میں اکیلا کیا کرسکتا ہوں؟
ابوبصیر رضی اللہ تعالی عنہ..........
وہ ایک شخص جس نے مشرکین مکہ کو جھکنے پر مجبور کردیا
ازقلم: چاہت محمد قریشی قاسمی
لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو
مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں
اونچی نیچی فلک بوس پہاڑیاں دور تک پھیلی ہوئی تھیں، سورج ماند پڑ گیا تھا اور شام کا دھندلکا گہرا ہوتا چلا جا رہا تھا، پتھریلی زمین پر تین اشخاص ابھی بھی محو سفر تھے، ان میں سے ایک شخص دوسرے دو آدمیوں کا قیدی تھا، قیدی کے ہاتھ کسی رسی سے باندھے گئے تھے اور یہ بوجھل قدموں سے نا چاہتے ہوئے بھی ان لوگوں کے ساتھ چلا جا رہا تھا بلکہ کہنا چاہیے گھسٹتا جا رہا تھا لیکن یہ یہ قیدی مایوس نہیں لگتا تھا شاید اسی لئے وہ دوسرے دونوں آدمیوں کی باتوں میں دلچسپی لے رہا تھا اور ان دونوں کی باتوں کے انداز اور اطوار سے ان کی کمیوں خامیوں اور خوبیوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اچانک وہ دونوں ایک جگہ بیٹھ گئے اورانہوں نے اپنا زاد راہ نکالا اور کھانے لگے قیدی جو بہت دیر سے ان کو دیکھ رہا تھا، ان میں سے ایک کے مزاج کو سمجھتے ہوئے کہنے لگا: جناب عالی آپ کی یہ تلوار بڑی شاندار لگتی ہے؟
وہ آدمی فورا شیخی بگھارتے ہوئے بتانے لگا کہ یہ تلوار بہت انمول ہے، میں نے اس تلوار سے بہت سے معرکے سر کئے ہیں، بہت سے لوگوں کی گردن ریتی ہے، بہت سی جگہ فتح کے جھنڈے گاڑے ہیں، وغیرہ وغیرہ ۔ یہ شیخی خور آدمی اپنی مرغوب ترین غذا پاکر خوش ہوگیا تھا۔
قیدی نے بڑے سوچ سمجھ کر پینترہ چلا تھا، آدمی کے مزاج کو پہچان کر قدم اٹھایا تھا لہذا تیر نشانے پر لگا اور قیدی نے موقع کے حساب سے اگلی ضرب لگاتے ہوئے کہا: ہاں واقعی ذرا مجھے بھی تو دکھانا؟
اس شخص نے بغیر سوچے سمجھے فورا یہ تلوار قیدی کے ہاتھ میں پکڑا دی بس پھر تو قیدی نے موقع غنیمت جانا اور فورا ہی ایک ضرب میں اس کا سر تن سے جدا کردیا۔
جب دوسرے شخص نے یہ ماجرا دیکھا تو فورا ہی واپس مدینہ کی جانب دوڑ لگادی۔
یہ واقعہ حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے جنہوں نے اکیلے قریش مکہ کو ناکوں چنے چپوائے اور مشرکین کے دانت کھٹے کردئے اوران کو جھکنے پر مجبور کردیا لہذا آج کے اس پرفتن دور میں جب کہ مظلوم مسلمان پریشان اور مشکلوں میں گھرے ہوئے ہیں، ہر آدمی یہ سوچ رہا ہے کہ میں اکیلا کیا کرسکتا ہوں تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ ابوبصیر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرح وہ بھی بہت کچھ کر سکتا ہے۔
تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
صلح حدیبیہ جو در اصل فتح مبین تھی، اس میں کئی شقیں ایسی تھیں، جو مسلمانوں پر بڑا بھاری ظلم تھا انہیں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ مکہ سے کوئی آدمی مسلمان ہوکر مدینہ آئے گا تو وہ مشرکین مکہ کو واپس کرنا پڑے گا لیکن جو آدمی مدینہ سے مکہ آئے گا وہ واپس نہیں کیا جائے گا لہذا مکہ سے مسلمان ہوکر مدینہ آنے والے ایک شخص حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے اسی لئے حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالی عنہ کے پیچھے پیچھے مشرکین مکہ نے اپنے دو آدمیوں کو بھیج دیا جنہوں نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ معاہدے کے مطابق ہمارا آدمی واپس کر دیجئے!آپ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ ” تم مکے چلے جاؤ، تم جانتے ہو کہ ہم نے کفارقریش سے معاہدہ کرلیا ہے اور ہمارے دین میں عہد شکنی اور غداری جائز نہیں ہے ” حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ !(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ مجھ کو کافروں کے حوالہ فرمائیں گے تاکہ وہ مجھ کو کفر پر مجبور کریں ؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم جاؤ ! خداوند کریم تمہاری رہائی کا کوئی سبب ضرور پیدا کر دے گا۔ آخر مجبور ہو کر حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں کافروں کی حراست میں مکہ واپس جانے لگے۔ لیکن جب مقام ذوالحلیفہ میں پہنچے تو حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالی عنہ نے بڑی دانشمندی سے ایک کو قتل کردیا اور دوسرا مدینہ بھاگ آیا اور اس مرتبہ مدینہ جانے کا منظر بھی بدل گیا، پہلے ابوبصیرؓ آگے تھے اور یہ دونوں کافر پیچھے جب کہ اس مرتبہ ایک شکار ہونے کے بعد دوسرا کافر آگے تھا اور حضرت ابوبصیرؓ ننگی تلوار لئے ہوئے پیچھے پیچھے تھے، کافر ہانپتا کانپتا دہائی دیتا ہوا مسجد نبوی میں گھس گیا، آپﷺ نے اس کو دیکھ کر فرمایا یہ آدمی بہت زیادہ خوف زدہ معلوم ہوتا ہے۔
اس آدمی نے ہانپتے کانپتے ہوئے بارگاہ نبوت میں عرض کیا کہ میرے ساتھی کو ابو بصیر نے قتل کر دیا اور میں بھی ضرور مارا جاؤں گا۔ اتنے میں حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ننگی تلوار ہاتھ میں لئے ہوئے آن پہنچے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذمہ داری پوری کردی تھی کیونکہ صلح نامہ کی شرط کےمطابق آپ نے تو مجھے کفار کے حوالے کردیا تھا۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ اس نے مجھ کو ان کافروں سے نجات دے دی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا
وَيْلُ اُمِّهٖ مِسْعَرُ حَرْبٍ لَوْ کَانَ لَهٗ اَحَدٌ
اس کی ماں مرے ! یہ تو لڑائی بھڑکا دے گا کاش اس کے ساتھ کوئی آدمی ہوتا جو اس کو روکتا۔
حضرت ابو بصیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس جملہ سے سمجھ گئے کہ اگر مشرکین مکہ پھرمجھے لینے آگئے تو میں پھر ان کے حوالے کردیا جاؤں گا لہذا وہ وہاں سے چلے گئے اور ساحل سمندر کے قریب مقام’’ عیص‘‘ میں جاکر ٹہرگئے ،حضرت ابوجندل رضی اللہ تعالی عنہ بھی ایمان لانے کے بعد مشرکین مکہ سے پریشان تھے لہذا وہ بھی مکہ سے اپنی زنجیر کاٹ کر بھاگے اور وہیں پہنچ گئے۔ اسی طرح مکہ کے دوسرے مظلوم مسلمانوں نے بھی موقع پاکر کفار کی قید سے نکل نکل کر وہیں پناہ لینی شروع کردی۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
یہاں تک کہ اس جنگل میں ستر آدمیوں کی جماعت جمع ہوگئی۔یہ مقام اور جگہ بھی سوچ سمجھ کر چنی گئی تھی چونکہ محل وقو ع کے اعتبار سے قریش مکہ کے تجارتی قافلوں کا یہی راستہ تھا۔ جو قافلہ بھی آمدورفت میں یہاں سے گزرتا، یہ لوگ اس کو لوٹ لیتے۔ یہاں تک کہ کفار قریش کی ناک میں دم کردیا۔ بالآخر کفار قریش نے خدا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خط لکھا اور بعض روایتوں کے مطابق ابو سفیان کو بھیج کر درخواست کی کہ ہم صلح نامہ حدیبیہ میں اپنی شرط سے دست بردار ہوجاتے ہیں بس بدلہ میں حضرت ابوبصیرؓ اور ان کے ساتھیوں کو مقام عیص سے مدینہ بلا لیجئے۔
لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالی عنہ کو خط لکھا کہ اپنے ساتھیوں سمیت مدینہ آجائے لیکن وہ خط حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایسی حالت میں پہنچا جب حضرت ابوبصیرؓ پر نزع کا وقت طاری تھا، بس حضرت ابوبصیرؓ اس طرح دنیا سے رخصت ہوئے کہ یہ بشارت نامہ ان کے سینہ مبارک سے لگا ہوا تھا۔
وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے
بہرحال حضرت ابوبصیر رضی اللہ تعالی عنہ اکیلے ہونے کے باوجود وہ کام کرگئے کہ کفار اور مشرکین مکہ کا تکبر خاک میں ملادیا، انہیں جھکنے پر مجبور کردیا، اور اکیلے ایک شخص نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیاجو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔
لہذا میرا خیال ہے اس پرفتن دور میں ایسے واقعات ہمارے لئے کارگر ثابت ہوں گے اور ہمیں اس سے بڑا حوصلہ حاصل ہوگا۔