئے نجاست پر سونے کا ورق لگانے سے وہ پاک نہیں ہوجاتی۔ اس طرح ہزاروں برائیاں لئے ہوئے جہیز کو حدیث سے ثابت بتا کر گناہوں میں اضافہ تو ہوسکتا ہے لیکن یہ جہیز بالکل بھی جائز اور پاک نہیں ہوسکتا ہے۔اگر اختلاف کے بعد بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو دئے گئے اس سامان کو جہیز مان بھی لیا جائے تو العیاذ باللہ اس سے یہ خرافات اور اس برائیوں کے پلندہ جہیز کو ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے۔
جہیز آخر کیوں دیا جاتا ہے؟ کونسی ایسی چیز ہےجس کی وجہ سے انسان جہیز کو برا جاننے کے بعد بھی دینے پر مجبور ہوتا ہے؟اور کونسی ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے انسان جہیز کے لئے ہر طرح کی پریشانی اٹھانے کے لئے تیار رہتا ہے۔بڑے غور و خوض اور تحقیق کے بعد درج ذیل آٹھ چیزیں ایسی نظر آتی ہیں جو لاکھ برائیوں کے بعد بھی جہیز دینے کا سبب بنتی ہیں اور ہمیشہ انہیں برائیوں کی وجہ سے جہیز دیا جاتا ہے، اور انسان کو انہیں چیزوں میں سے کوئی نہ کوئی یا سبھی چیزیں جہیز دینے کی طرف ابھارتی ہیں اور انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ میں اپنی بیٹی کو زیادہ سے زیادہ جہیز دوں، خواہ لُٹ جاوں، خواہ مٹ جاوں، خواہ گھر بیچوں یا سود پر قرض لوں لیکن جہیز ضرور دوں، ان آٹھ چیزوں پر آپ بھی نظر دوڑا لیں۔

1۔ جہیز دینے سے اپنی شان و شوکت اور بڑائی کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔

2۔ لڑکی کے والدین اپنے نام و نمود اور شہرت حاصل کرنے کے لئے بھی جہیز دیتے ہیں۔

3۔  جہیز بطور رشوت بھی دیا جاتا ہے تاکہ سسرال والے بچی کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کریں۔

4۔ برادری، بھائی بند اور محلے والوں سے مقابلہ آرائی کے لئے بھی جہیز دیتے ہیں۔

5۔ طمع اور لالچ یعنی جہیز دینے کے بعد اپنے لڑکے کے لئے اس سے زیادہ جہیز لینے کا لالچ بھی جہیز دینے کا سبب بنتا ہے۔

6۔ وراثت سے محروم کرنے کے لئے ۔ یعنی جہیز کی وجہ سے اکثر لڑکیاں وراثت سے محروم کردی جاتی ہیں اور اسی لئے بہت سے لوگ جہیز دیتے ہیں کہ جہیز کے بعد وراثت (جو اکثر جہیز سے کئی گُنا زیادہ ہوتی ہے) کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔

7۔ محض ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی رسم کے طور پر بھی جہیز دیا جاتا ہے۔

8۔ بیٹی اور داماد کے لئے تعاون، ہدیہ اور صلہ رحمی کے طور پر بھی جہیز دیا جاتا ہے۔

اگلی قسط میں جہیز کی اِن آٹھوں وجوہ پر ان شاء اللہ تفصیلی بات کریں گے۔
2019/11/12 18:33

Wednesday, 15 August 2018

فوٹو اور سیلفی پر ایک خاص مضمون

حاجی!!!  خدارا سیلفی سے بچیے

چاہت محمد قاسمی

حج کا موقعہ ہے اور حاجیوں کے لیے سیلفی کا سیزن چل رہا ہے۔
سال گذشتہ بڑا عجیب منظر دیکھا، الامان و الحفیظ
کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے…… العیاذ باللہ …… کچھ لوگوں کو دیکھا روضہ اطہر کی جانب یعنی بالکل اندر سنہری جالیوں کے سامنے  پشت کرکے دعا وغیرہ کا پوز دیکر فوٹو کھنچا رہے ہیں، سیلفی لے رہے ہیں …… استغفراللہ …… یہ وہی جالیاں ہوتی ہیں جن کی جانب نظر اٹھاتے ہوئے ایک صاحبِ ایمان شرم محسوس کرتا ہے اور سلام کرتے ہوئے اپنے گناہوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں پر نادم ہوتا ہے  اور آج کے زمانے کے لوگ اسی کی جانب پشت کرکے سلیفی لے رہے ہیں۔
آہ …… ان جالیوں کے پیچھے وہی تاجدار مدینہ باعث کن فکاں جلوہ افروز ہوتا ہے جس نے تصویر کَشی سے منع فرمایا ہے لیکن افسوس بلکہ صد افسوس آج کے زمانے میں لوگ اسی کے ملک، اسی کے  شہر، اسی کی مسجد اور اسی کے روضہ کے سامنے تصویر لے کر (العیاذ باللہ) آخر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
ہمارے بزرگان تو کعبۃُ اللہ کی جانب نظر اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں جُٹاپاتے تھے لیکن جب ہم مکہ آئے تو وہاں بھی عجیب منظر دیکھا کوئی صاحب طواف کرتے ہوئے سیلفی لے رہے ہیں تو کوئی صاحب کعبے کی جانب پشت کرکے سیلفی لے رہے ہیں، ہر چہار جانب بہت سے لوگ اسی فعلِ کریہہ میں مشغول نظر آئے۔ اس کے علاوہ جنت البقیع، جبل احد،  جبل نور، منی، جمرات حتی کہ میدان حشر کا نظارہ پیش کرنے والے عرفات میں بھی یہی حال دیکھا۔
مسجد قبلتین میں ہم نے دو رکعت نماز کی نیت باندھی تو کَھچ کَھچ سیلفیوں کی آوازے آنے لگی، ہم نے سلام پھیر کر دیکھا تو ایک صاحب برابر میں مسجد کے اندر سیلفی لینے میں مشغول نظر آئے، ہم نے عرض کیا بھائی کم از کم اس کی آواز تو بند کرلیجیے دوسروں کی تکلیف کا باعث تو نہ بنیے لیکن وہ صاحب ہماری اس درخواست پر اکڑ پڑے کہ کیسی نماز پڑھتے ہو جو اس آواز سے بھی ڈسٹرب اور منتشر ہوجاتے ہو؟
ہم نے یہی عہد کیا تھا کہ کوئی بھی کیسی بھی چیز نظر آئے، کتنی بھی دل کو بھائے اور کتنی بھی خوبصورت لگے ہم بالکل بھی کسی چیز کا فوٹو نہیں لیں گے، خواہ وہ چیز جاندار ہو یا غیر جاندار …… ہم سے ہمارے ایک بہت ہی خاص دوست نے فرمائش کی کہ طواف لائیو دکھا دینا؟ …… ہم  نے عرض کیا کہ جب کہیں گے ہم یوٹیوب کھول کر دکھا دیں گے لیکن وہاں بالکل بھی ایسی گستاخی کرنے کی جسارت نہیں کریں گے۔ ناراض ہو تو ہوجانے دو۔۔۔ بھلا خدا کی رضا کے سامنے بندے کی رضا کی کوئی اہمیت ہوسکتی ہے؟
میں اپنے ساتھیوں کو بھی سمجھاتا تھا کہ جو فوٹو آپ لیں گے اس میں نہ اتنی کلیرٹی ہوگی اور نہ ہی خوبصورتی لیکن وہی فوٹو نیٹ پر آپ کو بہتر سے بہتر مل جائے گی جب بھی کسی ساتھی کو دکھانا یا سمجھانا چاہیں یوٹیوب اور گوگل کا استعمال کریں لیکن احباب نے ہمیں چھوڑنا گوارا کیا لیکن سیلفی نہیں چھوڑی۔
آنے کے بعد بہت سے لوگوں نے ہم سے بھی مطالبہ کیا کہ جناب موبائل میں وہاں کے کچھ مناظر دکھائیں، ہمارے منع کرنے پر کچھ لوگوں کو تو یقین ہی نہیں آیا لہذا انہوں نے باقاعدہ موبائل چیک کیا لیکن الحمدلله تعالی وہاں کچھ بھی نہ پایا۔۔۔ ہمارا خیال اور سوچ تھی کہ ہم اپنے مقام پر برے سے برے سہی لیکن یہاں تو کچھ نہ کچھ بچنے کی کوشش کرتے رہیں۔

بس آخر میں سبھی بھائیوں اور خاص طور سے حاجیوں سے درخواست کروں گا کہ خدارا کم از کم ان پاک مقامات میں تو احتیاط کیجیے ، اللہ ﷻ اور نبی اکرمﷺ کی کچھ تو شرم کیجئے آپ وہاں عبادت اور اطاعت کے لیے گیے ہیں اپنے حج کی شہادت اکھٹی کرنے نہیں کہ ہر جگہ کی تصویر لیتے پھریں۔

صرف تین احادیثِ نبوی ﷺ ملاحظہ فرمائے تاکہ تصویر سے بچنے میں کچھ مدد ملے

❶ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
( قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَهَبَ يَخْلُقُ كَخَلْقِي، فَلْيَخْلُقُوا ذَرَّةً أَوْ لِيَخْلُقُوا حَبَّةً أَوْ لِيَخْلُقُوا شَعِيرَةً (البخاری)
“اللہ تعالی فرماتا ہے: اس سے بڑا ظالم کون ہو گا جو میری تخلیق جیسی تخلیق کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے لوگ ایک ذرہ، ایک دانہ یا ایک جَو ہی بنا کر دکھلائیں۔

❷ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا يَوْمَ القِيَامَةِ الَّذِينَ يُضَاهُونَ بِخَلْقِ اللَّهِ (البخاری)
“قیامت کے دن سب سے سخت عذاب ان لوگوں کو ہو گا جو (چیزوں کو بنانے اور پیدا کرنے میں) اللہ تعالی کی تخلیق کی مشابہت کرتے ہیں۔

❸ كُلُّ مُصَوِّرٍ فِي النَّارِ، يَجْعَلُ لَهُ، بِكُلِّ صُورَةٍ صَوَّرَهَا، نَفْسٌ يُّعَذِّبُ بِهَا فِي جَهَنَّمَ ( بخاری)
“ہر مصور جہنم میں جائے گا۔ اس کی بنائی ہوئی ہر تصویر کے بدلے میں ایک جان بنائی جائے گی جس کے ذریعہ سے اس (مصور)کو جہنم میں عذاب دیا جائےگا۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی

Wednesday, 8 February 2017

پرانے کپڑوں جوتوں وغیرہ کا کیا جائے، ایک خوبصورت مضمون

استعمال شدہ چیزوں کا مصرف

چاہت محمد قاسمی

استعمال شدہ کپڑے، جوتے، چپل وغیرہ جنہیں ہم گراں قدر قیمت دے کر خریدتے ہیں اور کبھی ضرورت میں، کبھی شوقیہ استعمال کرتے رہتے ہیں، کثرتِ استعمال کی وجہ سے  وہ چیزیں قابلِ استعمال ہونے کے باوجود کبھی ہمارے دل سے اتر جاتی ہیں اور کبھی ان میں معمولی نقص پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اسی قسم کی نئی اعلی ترین شے ہماری منظور نظر بن جاتی ہیں۔
استعمال شدہ بوسیدہ پرانے کپڑے، جوتے، چپل وغیرہ کا کیا کیا جائے؟ یہ ایک مستقل سوال ہے اس کے چند مصارف ہوسکتے ہیں جیسے ان کو پھینک دیا جائے، فروخت کردیا جائے، اپنے پاس رہنے دیا جائے یا پھر بہترین اور اعلی مصرف یہ ہے کہ ان کو کسی مستحق کو دے دیا جائے، یہی آخری مصرف ہمارا موضوع ہے،یہی بہترین اور اعلی مصرف ہے اور اسی کی جانب حدیث شریف میں رغبت دلائی گئی ہے۔ ترمذی شریف میں معلم انسانیت نبی اکرم محمد مصطفی ﷺ کا ایک نصیحت آمیز واقعہ کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

لَبِسَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ثَوْبًا جَدِيدًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَمَدَ إِلَى الثَّوْبِ الَّذِي أَخْلَقَ فَتَصَدَّقَ بِهِ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏    مَنْ لَبِسَ ثَوْبًا جَدِيدًا،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَمَدَ إِلَى الثَّوْبِ الَّذِي أَخْلَقَ فَتَصَدَّقَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ فِي كَنَفِ اللَّهِ وَفِي حِفْظِ اللَّهِ وَفِي سَتْرِ اللَّهِ حَيًّا وَمَيِّتًا   . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا غَرِيبٌ.

عمر بن خطاب نے نیا کپڑا پہنا پھر یہ دعا پڑھی «الحمد لله الذي كساني ما أواري به عورتي وأتجمل به في حياتي» ”( ترجمہ: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے ایسا کپڑا پہنایا جس سے میں اپنی ستر پوشی کرتا ہوں اور اپنی زندگی میں حسن و جمال پیدا کرتا ہوں) پھر انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: ”جس نے نیا کپڑا پہنا پھر یہ دعا پڑھی: «الحمد لله الذي كساني ما أواري به عورتي وأتجمل به في حياتي» پھر اس نے اپنا پرانا (اتارا ہوا) کپڑا لیا اور اسے صدقہ میں دے دیا، تو وہ اللہ کی حفاظت و پناہ میں رہے گا زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی“( ترمذی، 3560)

اس حدیث شریف میں پرانے لباس کے دینے کو صدقہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور دینے والے کو یہ خوش خبری بھی سنائی گئی ہے کہ یہ پرانے کپڑے دینے والا زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی اللہ کی حفاظت اور پناہ میں رہے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پرانی بوسیدہ چیز کسی کو کس طرح اور کس انداز میں دینی چاہئے، اس باب میں راقم آثم کا معمول تو یہ ہے کہ میں ان پرانی اشیا کو مرمت کراکے دیتا ہوں جیسے جوتوں پر پالش یا سلائی وغیرہ کی خامیوں کو دور کراکر، اسی طرح اگر لباس ہو تو اسکو دھوکر استری کرکے، جب ان چیزوں کو بہتر اور اچھی حالت میں ہدیہ کیا جاتا ہے تو لینے والوں کے دل میں بھی پرانی چیز کی اہمیت اور عزت پیدا ہوجاتی ہے اور پھر وہ ان کو خوشی خوشی استعمال بھی کر لیتے ہیں، دوسری بات میں اپنی چیزیں ایسے ہی شخص کو دیتا ہوں جن کا سائز ایسا ہو جو میری اشیا کو استعمال کر سکیں ورنہ انجام کار بے کار ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ صرف مجھ تنہا کا حال نہیں ہے بلکہ میں اپنے خویش و اقارب میں سب کو ایسا ہی کرنے کی رغبت دلاتا رہتا ہوں، جیسے ابھی تقریبا ایک دو مہینے قبل میں اپنے چھوٹے بھائی کے پاس دہلی میں ایک ضروری کام سے گیا ہوا تھا، ایک جگہ برادر خورد کے جوتے کا ذرا سا تلوا اکھڑ گیا، موچی دیکھ کر میں نے جڑوانے کا مشورہ دیا تو جواب میں اس نے کہا کہ میں دوسرے خریدنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور بعد ازاں ان کو پھینک دیا جائے گا، میں نے کہا پھر ان کو جڑوانا اور ان کی مرمت کرانا اور بھی زیادہ ضروری ہے، جس کے بعد انہیں کسی کو دیدینا زیادہ بہتر رہے گا اور اس میں آپ ثواب کے مستحق بھی ہوجائیں گے۔

اس باب میں مزید ایک بات یہ ذکر کی جانی ضروری ہے کہ ہمارے کچھ بزرگوں اور علما کا یہ طریقہ بھی قابل ذکر رہا ہے کہ وہ اپنے پاس موجود کپڑوں کی ایک تعداد متعین کرکے رکھتے تھے کہ ہمیں اپنے پاس 3 جوڑوں یا 5 جوڑوں سے زیادہ نہیں رکھنے ہیں جیسے ہی کوئی نیا لباس تیار ہوکر آتا، وہ اپنے پاس متعین تعداد سے ایک لباس فورا کسی کو دے دیتے تھے تاکہ کپڑوں کی متعین تعداد باقی رہے، یہ عمل ہمارے لئے بہترین اصول زندگی بن سکتا ہے۔

آخری بات: ضروری نہیں کہ یہ پرانی اشیا دینے کے لئے آپ کسی غریب سے غریب تر کو ہی تلاش کریں بلکہ اس کے لئے میں یہ بھی عرض  کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ پہلے اپنے گھر میں چھوٹے بڑے بھائیوں میں سے کسی کو دیکھئے، پھر کسی رشتہ دار دوست و احباب، نوکر، شاگرد وغیرہ کو، بعد ازاں کوئی بھی ہوسکتا ہے۔۔۔ اس سے جہاں آپ دوگنے ثواب کے مستحق ٹہریں گے وہیں یہ عمل آپ کے تئیں محبت میں بھی اضافہ کا سبب بن جائے گا۔

دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی