Sunday, 22 September 2024
مسنون تعزیت اور ہمارا غلط رویہ
Thursday, 12 September 2024
حضرت جی مولانا قاری شاہ عبدالستار بوڑیوی دامت برکاتھم
Monday, 27 July 2020
ابوبصیر رضی اللہ تعالی عنہ
Tuesday, 12 November 2019
جہیز ایک لعنت
جہیز بار گراں بن گیا ہے ملت پر
پڑی ہیں بیٹیاں پاؤں کی بیڑیاں بن کر
ازقلم: چاہت محمد قاسمی
یہ بات ہم سبھی کے لئے ناقابل انکار ہے کہ اس بھاگتی دوڑتی زندگی کے سسکتے بلکتے معاشرے میں ہزاروں بیماریاں جنم لے چکی ہیں جن میں سے شادی بیاہ کی گلی سڑی رسمیں تعفن اور بساند پیدا کر رہی ہیں، اور حالت یہ ہوچلی ہے کہ بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی جب باپ کے کان اپنے نومولود کی کلکاریاں سننے کے لئے بیتاب ہوتے ہیں تو اسی وقت دل و دماغ کے کسی گوشے سے یہ دعا اور تمنا بھی ابھرنے لگتی ہے کہ خدایا پیدا ہونے والی بیٹی نہ ہو! ورنہ پوری زندگی اس کی شادی کے لئے سامان جمع کرنے میں گزر جائے گی۔ اور ہوتا بھی یہی ہے کہ جب اللہ تعالی یہ جنت کی کنجی عطا کرتا ہے اور اپنی اس خوبصورت رحمت سے نوازتا ہے تو باپ کے سر پر بچی کی پیدائش کے وقت سے ہی اس کی منگنی، بیاہ شادی اور جہیز وغیرہ کی فکر سوار ہوجاتی ہے۔
باپ بوجھ ڈھوتا تھا کیا جہیز دے پاتا
اس لئے وہ شہزادی آج تک کنواری ہے
بعد ازاں ماں باپ کی زندگی کا مقصد محض ایک ہی رہ جاتا ہے کہ جناب عالی کسی طرح اس بچی کی شادی سے فراغت حاصل ہوجائے تو پھر سُکھ کا سانس لیا جائے لہذا در در کی ٹھوکریں کھائی جاتی ہیں، ایک ایک پائی جمع کی جاتی ہے، بچوں کے ذہن میں بھی یہ بات بیٹھا دی جاتی ہے کہ بس اس زندگی کی تگ و دو کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح لڑکی کی شادی ہوجائے، اور لڑکی رخصت ہوکر اپنے سسرال عزت کے ساتھ پہنچ جائے، اسی لئے تو ہر کام، کمائی اور کاروبار کا مقصد ایک ہی بنالیا جاتا ہے کہ لڑکی کے لئے جہیز کا سامان اکھٹا کرنا ہے، پیٹ کاٹ کر، دل چیر کر، رات دن محنت کر کے اور ایک ایک پائی جوڑ کر جہیز جمع کیا جانے لگتا ہے، پھر اگر کمی رہے تو مکان، دکان، باغان سب بیچا جاسکتا ہے،اس میں بھی کام نہ چلے تو قرض؛ خواہ سود کی ہی شکل میں کیوں نہ ہو اٹھایا جاسکتا ہے۔
ماں باپ کا گھر بکا تو بیٹی کا گھر بسا
کتنی ہے دل خراش رسمِ جہیز بھی
اِدھر لڑکی کے والدین کی نیندیں حرام ہوئی رہتی ہیں، دن بھر محنت کرنے والے والدین راتیں بیٹی کے بیاہ کی فکر میں گزار دیتے ہیں، دل کڑھتا ہے، دماغ سن ہوجاتا ہے، اور آنکھیں حسرت سے ڈھلتی جوانی اور زمانہ شباب سے گذرتی بیٹی کی جانب دیکھتی رہتی ہیں، اور اُدھر لڑکوں کے؛ لالچی اور جہیز کے حریص والدین گھر گھر، در در، گلی گلی، شہر شہر، کوچہ کوچہ اس لئے جھانکتے پھرتے ہیں کہ بس ان کو کسی طرح ایسی بہو مل جائے جو ڈھیر سارا جہیز لے کر آئے، جس میں سب کچھ ہونے کے بعد بھی ان لالچیوں کو کچھ نظر نہیں آتا ہے، جس میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ کمی رہ ہی جاتی ہے۔
جہیز مانگ رہے ہو حیا نہیں آتی
اگر تمہیں گوارا تو بھیک بھی مانگو
نو سو چوہے کھاکر بلی حج کو چلی یہ مثال صادق آتی ہے لڑکے کے ان لالچی والدین پر جو جہیز کا سامان لے جاتے ہوئے کہتے ہیں۔ اجی بہت دے دیا، جس نے لڑکی دیدی اس نے سب کچھ دے دیا، معلوم نہیں یہ جہیز کے لالچی لوگ زیادہ جہیز لانے والی دلہن ڈھونڈھ کر اور ہزاروں بار اشاروں کنایوں میں اور کبھی بذات خود تو کبھی دوسروں کے ذریعہ جہیز کی مانگ کرنے کے بعد اور سب کچھ لے کر اور سمیٹ کر گھر کی طرف چلتے ہوئے یہ جملے کیوں کہتے ہیں؟ اور ہاں یہ جملے بھی بادل نا خواستہ لوگوں کو دکھانے کے لئے ادا کئے جاتے ہیں ورنہ تو دل میں یہی سوچتے ہیں کہ جتنے کی امید تھی اُتنا تو دیا ہی نہیں، فلاں چیز تو دی ہی نہیں، وہ تو بھول ہی گئے، یہ تو رہ ہی گیا۔
پہلے سنتے تھے بازاروں میں صنم بکتے ہیں
اب کیوں شرم نہیں آتی کہ ہم بکتے ہیں
تیری عظمت کی قسم مرد کی قیمت ہے یہ کم
مرد بک سکتا نہیں بکتے ہیں مٹی کے صنم
کیا ان کو لڑکی کے باپ کا تھکا ہوا چہرا نظر نہیں آتا ہے؟ کیا ان کو لڑکی کے بھائی کا اُترا ہوا مُنہ دکھائی نہیں دیتا ہے؟ کیا یہ خود کسی لڑکی کے باپ نہیں ہوتے؟ کیا ان کو اندازہ نہیں ہوتا کہ اس جہیز کے جمع کرنے میں لڑکی کے والدین نے کتنے پاپڑ بیلے ہوں گے؟ کیا یہ نہیں سمجھتے کہ رات دن کی محنت و مشقت کے بعد بھی لڑکی کے والدین نے گھر گروی رکھا ہوگا یا زمین بیچ کر یہ سامان جمع کیا ہوگا؟ یہ نہیں جانتے کہ اس جہیز کے لئے لڑکی کے والدین نے کتنی راتیں جاگ کر گزاری ہوں گی؟ کیا ان کو نہیں پتا ہوتا کہ لڑکی کے والدین نے اس جہیز کو خون و جگر سے کیسے سینچا ہوگا؟ کیا ان کو علم نہیں ہوتا کہ لڑکی کے بھائیوں نے اپنے بچپن اور مستقبل دونوں داؤ پر لگا دئے ہوں گے؟ کیا یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ کل ان لینے والوں کو اس سے بھی زیادہ دینا ہوگا؟
مقام عورت پھر خود جان گیا وہ
بنا تھا باپ جب وہ ایک بیٹی کا
اور ہاں یہی جہیز کے لالچی والدین ذمہ دار ہوتے ہیں ان لڑکیوں کے جو جہیز نہ ہونے کے سبب اپنے والدین کے گھروں میں بوڑھی ہورہی ہیں،یہی لوگ صبر کی زد میں آئیں گے ان لڑکیوں کے گذرتے ہر دن اور سسکتی ہر رات کے، اور شادی کے انتظار میں تڑپتی بلکتی اور سسکتی لڑکیوں کے جو جہیز نہ ہونے کے سبب باپ کے گھر ہی میں بوڑھی ہوتی جارہی ہیں۔یہی جہیز کے لالچی لوگ ذمہ دار ہوتے ہیں لڑکی کے ان مظلوم والدین کی پریشانیوں، مشکلوں، دشواریوں اور آنسوؤں کے بھی جو جہیز نہ ہونے کے سبب پیدا ہوتے ہیں، اور یہی لوگ ذمہ دار ہوتے ہیں ان بچوں کے تباہ ہوتے ہوئے مستقبل کے بھی جن کے والدین لڑکی کے جہیز کو جمع کرنے کی لگن میں ان بچوں کو بھول جاتے ہیں اور انہیں بھی مزدوری پر لگا دیتے ہیں، اور انہیں پر ذمہ داری آئے گی اس مکان دکان اور زمین کے بکنے کی جو جہیز کی وجہ سے فروخت کرنے پڑے، اور انہیں پر گناہ ہے اس سودی قرض کا بھی جو جہیز دینے کے لئے اٹھایا گیا، اور اس معاشرے کو گندا کرنے کے بھی ذمہ دار یہی لوگ کہلائیں گے جس میں یہ بیماری روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔اور ان ہزاروں لڑکیوں کے قاتل بھی یہی لوگ کہلائیں گے جو جہیز کے ڈر کی وجہ سے ماں کے پیٹ میں ہی قتل کردی جاتی ہیں۔
اور ہاں پھر آپ مجھ کو یہ بھی کہنے دیجئے کہ اگر ہم جہیز لینے والے ہیں تو ہم یقینا انہی لالچی اور طماع والدین میں شمار کئے جائیں گے اور یاد رکھئے نجاست پر سونے کا ورق لگانے سے وہ پاک نہیں ہوجاتی۔ اس طرح ہزاروں برائیاں لئے ہوئے جہیز کو حدیث سے ثابت بتا کر گناہوں میں اضافہ تو ہوسکتا ہے لیکن یہ جہیز بالکل بھی جائز اور پاک نہیں ہوسکتا ہے۔اگر اختلاف کے بعد بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو دئے گئے اس سامان کو جہیز مان بھی لیا جائے تو العیاذ باللہ اس سے یہ خرافات اور اس برائیوں کے پلندہ جہیز کو ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے۔
جہیز آخر کیوں دیا جاتا ہے؟ کونسی ایسی چیز ہےجس کی وجہ سے انسان جہیز کو برا جاننے کے بعد بھی دینے پر مجبور ہوتا ہے؟اور کونسی ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے انسان جہیز کے لئے ہر طرح کی پریشانی اٹھانے کے لئے تیار رہتا ہے۔بڑے غور و خوض اور تحقیق کے بعد درج ذیل آٹھ چیزیں ایسی نظر آتی ہیں جو لاکھ برائیوں کے بعد بھی جہیز دینے کا سبب بنتی ہیں اور ہمیشہ انہیں برائیوں کی وجہ سے جہیز دیا جاتا ہے، اور انسان کو انہیں چیزوں میں سے کوئی نہ کوئی یا سبھی چیزیں جہیز دینے کی طرف ابھارتی ہیں اور انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ میں اپنی بیٹی کو زیادہ سے زیادہ جہیز دوں، خواہ لُٹ جاوں، خواہ مٹ جاوں، خواہ گھر بیچوں یا سود پر قرض لوں لیکن جہیز ضرور دوں، ان آٹھ چیزوں پر آپ بھی نظر دوڑا لیں۔
1۔ جہیز دینے سے اپنی شان و شوکت اور بڑائی کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔
2۔ لڑکی کے والدین اپنے نام و نمود اور شہرت حاصل کرنے کے لئے بھی جہیز دیتے ہیں۔
3۔ جہیز بطور رشوت بھی دیا جاتا ہے تاکہ سسرال والے بچی کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کریں۔
4۔ برادری، بھائی بند اور محلے والوں سے مقابلہ آرائی کے لئے بھی جہیز دیتے ہیں۔
5۔ طمع اور لالچ یعنی جہیز دینے کے بعد اپنے لڑکے کے لئے اس سے زیادہ جہیز لینے کا لالچ بھی جہیز دینے کا سبب بنتا ہے۔
6۔ وراثت سے محروم کرنے کے لئے ۔ یعنی جہیز کی وجہ سے اکثر لڑکیاں وراثت سے محروم کردی جاتی ہیں اور اسی لئے بہت سے لوگ جہیز دیتے ہیں کہ جہیز کے بعد وراثت (جو اکثر جہیز سے کئی گُنا زیادہ ہوتی ہے) کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔
7۔ محض ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی رسم کے طور پر بھی جہیز دیا جاتا ہے۔
8۔ بیٹی اور داماد کے لئے تعاون، ہدیہ اور صلہ رحمی کے طور پر بھی جہیز دیا جاتا ہے۔
اگلی قسط میں جہیز کی اِن آٹھوں وجوہ پر ان شاء اللہ تفصیلی بات کریں گے۔
2019/11/12 18:33
Wednesday, 15 August 2018
فوٹو اور سیلفی پر ایک خاص مضمون
حاجی!!! خدارا سیلفی سے بچیے
چاہت محمد قاسمی
حج کا موقعہ ہے اور حاجیوں کے لیے سیلفی کا سیزن چل رہا ہے۔
سال گذشتہ بڑا عجیب منظر دیکھا، الامان و الحفیظ
کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے…… العیاذ باللہ …… کچھ لوگوں کو دیکھا روضہ اطہر کی جانب یعنی بالکل اندر سنہری جالیوں کے سامنے پشت کرکے دعا وغیرہ کا پوز دیکر فوٹو کھنچا رہے ہیں، سیلفی لے رہے ہیں …… استغفراللہ …… یہ وہی جالیاں ہوتی ہیں جن کی جانب نظر اٹھاتے ہوئے ایک صاحبِ ایمان شرم محسوس کرتا ہے اور سلام کرتے ہوئے اپنے گناہوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں پر نادم ہوتا ہے اور آج کے زمانے کے لوگ اسی کی جانب پشت کرکے سلیفی لے رہے ہیں۔
آہ …… ان جالیوں کے پیچھے وہی تاجدار مدینہ باعث کن فکاں جلوہ افروز ہوتا ہے جس نے تصویر کَشی سے منع فرمایا ہے لیکن افسوس بلکہ صد افسوس آج کے زمانے میں لوگ اسی کے ملک، اسی کے شہر، اسی کی مسجد اور اسی کے روضہ کے سامنے تصویر لے کر (العیاذ باللہ) آخر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
ہمارے بزرگان تو کعبۃُ اللہ کی جانب نظر اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں جُٹاپاتے تھے لیکن جب ہم مکہ آئے تو وہاں بھی عجیب منظر دیکھا کوئی صاحب طواف کرتے ہوئے سیلفی لے رہے ہیں تو کوئی صاحب کعبے کی جانب پشت کرکے سیلفی لے رہے ہیں، ہر چہار جانب بہت سے لوگ اسی فعلِ کریہہ میں مشغول نظر آئے۔ اس کے علاوہ جنت البقیع، جبل احد، جبل نور، منی، جمرات حتی کہ میدان حشر کا نظارہ پیش کرنے والے عرفات میں بھی یہی حال دیکھا۔
مسجد قبلتین میں ہم نے دو رکعت نماز کی نیت باندھی تو کَھچ کَھچ سیلفیوں کی آوازے آنے لگی، ہم نے سلام پھیر کر دیکھا تو ایک صاحب برابر میں مسجد کے اندر سیلفی لینے میں مشغول نظر آئے، ہم نے عرض کیا بھائی کم از کم اس کی آواز تو بند کرلیجیے دوسروں کی تکلیف کا باعث تو نہ بنیے لیکن وہ صاحب ہماری اس درخواست پر اکڑ پڑے کہ کیسی نماز پڑھتے ہو جو اس آواز سے بھی ڈسٹرب اور منتشر ہوجاتے ہو؟
ہم نے یہی عہد کیا تھا کہ کوئی بھی کیسی بھی چیز نظر آئے، کتنی بھی دل کو بھائے اور کتنی بھی خوبصورت لگے ہم بالکل بھی کسی چیز کا فوٹو نہیں لیں گے، خواہ وہ چیز جاندار ہو یا غیر جاندار …… ہم سے ہمارے ایک بہت ہی خاص دوست نے فرمائش کی کہ طواف لائیو دکھا دینا؟ …… ہم نے عرض کیا کہ جب کہیں گے ہم یوٹیوب کھول کر دکھا دیں گے لیکن وہاں بالکل بھی ایسی گستاخی کرنے کی جسارت نہیں کریں گے۔ ناراض ہو تو ہوجانے دو۔۔۔ بھلا خدا کی رضا کے سامنے بندے کی رضا کی کوئی اہمیت ہوسکتی ہے؟
میں اپنے ساتھیوں کو بھی سمجھاتا تھا کہ جو فوٹو آپ لیں گے اس میں نہ اتنی کلیرٹی ہوگی اور نہ ہی خوبصورتی لیکن وہی فوٹو نیٹ پر آپ کو بہتر سے بہتر مل جائے گی جب بھی کسی ساتھی کو دکھانا یا سمجھانا چاہیں یوٹیوب اور گوگل کا استعمال کریں لیکن احباب نے ہمیں چھوڑنا گوارا کیا لیکن سیلفی نہیں چھوڑی۔
آنے کے بعد بہت سے لوگوں نے ہم سے بھی مطالبہ کیا کہ جناب موبائل میں وہاں کے کچھ مناظر دکھائیں، ہمارے منع کرنے پر کچھ لوگوں کو تو یقین ہی نہیں آیا لہذا انہوں نے باقاعدہ موبائل چیک کیا لیکن الحمدلله تعالی وہاں کچھ بھی نہ پایا۔۔۔ ہمارا خیال اور سوچ تھی کہ ہم اپنے مقام پر برے سے برے سہی لیکن یہاں تو کچھ نہ کچھ بچنے کی کوشش کرتے رہیں۔
بس آخر میں سبھی بھائیوں اور خاص طور سے حاجیوں سے درخواست کروں گا کہ خدارا کم از کم ان پاک مقامات میں تو احتیاط کیجیے ، اللہ ﷻ اور نبی اکرمﷺ کی کچھ تو شرم کیجئے آپ وہاں عبادت اور اطاعت کے لیے گیے ہیں اپنے حج کی شہادت اکھٹی کرنے نہیں کہ ہر جگہ کی تصویر لیتے پھریں۔
صرف تین احادیثِ نبوی ﷺ ملاحظہ فرمائے تاکہ تصویر سے بچنے میں کچھ مدد ملے
❶ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
( قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَهَبَ يَخْلُقُ كَخَلْقِي، فَلْيَخْلُقُوا ذَرَّةً أَوْ لِيَخْلُقُوا حَبَّةً أَوْ لِيَخْلُقُوا شَعِيرَةً (البخاری)
“اللہ تعالی فرماتا ہے: اس سے بڑا ظالم کون ہو گا جو میری تخلیق جیسی تخلیق کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے لوگ ایک ذرہ، ایک دانہ یا ایک جَو ہی بنا کر دکھلائیں۔
❷ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا يَوْمَ القِيَامَةِ الَّذِينَ يُضَاهُونَ بِخَلْقِ اللَّهِ (البخاری)
“قیامت کے دن سب سے سخت عذاب ان لوگوں کو ہو گا جو (چیزوں کو بنانے اور پیدا کرنے میں) اللہ تعالی کی تخلیق کی مشابہت کرتے ہیں۔
❸ كُلُّ مُصَوِّرٍ فِي النَّارِ، يَجْعَلُ لَهُ، بِكُلِّ صُورَةٍ صَوَّرَهَا، نَفْسٌ يُّعَذِّبُ بِهَا فِي جَهَنَّمَ ( بخاری)
“ہر مصور جہنم میں جائے گا۔ اس کی بنائی ہوئی ہر تصویر کے بدلے میں ایک جان بنائی جائے گی جس کے ذریعہ سے اس (مصور)کو جہنم میں عذاب دیا جائےگا۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی
Wednesday, 8 February 2017
پرانے کپڑوں جوتوں وغیرہ کا کیا جائے، ایک خوبصورت مضمون
استعمال شدہ چیزوں کا مصرف
چاہت محمد قاسمی
استعمال شدہ کپڑے، جوتے، چپل وغیرہ جنہیں ہم گراں قدر قیمت دے کر خریدتے ہیں اور کبھی ضرورت میں، کبھی شوقیہ استعمال کرتے رہتے ہیں، کثرتِ استعمال کی وجہ سے وہ چیزیں قابلِ استعمال ہونے کے باوجود کبھی ہمارے دل سے اتر جاتی ہیں اور کبھی ان میں معمولی نقص پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اسی قسم کی نئی اعلی ترین شے ہماری منظور نظر بن جاتی ہیں۔
استعمال شدہ بوسیدہ پرانے کپڑے، جوتے، چپل وغیرہ کا کیا کیا جائے؟ یہ ایک مستقل سوال ہے اس کے چند مصارف ہوسکتے ہیں جیسے ان کو پھینک دیا جائے، فروخت کردیا جائے، اپنے پاس رہنے دیا جائے یا پھر بہترین اور اعلی مصرف یہ ہے کہ ان کو کسی مستحق کو دے دیا جائے، یہی آخری مصرف ہمارا موضوع ہے،یہی بہترین اور اعلی مصرف ہے اور اسی کی جانب حدیث شریف میں رغبت دلائی گئی ہے۔ ترمذی شریف میں معلم انسانیت نبی اکرم محمد مصطفی ﷺ کا ایک نصیحت آمیز واقعہ کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:
لَبِسَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ثَوْبًا جَدِيدًا، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي، ثُمَّ عَمَدَ إِلَى الثَّوْبِ الَّذِي أَخْلَقَ فَتَصَدَّقَ بِهِ ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ لَبِسَ ثَوْبًا جَدِيدًا، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي، ثُمَّ عَمَدَ إِلَى الثَّوْبِ الَّذِي أَخْلَقَ فَتَصَدَّقَ بِهِ، كَانَ فِي كَنَفِ اللَّهِ وَفِي حِفْظِ اللَّهِ وَفِي سَتْرِ اللَّهِ حَيًّا وَمَيِّتًا . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ.
عمر بن خطاب نے نیا کپڑا پہنا پھر یہ دعا پڑھی «الحمد لله الذي كساني ما أواري به عورتي وأتجمل به في حياتي» ”( ترجمہ: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے ایسا کپڑا پہنایا جس سے میں اپنی ستر پوشی کرتا ہوں اور اپنی زندگی میں حسن و جمال پیدا کرتا ہوں) پھر انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: ”جس نے نیا کپڑا پہنا پھر یہ دعا پڑھی: «الحمد لله الذي كساني ما أواري به عورتي وأتجمل به في حياتي» پھر اس نے اپنا پرانا (اتارا ہوا) کپڑا لیا اور اسے صدقہ میں دے دیا، تو وہ اللہ کی حفاظت و پناہ میں رہے گا زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی“( ترمذی، 3560)
اس حدیث شریف میں پرانے لباس کے دینے کو صدقہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور دینے والے کو یہ خوش خبری بھی سنائی گئی ہے کہ یہ پرانے کپڑے دینے والا زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی اللہ کی حفاظت اور پناہ میں رہے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پرانی بوسیدہ چیز کسی کو کس طرح اور کس انداز میں دینی چاہئے، اس باب میں راقم آثم کا معمول تو یہ ہے کہ میں ان پرانی اشیا کو مرمت کراکے دیتا ہوں جیسے جوتوں پر پالش یا سلائی وغیرہ کی خامیوں کو دور کراکر، اسی طرح اگر لباس ہو تو اسکو دھوکر استری کرکے، جب ان چیزوں کو بہتر اور اچھی حالت میں ہدیہ کیا جاتا ہے تو لینے والوں کے دل میں بھی پرانی چیز کی اہمیت اور عزت پیدا ہوجاتی ہے اور پھر وہ ان کو خوشی خوشی استعمال بھی کر لیتے ہیں، دوسری بات میں اپنی چیزیں ایسے ہی شخص کو دیتا ہوں جن کا سائز ایسا ہو جو میری اشیا کو استعمال کر سکیں ورنہ انجام کار بے کار ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ صرف مجھ تنہا کا حال نہیں ہے بلکہ میں اپنے خویش و اقارب میں سب کو ایسا ہی کرنے کی رغبت دلاتا رہتا ہوں، جیسے ابھی تقریبا ایک دو مہینے قبل میں اپنے چھوٹے بھائی کے پاس دہلی میں ایک ضروری کام سے گیا ہوا تھا، ایک جگہ برادر خورد کے جوتے کا ذرا سا تلوا اکھڑ گیا، موچی دیکھ کر میں نے جڑوانے کا مشورہ دیا تو جواب میں اس نے کہا کہ میں دوسرے خریدنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور بعد ازاں ان کو پھینک دیا جائے گا، میں نے کہا پھر ان کو جڑوانا اور ان کی مرمت کرانا اور بھی زیادہ ضروری ہے، جس کے بعد انہیں کسی کو دیدینا زیادہ بہتر رہے گا اور اس میں آپ ثواب کے مستحق بھی ہوجائیں گے۔
اس باب میں مزید ایک بات یہ ذکر کی جانی ضروری ہے کہ ہمارے کچھ بزرگوں اور علما کا یہ طریقہ بھی قابل ذکر رہا ہے کہ وہ اپنے پاس موجود کپڑوں کی ایک تعداد متعین کرکے رکھتے تھے کہ ہمیں اپنے پاس 3 جوڑوں یا 5 جوڑوں سے زیادہ نہیں رکھنے ہیں جیسے ہی کوئی نیا لباس تیار ہوکر آتا، وہ اپنے پاس متعین تعداد سے ایک لباس فورا کسی کو دے دیتے تھے تاکہ کپڑوں کی متعین تعداد باقی رہے، یہ عمل ہمارے لئے بہترین اصول زندگی بن سکتا ہے۔
آخری بات: ضروری نہیں کہ یہ پرانی اشیا دینے کے لئے آپ کسی غریب سے غریب تر کو ہی تلاش کریں بلکہ اس کے لئے میں یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ پہلے اپنے گھر میں چھوٹے بڑے بھائیوں میں سے کسی کو دیکھئے، پھر کسی رشتہ دار دوست و احباب، نوکر، شاگرد وغیرہ کو، بعد ازاں کوئی بھی ہوسکتا ہے۔۔۔ اس سے جہاں آپ دوگنے ثواب کے مستحق ٹہریں گے وہیں یہ عمل آپ کے تئیں محبت میں بھی اضافہ کا سبب بن جائے گا۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی