Sunday, 22 September 2024

مسنون تعزیت اور ہمارا غلط رویہ

مسنون تعزیت اور ہمارا غلط رویہ

چاہت محمد قریشی قاسمی 

جب کسی شخص پر مصائب، پریشانی اور مشکل حالات  آتے ہیں، یا کسی کا قریبی عزیز،  اور پیارا اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے تو اس شخص پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں اور وہ شخص حزن و ملال اور رنج و الم کی تصویر بن جاتا ہے، کبھی کبھی تو حال سے بے حال، مجنون اور دیوانے جیسی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اسی لئے اس غمزدہ کی غمخواری اور حزن و ملال میں ڈوبے شخص کی حوصلہ افزائی اور صبر جمیل کی تلقین نیز آخرت میں اجر جزیل کی بشارت کے لئے شریعت مطہرہ نے تعزیت کو مسنون قرار دیا ہے جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کی تو اس کے لئے مصیبت زدہ کے برابر ثواب ہے۔ (ترمذی) 
نیز ابن ماجہ شریف میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا جو مومن اپنے بھائی کی مصیبت کے وقت اس کی تعزیت کرے گا ، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن عزت وشرف کا لباس پہنائیں گے۔
ان دو احادیث کے علاوہ بھی تعذیت کی فضیلت نبی کریمﷺ کے اقوال و افعال سے ثابت ہے۔ 
جب کسی کی تعزیت کے لئے جائیں تو اس بات کا پوری طرح خیال رکھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے مصیبت زدہ مغموم شخص کو نرمی، محبت، اپنائیت اور پیار سے تسلی دیں، صبر جمیل کی تلقین کریں اور آخرت میں اجر جزیل کی بشارت سنائیں خاص طور سے نبی کریمﷺ، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور بزرگان دین نے جس طرح مصائب پر صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا ہے اس کے واقعات سناکر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صبر و استقامت کی تلقین کریں جیسا کہ نبی کریمﷺ نے مصیبت کے وقت اپنی پیاری بیٹی کے لئے ان کے لخت جگر  کے انتقال کے موقع پر یہ الفاظ ارشاد فرمائے تھے  إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ ، وَلَهُ مَا أَعْطَى ، وَكُلَّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُّسَمًّى، فَاصْبِرْ وَاحْتَسِبْ 
ترجمہ: یقیناً اللہ ہی کا ہے جو اس نے لے لیا، اور جو اس نے عطا کیا وہ بھی اسی کا ہے، ہر چیز اس کے پاس لکھے ہوئے ایک مقررہ وقت تک کے لیے ہے، اس لیے سو تم صبر کرو اور ثواب کی امید رکھو۔
لیکن افسوس صد افسوس آج ہمارا رویہ اور انداز بدل گیا ہے جس چیز کو اللہ نے دل جوئی کے لئے بنایا تھا وہی دل شکنی کا سبب بن گئی ہے، جس چیز کو حزن و الم دور کرنے کے لئے بنایا تھا وہی غم بڑھانے کا سبب بن گئی ہے،  ہم نے اس مسنون تعزیت کا انداز بدل دیا اور ایسے انداز میں تعزیت کرنے لگے ہیں کہ غمزدہ شخص کا اس سے غم  مزید بڑھ جاتا ہے اور وہ بے چارہ اپنے آپ کو ایک مجرم تصور کرنے لگتا ہے، کبھی کبھی تو اس سے ملاقاتیوں سے بھی وحشت ہونے لگتی ہے اور وہ ملنے والوں سے ڈرنے لگتا ہے کیوں کہ یہ ملاقاتی اس کا غم ہلکا کرنے کی بجائے مزید بڑھا دیتے ہیں اور فون کرنے والے تو اس سے بھی برے ثابت ہوتے ہیں۔
 اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب اہلیہ مرحومہ کا انتقال ہوا یہ وہ  وقت تھا جب مجھ پر اور میرے اہل خانہ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا اور ہم سب مغموم و ملول تھے اس وقت اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ ہمارے عوام تو عوام بہت سے خواص کی تعزیت بھی صبر و استققامت کی تلقین اور تسلی کی بجائے غم کا سبب بنتی ہے، مثلا ایک بات تو تقریبا آنے والے سبھی حضرات کہتے تھے کہ اگر مریضہ کو فلاں جگہ دکھا دیا جاتا تو بچ جاتی یا آپ نے فلاں غلطی کی اگر اس طرح کرتے تو بچ جاتی وغیرہ وغیرہ جس سے اپنی غلطی کا احساس شدید سے شدید تر ہوتا چلا جاتا تھا اور میں اپنے آپ کو مجرم تصور کرنے لگتا تھا، مجھے لگتا کہ میری غلطی کی وجہ سے میری عزیز از جان بیوی مجھے چھوڑ کر چلی گئی اور میرے بچوں کے سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا لہذا یہ باتیں غم، حزن و ملال میں اضافہ کا سبب بن جاتی تھیں، اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب تک کئی مہینے بعد میں نے رمضان کے ختم قرآن کے موقع پر  تقریر کرتے ہوئے اس طرف توجہ نہیں دلائی اور لوگوں سے کہا کہ کسی کے مرنے اور دنیا سے رخصت ہونے  کے بعد اس طرح کی بات کہنے والے گویا کہ موت کے مقررہ وقت  کا انکار کر رہے ہیں کہ جس کو اللہ مارنا چاہتا ہے اس کو فلاں ڈاکٹر بچا لیتا ہے یا کسی بڑے ہاسپٹل میں پہنچ کر وہ بچ جاتا ہے، یاد رکھیں ایسا بالکل ممکن نہیں ہے کہ جس کی موت جس وقت، جہاں اور جس طرح اللہ نے لکھ دی ہے وہ آکر ہی رہے گی،  اس کو نہ کوئی روک سکتا ہے اور نہ ہی اس کو اس کے وقت سے کوئی ٹال سکتا ہے اور رہی غلطیاں تو جب کوئی کام بگڑتا ہے یا مصیبت آتی ہے تو اس میں اپنی غلطیاں اور معصیتیں ہی کار فرما ہوتی ہیں۔ لیکن ایسے غم کے موقع پر مصیبت زدہ کی غلطیاں شمار کرا کر اس کو مزید مصیبت میں ڈالنا اور غم میں ڈبو دینا بے موقع اور بے محل ہے جس سے غم اور حزن و ملال ہلکا ہونے کی بجائے بڑھ جاتا ہے حالانکہ مسنون تعزیت غم ہلکا کرنے اور حزن و ملا دور کرنے کے لئے ہے نہ کہ غم بڑھانے کے لئے۔
تعذیت کا کیا انداز ہونا چاہئے اور اس کا مسنون طریقہ کیسا ہونا چاہئے، یہ ہم نے اوپر مختصرا ذکر کردیا ہے لیکن اب ہم اہلیہ مرحومہ کے انتقال کے وقت اپنے ملول دل کو مزید ملول اور غمزدہ ماحول کو بہت زیادہ غمزدہ کرنے والے  غلط انداز  میں تعزیت  کے چند واقعات مثال کے طور پر ذکر کرنا چاہتے ہیں تاکہ قارئین کو اس سے کچھ سبق حاصل ہو اور سبھی حضرات اس میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
تعزیت ایک مسنون عمل ہے، ایک عبادت ہے، ایک بندہ کا دوسرے بندے پر حق ہے، یہ حسن سلوک ہے جو ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ کرتا ہے، اس سے مصیبت زدہ کی مصیبت کم تو نہیں ہوتی البتہ اس کو مصیبت کے وقت کچھ حوصلہ مل جاتا ہے، پریشان حال مغموم شخص کا غم کچھ ہلکا ضرور ہوجاتا ہے اس لئے سبھی لوگوں کو چاہئے کہ تعزیت ضرور کریں اور بوقت تعزیت نرمی کا سلوک کریں، اپنائیت کا اظہار کریں، صبر جمیل کی تلقین کریں، اجر جزیل کی بشارتیں سنائیں اور جہاں تک ہوسکے ایسی باتوں سے گریز کریں جن سے مصیبت زدہ کی مصیبت بڑھ جائے،  اس کا غم زیادہ ہوجائے، اس کی مشکلوں اور پریشانیوں میں اضافہ ہو جائے لیکن کیا کریں ہر چیز میں حد سے تجاوز کر جانا ہماری عادت سی بن گئی ہے اس لئے تعزیت جیسی عظیم سنت کو بھی ہم نے نہیں بخشا ہے اور جانے ان جانے میں ہم مصیبت زدہ مغموم کا غم ہلکا کرنے کی بجائے اور زیادہ کر دیتے ہیں، ہمارے ساتھ اہلیہ کے انتقال کا پرملال سانحہ پیش آیا تو ہمیں نت نئے تجربات ہوئے اور ہم نے لوگوں کے مختلف رویے اور الگ الگ انداز کو دیکھا بہت سے زخم اب  بھی تازہ ہیں، بہت سی باتیں نہ چاہتے ہوئے بھی اب تک بھول نہیں پائے ہیں لہذا تعزیت کے چند واقعات ہم بطور مثال لکھ دیتے ہیں۔

1۔ ایک مفتی صاحب سے میرا بہت ہی خاص تعلق ہے، ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے، صاحب علم بھی ہیں اور صاحب نسبت بھی، میں ان کو صالح اور مصلح بھی تصور کرتا ہوں لیکن اہلیہ مرحومہ کے انتقال کے بعد قبرستان ہی میں بوقت تدفین تو ملاقات ہوئی تھی بعد ازاں وہ تعزیت کے لئے تشریف نہیں لاسکے ممکن ہے کچھ عذر ہو، میں ان سے ناراض نہیں ہوں لیکن صحیح بات یہی ہے کہ مجھے اس وقت ان کی بہت زیادہ ضرورت تھی، میرے ان سے گہرے تعلقات تھے، میں نے ان کو اپنا بڑا بھی مانا تھا، وہ میرے مزاج شناس بھی تھے، میں ان کو اپنے دل کی بات کہنا بھی چاہتا تھا تاکہ دل کچھ ہلکا ہو۔
نیز ان کے تعزیت کرنے سے میرا غم ہلکا بھی ضرور ہوسکتا تھا، ان کے تشریف لانے سے میرے چہرے پر مسکراہٹ آسکتی تھی خواہ عارضی ہوتی حتی کہ ایک مرتبہ کی آمد سے بھی بہت سکون میسر آجاتا اور جس طرح کے ان سے میرے تعلقات  تھے ان کو کئی مرتبہ بلکہ بار بار میری تعذیت کے لئے تشریف لانی چاہئے تھی لیکن تشریف لانے اور تعزیت کے لئے آنے کی بجائے انہوں نے کسی صاحب کے ذریعہ کہلا بھیجا کہ مبتلائے مصیبت اپنا محاسبہ کریں کہ آخر یہ واقعہ میرے ساتھ ہی کیوں پیش آیا ؟ ان کی اس بات سے مجھے بہت تکلیف پہنچی تھی، میرا غم بہت ہی زیادہ بڑھ گیا تھا، میں ہر وقت اپنا محاسبہ کرتا رہتا، روز گھنٹوں پڑا سوچتا رہتا، تفکرات کے سمندر میں غرق ہوجاتا،  اپنے کئے ہوئے گناہوں پر نظر کرتا تو سمندر کے جھاگ کے برابر نظر آتے، لگتا تھا یہ میری پکڑ ہے، میرے گناہوں کی وجہ سے میری عزیز از جان اہلیہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہے، میرے ہی گناہوں کی وجہ سے میرے نھنے نھنے بچوں کے سر سے مشفق ماں کا سایا اٹھ گیا ہے، بہر حال یہ تو اللہ رب العزت ہی کو معلوم ہے کہ وہ پکڑ تھی یا امتحان لیکن پکڑ کی اللہ غفور رحیم سے امید نہیں رکھتا ہوں اور آزمائش کے میں لائق نہیں ہوں بہر حال کچھ بھی ہو لیکن یہ بات کہنا اس وقت مفتی صاحب کے بالکل شایان شان نہ تھا، اگرچہ میں معترف ہوں کہ میں گناہ گار ہوں سراپا خطاکار ہوں لیکن تب بھی کسی مصیبت زدہ کو مصیبت کے وقت ایسی بات نہیں کہنی چاہئے چونکہ تعزیت کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ آدمی نرمی، محبت، اپنائیت سے ملاقات کرکے صبر جمیل اور اجر جزیل کی تلقین کرے، جیسا کہ ہم نے مضمون کے شروع میں عرض کیا ہے، نیز حضرت مفتی صاحب تو بڑے آدمی ہیں میں ان کے متعلق اس طرح کا تصور بھی نہیں کر سکتا البتہ میرا ناقص خیال ہے کہ بوقت تعذیت اس طرح کی بات سے ایک تو سوئے ظن کا اظہار ہوتا ہے کہ گویا ایسی بات کرنے والے لوگ مصیبت زدہ کو گناہ گار سمجھ کر اللہ کی پکڑ کا مستحق گردانتے ہیں دوسرے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو گناہگار ہی نہیں سمجھتے یعنی ان کو لگتا ہے کہ دوسروں پر آئے مصائب و آلام  ان کی پکڑ کا سبب ہیں، جو ان کے گناہوں کی وجہ سے ہوئی ہے اور وہ لوگ جو خود مصائب و آلام سے محفوظ ہیں (اللہ ان کو ہمیشہ محفوظ رکھے) ان کے گناہگار نہ ہونے کی وجہ سے ہے، واللہ اعلم بالصواب۔
2۔  ایک اور مفتی صاحب جو کسی جامع مسجد کے امام و خطیب اور متعد تنظیموں کے صدر بھی ہیں، انہوں نے اہلیہ مرحومہ کے انتقال پرملال کے دوسرے روز برائے تعذیت فون کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ کو اب تو اہلیہ کی زیادہ ضرورت تھی ابھی وہ رخصت ہوگئی، وہ ابھی تو بچوں کی پرورش کرتی، آپ اکیلے کیسے بچے پالیں گے؟ سب کچھ کیسے ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ، یہ ایسی باتیں ہیں جو مسنون تعزیت کے برخلاف ہیں اور ایسی باتوں سے غم ہلکا ہونے کی بجائے مزید بڑھ جاتا ہے لہذا ان سے ضرور بچنا چاہئے۔ لوگ ترس کھانے کے لئے رحم دلی کے نام پر اس طرح کے الفاظ زبان سے نکالتے ہیں جو غمگین کو مزید غم بڑھا دیتے ہین،  پریشان حال کو اور زیادہ پریشان کردیتے ہیں اور مصیبت زدہ کی مصیبت میں اضافہ کا سبب بن جاتے  ہیں اس لئے ضروری ہے کہ مسنون تعزیت میں سنت کے مطابق احتیاط سے بات کریں اور سوچ سمجھ کر الفاظ منہ سے نکالیں۔
3۔ تعزیت کے تیسرے دل خراش واقعہ پر آپ بھی سر دُھنتے رہ جائیں گے اور کف افسوس ملتے ہوئے نہ تھکیں گے۔
 ایک تیسرے مفتی صاحب میرے بہت خاص دوست ہیں، جو صحاح ستہ میں علاوہ بخاری کے شاید سب ہی کتابیں پڑھا چکے ہیں، فون کرکے مذاقا فرمانے لگے، اب تو فرصت ہی فرصت ہے؟ اب تو تمہیں آزادی ہے؟ کوئی روک ٹوک بھی باقی نہیں رہی اب تو ملاقات کے لئے آجائیں۔ ان کی اس بات سے انتہائی تکلیف پہنچی تھی اور ان باتوں نے میرے غم میں بے انتہا اضافہ کردیا تھا، گو موصوف کے لئے یہ ایک مذاق تھا لیکن ان کے اس مذاق سے مجھ مصیبت زدہ پر کیا گذری تھی میں اس  کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنا سکتا۔
یہ چند واقعات علما کرام کی تعزیت کے بطور مثال ذکر کئے گئے ہیں وہ بھی اس لئے کہ ہم نصیحت حاصل کریں اور کسی کی تکلیف کا سبب نہ بنیں۔ نیز آپ غور کیجئے کہ خواص کا یہ حال ہے تو عوام کا کیا حال ہوگا؟ 

Thursday, 12 September 2024

حضرت جی مولانا قاری شاہ عبدالستار بوڑیوی دامت برکاتھم

حضرت جی مولانا قاری شاہ عبدالستار بوڑیوی دامت برکاتھم 

انہیں کی شان کو زیبا نبوت کی وراثت ہے۔

ازقلم:  چاہت محمد قریشی قاسمی گنگوہ

 ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّيينَ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْاعَلَیْہِمْ اٰیٰتِہ ویُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ․ (سورہ جمعہ، آیت:۲)
ترجمہ: ”وہی ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کریں اور ان کو پاکیزہ بنائیں اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں۔ 
قرآن کریم کی اس آیت کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے کہ تزکیۀ قلب اور اصلاحِ نفس کازریں سلسلہ اسلام کی آمدکے ساتھ ہی شروع ہوگیاتھا ، مصلحِ عالم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طریقہ سے صحابہ کرام کے قلوب کا تزکیہ اور نفس کی اصلاح فرمائی تھی اسی نہج اور طریقہ کی نقل صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین نے کی ہے اور بعد ازاں آج تک بزرگان دین کرتے آئے ہیں لہذا جس طرح  جسمانی اور بدنی امراض کے لئےاطبا اور ڈاکٹروں کی ضرورت پیش آتی ہے اسی طرح قلبی اور روحانی امراض کے لئے صالح، مصلح ماہر و موقع شناس  شیخ کامل اور پیرومرشد کا ہونا انتہائی ضروری ہے لہذا اس انحطاط اور تنزلی کے دور میں بھی حضرت عارف باللہ بقیۃ السلف الشاہ مولانا قاری عبدالستار صاحب بوڑیوی دامت برکاتہم تقویٰ وللہیت اور تزکیۂ نفس کے حوالہ سے بے مثال خدمات انجام دے رہے ہیں، 
حضرت شیخ کی مجلس میں حاضر ہوکر دل و دماغ پر سکون طاری ہوجاتا ہے اور بے ساختہ انسان بزبان حال یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ آج بھی الحمدلله تعالی ایسے کامل لوگ دنیا میں موجود ہیں جن کو دیکھ کر خدا یاد آتا ہے، ایسی شخصیات کا وجود دنیا میں باقی ہے جن کی صحبت میں ایک ساعت بیٹھنا ہزار سال بے ریا طاعت سے افضل ہے، ایسے حضرات دنیا میں باحیات ہیں جن کی نگاہوں سے دل بدل جاتے ہیں، ایسے اللہ والے دنیا میں باقی ہیں جن کی توجہ سے  گناہ گاروں کو نیکی کرنے کا جذبہ اور نیکوکاروں کو استقامت اور خلوص کا جام نصیب ہوتا ہے

یہی ہیں جن کے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر
انہیں کے اتقاء پر ناز کرتی ہے مسلمانی
انہیں کی شان کو زیبا نبوت کی وراثت ہے
انہیں کا کام ہے دینی مراسم کی نگہبانی
رہیں دنیا میں اور دنیا سے بالکل بے تعلق ہوں
پھریں دریا میں اور ہرگز نہ کپڑوں کو لگے پانی
 جو بیٹھے ہوں اپنی خلوت میں تو جلوت کا مزہ آئے
جو آئیں اپنی جلوت میں تو ساکت ہو سخن دانی

 پیر طریقت الشاہ مولانا عبدالستار صاحب بوڑیوی دامت برکاتہم کو
حضرت مسیح الامت مولانا مسیح اللہ جلال آبادی رحمۃ اللہ تعالی علیہ،  حضرت مولانا حکیم سید مکرم حسین سنسارپوری صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ اور حضرت مولاناسیدمحمودحسن پٹھیڑوی قدس سرہ کے علاوہ اور بھی کئی حضرات مشائخ سے تصوف و سلوک میں  خلافت و اجازت  حاصل ہے اور شاید انہیں بزرگان دین کی صحبت کا اثر ہے کہ حضرت کے اندر وہ تمام صفات پائی جاتی ہیں جو ایک قابل و ماہر شیخ اور پیر و مرشد میں ہونی چاہئے لہذا حضرت بوڑیوی دامت برکاتہم کی سحر لسانی کا یہ عالم ہے کہ پندو نصائح زبان سے پھول بن کر نکلتے ہیں اور سامعین کو مسحور کرلیتے ہیں، ہمدردی اور اپنایت کا جذبہ ایسا نظر آتا ہے کہ انسان اپنا درد بیان کرکے اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرلیتا ہے، حسن اخلاق کا عالم یہ ہے کہ پیرانہ سالی اور طبیعت کی ناسازی کے باوجود محبین، معتقدین اور مریدین کی پوری بات خندہ پیشانی سے سماعت فرماتے ہیں اور اطمینان سے جواب مرحمت فرما کر پورے اطمینان سے رخصت فرماتے ہیں، شیخ اور مصلح ایسے ہیں کہ حضرت کی فکر دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے آقائے کل ہادی عالم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے فکر کی عملی تفسیر ہوں۔
حضرت کے معتقدین، پیروکاروں اور مریدین میں صرف عوام ہی شامل نہیں ہیں بلکہ خواص کی کثیر تعداد بھی موجود ہے جن میں حضرات محدثین، مفسرین، مدرسین، علما اور قرا حضرات بھی شامل ہیں، ام المدارس دارالعلوم دیوبند، وقف دارالعلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور کے بڑے بڑے اساتذہ اور مدسین معرفت الی اللہ،  تزکیہ قلب اور  اصلاح نفس کے لئے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر عشقِ حقیقی کا جام نوش فرما رہے ہیں۔ آج کے زمانے کے نامور مصنفین، بہترین قلم کار،  منجھے ہوئے مؤلفین، ماہر فقہا ءکرام اور بڑے بڑے محدثین آپ کے جاری و ساری فیض سے سیراب ہورہے ہیں۔
نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

 ہمارے حضرت بوڑیوی دامت برکاتہم کا اصلاحی انداز بہت خوبصورت دلنشیں، نرم اور محبت آمیز ہوتا ہے، نہ کہیں غصہ ، نہ کہیں پھٹکار، نہ دھتکار، نہ جھٹکنا، نہ ڈانٹنا، نہ برا بھلا کہنا اور نہ ہی سست و کاہل جیسے القاب سے  نوازتے ہیں، شفقت اور محبت بھرے انداز میں سمجھاتے ہیں، میرے بچے اور مولوی صاحب کہہ کر مخاطب کرتے ہیں ہر آنے والے شخص سے آنے کا مقصد معلوم کرتے ہیں، ضعف، پیرانہ سالی اور بیماری کے باوجود حاضرین کی بات پوری توجہ سے سن کر اس کا حل بتاتے ہیں اور اس کو پند و نصائح سے نوازتے ہیں، بعد ازاں جو مانے اچھی بات ہے اور جو نہیں مانتا اس کو بہت پیار سے سمجھانے کے بعد فرماتے ہیں بھائی ہمارا کام بتانے کا تھا ہم نے بتادیا آگے تمہاری مرضی، ایک ایسی ہی  مجلس میں بندہ بھی موجود تھا چند نوجوان حاضر مجلس ہوئے حضرت نے حسب عادت ایک سے پوچھا کیوں آئے ہو کیا کرتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا ٹیلر ہوں کوٹ پینٹ سیتا ہوں، حضرت نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ بچا ہوا کپڑا مالک کو لوٹا دیا کریں بغیر اجازت اس کو اپنے پاس  نہ رکھا کریں! اس نے کہا کہ حضرت میں نے پرچی پر لکھوا دیا ہے کہ بچا ہوا کپڑا مانگ کر واپس لے لیں، تو جس کو ضرورت ہوگی لے لے گا۔ حضرت نے اس کو مزید قائل کرنے کی کوشش کی، جلال آباد کے ایک درزی کا واقعہ بھی سنایا کہ ہمارے زمانۂ طالب علمی میں جلال آباد میں ایک درزی ہوا کرتا تھا جو کپڑے کی کترن بھی کرتے کی جیبوں میں بھردیا کرتا تھا،  لیکن وہ سامع درزی صاحب  اسی طرح کے حیلے اور بہانے بتانے لگے، اخیر میں حضرت نے بڑی نرمی سے فرمایا بھائی مسئلہ تو یہی ہے جس طرح میں نے بتایا ہے اب تم ہی نہ مانو تو کیا کریں، تمہاری مرضی۔
حضرت جی مولانا قاری شاہ عبدالستار بوڑیوی دامت برکاتھم

اہلیہ مرحومہ کے انتقال کے بعد جب بندہ غم سے نڈھال، پریشان حال زندگی کے مشکل ترین حالات سے گذر رہا تھا توحضرت کی ہی محبت اور شفقت تھی جس کی وجہ سے میں اپنے آپ کو سنبھال پایا اور اپنی ذمہ داریاں جہاں تک بھی ممکن تھی نبھا پایا، حضرت بہت محبت، پیار سے بوقت ملاقات پیش آتے اور ملاقات کا انداز اتنا پیارا ہوتا کہ سب کچھ غم غلط ہوجاتا لہذا جیسے ہی جاکر سلام کرتے تو مصافحہ کے بعد سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کنپٹی پر ہاتھوں کو روک لیتے  اور محبت بھرے انداز سے میری خیر و عافیت معلوم کرتے،  بچوں کی خیریت دریافت فرماتے، گھر کے نظام اور پورے حالات معلوم فرما کر  صبر و شکر کی تلقین فرماتے، بڑی محبت اور پیار سے تنہائی میں بیٹھا کر سمجھاتے اور واپسی میں جب میں کچھ ہدیہ دینے کی کوشش کرتا تو فرماتے نہیں ابھی آپ کو پیسوں کی مجھ سے زیادہ ضرورت ہے، میں ہی تمہیں ہدیہ دوں گا اور ہدیہ عنایت فرماکر بہت محبت سے رخصت فرماتے یہ محبت، شفقت اور عنایت کیسی ہوتی تھی میں اس کو لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا، حضرت کی شفقت و محبت کا  یہ ایک بہت گہرا احساس ہے جو پوری زندگی میرے ساتھ باقی رہے گا اور میرے لئے بہت قیمتی سرمایا ہے۔
 نکاح ثانی کے بعد بچوں اور ان کی دوسری ماں کے درمیان محبت اور پیار باقی رہے اس کے لئے بھی میں نے حضرت کی ہی جانب رجوع کیا اور اپنی اہلیہ کو حدود شرع کی پاسداری کے ساتھ حضرت کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا، حضرت نے پردے کے پیچھے سے  اہلیہ کو بہت محبت اور پیار سے میری بچی کہکر مخاطب کیا، نماز، تسبیح وغیرہ کی تلقین فرمائی،  پانچ سو روپئے اہلیہ کو اور سو روپئے بچی کو عنایت فرمائے اور چوں کہ یہ ان پڑھ ہیں اس لئے ان کی بسم اللہ بھی شروع کرائی، اور مجھے ان کی تعلیم کی جانب توجہ دینے کی تاکید فرمائی۔
 میری طرح اہلیہ بھی بہت خوبصورت احساسات لیکر واپس ہوئی اور بار بار کہتی رہی کہ ابا جی کتنے پیار سے سمجھا رہے تھے۔ ویسے بھی حضرت کی زبان میں لطافت شائستگی، شستگی، محبت،  پیار اور اثر ہوتا ہے اس لئے زبان سے نکلی ہوئی ایک ایک بات سیدھے جاکر دل پر اثر انداز ہوتی ہے

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پرنہیں طاقت پروازمگررکھتی ہے

 ابھی کچھ روز قبل کی بات ہے ہمارے ایک شاگرد جو بر سر روز گار ہیں بیمار ہوگئے، بیماری بھی کیا تھی بس ذہنی مرض تھا، دل و دماغ پر موت کا خوف سوار ہوگیا تھا،  خوب ڈاکٹروں اور اطبا کو دکھایا بہت علاج کرائے لیکن کچھ بھی آرام نہیں ہورہا تھا نہ کچھ کھا پی رہے تھے اور نہ ہی کسی طرح بھی سکون میسر تھا، سوکھ کر لکڑی جیسے ہوتے چلے جا رہے تھے، بندہ ان حافظ صاحب کو لیکر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور کیفیت بیان کی حضرت نے چند باتیں بیان فرمائی اور قرآن کی آیت بڑھ کر اس کو نصیحت فرمائی کہ موت اٹل حقیقت ہے جو وقت پر آئے گی، چند باتیں ہی تو تھیں جو حضرت نے فرمائی تھیں جو ایسی زود اثر ثابت ہوئی کہ مریض فورا بالکل اچھا ہوگیا اور اچھا بھی ایسا فورا ہوا کہ خانقاہ ہی میں کئی وقت کے بھوکے مریض نے خوب سیر ہوکر کر کھانا کھایا اور کہنے لگا الحمدلله تعالی میں تو بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں اور اگلے ہی روز ماشاء اللہ تعالی صحت مند ہوکر اپنے کام پر کھڑا ہوگیا، یہ حضرت کی زبان کا ہی تو اثر تھا ورنہ نصیحت اور افہام و تفہیم تو بہت لوگ کرچکے تھے۔
مطلق آں آواز از شہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود
ان کی آواز حق کی آواز ہوتی ہے
اگرچہ حلق اللہ والوں کا ہوتا ہے۔

حضرت عام طور سے محبین، معتقدین، مریدین کو نماز، صفائی معاملات، حسن اخلاق، نرمی اور غصہ نہ کرنے کی کثرت سے تاکید فرماتے رہتے ہیں، بندے کو بھی حضرت نے غصہ سے بچنے کے لئے بہت تاکید فرمائی ہے،  حضرت نے ایک مرتبہ فرمایا اگر سامنے والے کو بھی غصہ آگیا تو کیا ہوگا؟ 
حضرت کی نصائح کا اثر یہ ہوا کہ غصہ گویا کافور ہوگیا، اب بحمد اللہ تعالی حضرت کی نصیحت سے غصہ برداشت کرنے کا مادہ پیدا ہوگیا ہے اور کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے۔

ان کو آتا ہے پیارپرغصہ
مجھ کو غصہ پہ پیارآتا ہے ۔ 

حسن اخلاق کے متعلق خوب نصیحتیں فرماتے ہیں ایک مرتبہ اپنے حضرت مسیح الامت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جب ہم سے کوئی موسم سرما میں ہاتھ ملاتا ہے تو کوشش کے باوجود بھی کم از کم  اوہ آہ تو کر ہی لیتے ہیں لیکن حضرت مسیح الامت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی زبان سے ایسے کلمات بھی جاری نہیں ہوتے تھے کہ کہیں سامنے والے کو تکلیف نہ پہنچ جائے۔

قرآن سے حضرت کو بے انتہا محبت و الفت ہے ممکن نہیں کہ کوئی مجلس قرآن کریم کے بغیر تذکرہ کے گزر جائے، حضرت نے سند تجوید شیخ القرا قاری محمد فتح صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے حاصل کی ہے، قاری فتح محمدصاحب پانی پتی اپنے خاص لب ولہجہ اور اشتغال بالقرآن کے حوالہ سے بہت نام ور قاری اور اھل دل بزرگ گزرے ہیں ان کی سند بھی حضرت کو حاصل ہے چنانچہ آپ قرآن کریم بہت اچھا اور فن قرات سے مزین پڑھتے ہیں، قرآن پڑھتے ہوئے منہ بنانے کے بہت خلاف ہیں لہذا خود پڑھ کر سناتے ہیں اور بار بار اپنے  منہ پر ہاتھ لگا کر دکھاتے رہتے ہیں کہ دیکھو کہیں سے منہ تو نہیں بگڑا ہے، جب بندہ سب سے پہلے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو سورہ فاتحہ سن کر سو روپئے انعام کے طور پر بھی حضرت نے عطا فرمائے تھے۔

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن​
گفتار میں، کردار میں، ﷲ کی برہان!​
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت​
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان​
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن​
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن!​